آخر کیا ہے ان اسرائیلیوں میں؟

بدھ 19 مئی 2021

Muhammad Arslan Tariq

محمد ارسلان طارق

آخر کچھ تو ہے ان اسرائیلیوں میں جو ہم مسلمانوں میں نہیں ہے۔ ورنہ ایسے ہی وہ فلسطین پر غالب تو نہیں۔ خطے کے نقشے کو رنگوں میں دیکھا جائے تو سفید لباس (یعنی مسلم ریاستوں کے رقبے) میں محض ایک گندے داغ جتنے رقبے کے حامل اس ملک اسرائیل نے مسلمانوں کو نتھ ڈالی ہوئی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی اس خطے کو ایک کھلواڑ بنا دیا گیا۔


پہلے نام نہاد لیگ آف نیشنز نے پہلی جنگ عظیم کے بعد اس کو برطانیہ کے حوالے کر دیا جہاں عرب اور یہود اکٹھے رہنے لگے۔ پھر دوسری جنگ عظیم میں یہود کےخوب قتل عام کے بعد سے پھر نام نہاد اقوام متحدہ نے سن 1948 میں اس کو دو حصوں میں تقسیم کروا کے اسرائیل کی باقاعدہ داغ بیل ڈالی اور فلسطینی عربوں کو ایک مخصوص خطہ مہیا کر دیا گیا۔

(جاری ہے)


تقسیم ھذا کے روز اول سے ہی فلسطینی عربوں نے اس کو قبول نہیں کیا اور پے در پے جنگوں کی نذر رہنے والا یہ خطہ آج تک اسی کیفیت میں ہے۔

ساٹھ اور ستر کے عشرے میں تو پھر بھی مشرق وسطی کے عرب مملک فلسطین کے شانہ بشانہ لڑتے رہے لیکن اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی امریکہ اوراسکے اتحادیوں نے مشرق وسطی کےان ممالک کی کمر توڑ کر رکھ دی اوروہاں کٹھ پتلیوں کی حکومت قائم کر دی جس کے توسط سے اب محض ایک ڈور کھینچ کر امریکہ ان عرب ممالک کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
یہ بات تو عیاں ہے کہ اسرائیل جیسی نام نہاد ریاست کا قیام اقوام متحدہ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور اس اقوام متحدہ میں مسلم ممالک کا اثر و رسوخ نہ ہونے کے برابر ہے۔

امت کا درد رکھنے والے کچھ حکمرانوں کی کاوش سے آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن(OIC) کا قیام تو عمل میں آ گیا مگر بعد ازاں سرمایہ دارانہ نظام کے ڈسنے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے شکنجے میں آنے کے باعث تمام اسلامی ممالک آزادانہ پالیسی بنانے میں ناکام رہے۔ اور اس فورم سے آج تک کسی مسلم ملک /خطے کو غیر قانونی قبضوں اور ظلم و زیادتی سے نجات نہیں دلا سکی۔

اس باعث اقوام متحدہ تو پرو ویسٹ مشنز میں کامیاب ہو رہی ہے اور او آئی سی اپنے کھوکھلے نعروں سے آگے جانے سے قاصر ہے۔
اب بات اس تقسیم تک ہی نہیں رکی جو سن 48 میں کر دی گئی بلکہ اب مسلم ممالک کے خاموشی اور اندرونی اختلافات کو دیکھتے ہوئے اسرائیل نے فلسطین کو دیے گئے علاقوں میں یہود کی آبادکاری کا آغاز کر چکی ہے تاکہ یہاں بھی آہستہ آہستہ وہ اثر و رسوخ قائم کر سکے۔
اور ہم مسلمان اپنے  اسلامی بین الاقوامی فورم میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی بجائے محض اپنے اپنے مورچوں میں بیٹھے صدائے جہاد بلند کر رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :