
یہ گھوڑے بدلیں !
پیر 24 اگست 2015

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
اگلی صبح دونوں بھائیوں نے گھوڑے نکالے اور پڑوس کے گاوٴں کی طرف رخ کر کے انہیں سر پٹ دوڑانا شروع کر دیا ،ابھی آدھا سفر بھی طے نہیں کر پائے تھے کہ انہیں یاد آیا کہ باپ نے تو یہ کہا تھا کہ جس کا گھوڑا دیر سے پہنچے گا جائیداد اس کی ہو گی ،اب دونوں نے اپنے گھوڑوں کی باگیں کھینچ لیں ۔ دوونوں اس انتظار میں آگے نہیں بڑھ رہے کہ دوسرے کا گھوڑا آگے بڑھے اور پہلے اس بستی میں داخل ہو ، کوئی بھی آگے بڑھنے کے لیئے تیار نہیں تھا ، رات ہو گئی لیکن وہ دونو ں اپنی جگہ سے آگے نہیں بڑھے ۔ دونوں نے ایک گھنے درخت کے سائے میں ڈیرے ڈال دیئے اور ساری رات وہیں ٹھرے رہے ۔ اگلی صبح پھر وہی منظر، صبح اٹھتے ہی گھوڑوں پر کاٹھی ڈالتے لیکن پھر یہ سوچ کر رک جاتے کہ اس طرح اس کا گھوڑا آگے نکل جائے گا،کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں تھا۔ ان کے پاس کھانے پینے کا جو سامان تھا وہ ختم ہو چکا تھا ، آتے جاتے لوگ مسافر سمجھ کر انہیں کھانے کوکچھ دے دیتے اور یوں ان کا دن گزر جاتا ، ان کا با پ مرتے ہوئے انہیں عجیب مشکل میں ڈال گیا تھا،ان کی پریشانی برقرار تھی۔ کئی دن ایسے ہی گزر گئے ، ان کے کپڑے پھٹ گئے ، بال لمبے ،ڈاڑھیاں بڑھ گئیں اور بھوک اور پیاس نے انہیں ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل کر دیا تھا ۔ شروع شروع میں وہاں سے گزرنے والے لوگ انہیں مسافر سمجھ کر کچھ کھانے کو دے دیتے تھے لیکن اب لوگ بھی عادی ہو چکے تھے اور اب انہیں توجہ دئے بغیر گزر جاتے ۔ایک روز وہاں سے ایک بزر گ کاگزر ہوا ، وہ بزر گ ان کے پاس گیا اور پوچھا ”بیٹا میں کافی عرصے سے تمہیں یہاں دیکھ رہاہوں ،تم دونوں کے پاس گھوڑے بھی ہیں اور تم کسی اچھے گھرانے کے فرد معلوم ہوتے ہو ، شروع میں جب میں نے تمہیں دیکھا تھا تمہارے چہروں پر رونق بھی تھی ، کپڑے بھی اجلے اور صاف تھے اور تم صحت مند اور باوقار لگتے تھے لیکن تم مسلسل یہاں کیوں رکے ہوئے ہو اور اپنی یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے “وہ دونوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور بتایا کہ ہمارے باپ نے مرنے سے پہلے ہمیں اس مقابلے میں الجھا دیا ہے کہ جس کا گھوڑا بعد میں ساتھ والے گاوٴں پہنچے گا میری ساری جائیداد اس کے نام ہو گی اس لیئے اب ہم میں سے کوئی بھی اپنا گھوڑا آگے بڑھانے کو تیار نہیں ۔ بزرگ نے سارا قصہ سنا ، ایک لمحے کے لیئے توقف کیااور بولا ”تمہارے باپ کی وصیت کے الفاظ کیا تھے،یہی ناں کہ جس کا گھوڑا دیر سے پہنچے گا “ دونوں نے بیک زبان ہو کر کہاں ”ہاں “۔”تو پھر مسئلہ کیا ہے ، تم اپنے گھوڑے بدل لو “ بزرگ نے گھوڑوں کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔ دونوں نے یہ سنا تو فورا ایک دوسرے کے گھوڑے کی طرف لپکے اور یہ جا وہ جا ۔ اب وہ فراٹے بھرتے ہوئے منزل کی طرف بڑھ رہے تھے ،کچھ ہی دیر بعد دونوں ایک دوسرے کے آگے پیچھے منزل پر پہنچ چکے تھے ، فیصلہ ہو چکا تھا،جیتنے والے نے اپنا گھوڑا پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔ میرے خیال میں اس قوم کوبھی اب گھوڑے بدلنے کی ضرورت ہے ،اس قوم کے گھوڑے وہ حکمران ہیں جنہوں نے 68سالوں سے اس قوم کو دائروں میں محدود کر کے رکھ دیا ہے ، ہم دائروں میں مقید ایک قوم ہیں اور اب ہمیں ان دائروں سے نکلنے اور آگے بڑھنے کے لیئے ان گھوڑوں سے جا ن چھڑانی ہے ،اور اگر اب بھی ہم نے یہ گھوڑے نہ بدلے تو پھر مان لیں کہ ہمارا مقدر کبھی نہیں بدلے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.