
قومی اعزازات
منگل 17 ستمبر 2019

محمد فہد صدیقی
ملک میں ''تبدیلی سرکار'' آنے کے بعد عوام کی مشکلات میں جس طرح اضافہ ہوا ہے ،اس کے بعد میں حکومت کو یہ تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ان اعزازات کے شعبوں میں اضافہ کرے ۔
(جاری ہے)
کہتے ہیں کہ کراچی میں کبھی ٹرام بھی چلتی تھی ۔یہاں کے شہری ڈبل ڈیکر بسوں کی سواری سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے اور سرکلر ریلوے کا ایک نظام بھی موجود تھا ۔حکمرانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے پہلے شہری ٹرام سے محروم ہوئے ،ڈبل ڈیکر بسوں کا سفر کھٹارا بسوں پر ختم ہوا اور سرکلر ریلوے کا نظام کرپشن کے بوجھ تلے دب گیا ۔کہتے ہیں کہ جب اس شہر کی آبادی ایک کروڑ سے بھی کم تھی اس وقت یہاں بسوں کے لاتعداد روٹس تھے اور اب جبکہ یہ یہاں کے نفوس دو کروڑ سے بھی زائد ہوچکے ہیں تو گنتی کی چند بسیں ان کا بوجھ اٹھانے کی کوشش کررہی ہیں ۔سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں ایئرکنڈیشنڈ ''گرین بسیں''متعارف کرائی گئیں ،جوشہریوں کے لیے ہوا کے تازہ جھونکے کی طرح تھیں ۔یہ بسیں شہر کی سڑکوں پر رواں دواں تھیں کہ نعمت اللہ خان کا دور نظامت اختتام پذیر ہوگیا اور شہر کے ''وارثوں'' کے ہاتھوں میں مقامی حکومت آگئی ۔بر صغیر کو تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے لوٹا تھا لیکن شہر قائد کی بدقسمتی سے یہ رہی کہ یہاں کے نام نہاد ''وارثوں'' نے اس بے دردی سے شہر کو لوٹا اور ظلم کیا کہ ''چنگیز'' سے لے کر ''ہلاکو'' تک عالم ارواح میں دہائیاں دینے لگے کہ خدا کے لیے ہمیں ظالم کہنا چھوڑ دو ۔کراچی کے نام نہاد ''وارثوں'' کی ان ''خدمات'' کے صلہ میں میری حکومت سے دردمندانہ اپیل ہے کہ ان کو ''تمغہ ظلم و جبر'' سے نوازا جائے جبکہ جس طرح کی سفری سہولیات سے اہل کراچی مستفید ہورہے ہیں ،اس کے لیے ''تمغہ استقامت'' کا اجراء کیا جائے ۔
''پولیس گردی'' تو ویسے پورے ملک میں ہی مشہور ہے لیکن کراچی اس کا خاص نشانہ ہے ۔یہاں کے پولیس اہلکار ایک خاص ہی رعب و دبدبے کے مالک ہیں ۔کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا خمیر دنیا کے پہلے ''جلاد'' سے نکلا ہے ۔یہ شہریوں کو بلاوجہ ''پار'' لگاکر ترقیاں بھی پاتے ہیں ۔لوگوں کو بلاجواز گرفتار کرکے ہزاروں روپے رشوت وصول کی جاتی ہے ۔سڑکوں پر ناکے لگائے جاتے ہیں ،جہاں اہل کراچی کی جیبیں خالی کرائی جاتی ہیں ۔کراچی پولیس کا خاصہ یہ ہے کہ جس علاقے میں جتنے ناکے ہوں گے وہاں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں اتنی ہی زیادہ ہوں گی ۔بھتہ خوری سے لے کر اغواء برائے تاوان تک کوئی ایسا جرم نہیں ہے جس میں ہماری پولیس کے اہلکار سہولت کار نہیں ہیں ۔پولیس والوں کے پاس تشدد کو تو ایسے نت نئے طریقہ کار ہیں کہ ظلم بھی شرماجاتا ہے کہ اور دہائی دیتا ہے کہ ''بس کرو''غریب کی جان لوگے کیا ۔پولیس تشدد میں اس ''بید'' کا زمانہ لد گیا ،جس پر لکھا ہوتا تھا کہ ''آجا مورے بالما تیرا انتظارہے ''اب جس طرح جدید ٹیکنالوجی آگئی ہے ،اسی طرح تشدد کا رواج بھی بدل گیا ہے ۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ پٹرول کے انجکشن سے لے کر ''چیرا'' تک ہماری پولیس کی ایجاد ہے ۔پولیس کی ان خدمات پر حکومت پاکستان کو چاہیے کہ انہیں ''تمغہ تشدد'' کا حق دار ٹھہرایا جائے جبکہ ظلم و جبر کا نشانہ بننے والے کراچی کے شہریوںکو ''تمغہ برداشت'' سے نوازا جائے ۔
ہوسکتا ہے کہ اہل کراچی کے لیے میری جانب سے دی جانے والی یہ تجاویز حکومت وقت کے لیے محض ایک مذاق ہوں لیکن اگر آپ اس شہر بے اماں کے باسی ہیں تو آپ یقیناً میری تجاویزسے اتفاق کریںگے ۔یہ کوئی مذاق نہیں ظلم ،جبر اور ڈھٹائی کی وہ داستان ہے جس کو شہر قائد کے عوام تین دہائیوں سے برداشت کررہے ہیں ۔کوئی بھی تو ان کے درد کا درماں بننے کو تیار نہیں ہے ۔جو خلوص کے ساتھ شہر کی خدمت کے لیے باہر نکلتے ہیں ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں ۔حکمران کراچی کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تو ان ''اعزازات''سے تو نواز سکتے ہیں ؟؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد فہد صدیقی کے کالمز
-
بزم کہکشاں
اتوار 4 اکتوبر 2020
-
حاضری قبول ہوئی۔۔۔
منگل 7 جولائی 2020
-
''شکریہ جناح ''
جمعرات 27 فروری 2020
-
دو ٹکے کی تبدیلی
ہفتہ 25 جنوری 2020
-
بس رہے نام اللہ کا ۔۔۔
بدھ 1 جنوری 2020
-
کہیں دیپ جلے کہیں دل
پیر 11 نومبر 2019
-
مقتول خود خنجر پر گرا تھا
ہفتہ 26 اکتوبر 2019
-
مولانا،آزاد ی مارچ اور جمہوریت
منگل 22 اکتوبر 2019
محمد فہد صدیقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.