آرمی چیف، آئیڈیالوجی اور خورشید ندیم

پیر 22 مئی 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

اگر میں آپ سے کہوں کہ اگر آپ نیک اعمال کریں ، اللہ سے ڈریں، تہذیب و شائستگی سے زندگی گزاریں اور حقو ق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھیں تو اللہ آپ کی اس دنیا کو ہی جنت بنا دے گا اور آگے سے آ پ کہیں کہ ہمیں کیا کرنی ہے جنت ، جنت اگر اتنی ہی اچھی ہوتی تو ہمارے جد امجد بابا آدم اور اماں حوا وہاں سے کیوں نکلتے ۔ دیکھیں یہاں آپ نے سیدھی سادھی بات کو کس طرح الجھا کر رکھ دیا ہے۔

یہ ایک منطقی مغالطہ ہے جس میں آپ کا مخاطب اصل مسئلے پر بات کرنے کی بجائے آپ کو ا س سے ملتے جلتے مسائل میں الجھا دیتا ہے ۔ سماجی انتہاء پسندی اس وقت پاکستان کااہم ترین مسئلہ ہے اور ہمارے بہت سارے مسائل کی اصل جڑ بھی ، لیکن یہاں چونکہ مذہب اور اہل مذہب کافی عرصے سے مشق ستم بنے ہوئے ہیں لہذا ہم اپنے اکثر مسائل کا الزام ان کے سر تھونپ کر مطمئن ہو جاتے ہیں گویا ہم نے دنیا فتح کر لی۔

(جاری ہے)

گزشتہ چودہ سوسالہ تاریخ میں مذہب جتنا آج مظلوم ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھا ، گویا مذہب نے اس ضمن میں وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے ۔ گزشتہ دنوں آرمی چیف نے راولپنڈی میں” انتہاء پسندی کے رد میں نوجوانوں کا کردار “ کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ، ان کا کہنا تھا کہ انتہاء پسندی کو اکثر مسلم معاشروں میں دین دار طبقات کے ساتھ جوڑا جاتا ہے ، انتہاء پسندی کو اسلام کے ساتھ جوڑنا ناانصافی اور خطرناک ہے ،بھارت میں انتہاء پسندی کے باعث ان کا قومی تشخص تباہ ہو چکا ہے ،آر ایس ایس کی انتہاء پسندانہ سوچ اور فلسطین کی محرومیاں بھی انتہاء پسندی کا شاخسانہ ہیں ،مغربی ممالک میں مساجد اور گردواروں کی بے حرمتی بھی انتہاء پسندی کی ایک شکل ہے اور انتہاء پسندی ایک بین الاقوامی رجحان کے طور پر ابھر رہی ہے “ آرمی چیف نے اپنی اس تقریر میں بین الاقوامی اور داخلی سطح پر انتہاء پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان ، اس کے اسباب اور اس کے نتائج و خطرات سے آگاہ کیا ہے۔

اس ضمن میں انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ اس وقت انتہاء پسندی کا جو رجحان جڑ پکڑ رہا ہے اس کی وجہ آئیڈیالوجی نہیں بلکہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جو عالمی اور مقامی سطح پر اپنی جگہ بنا رہا ہے ۔محترم خورشید ندیم کو آرمی چیف کی یہ سیدھی سی بات سمجھ نہیں آ سکی اور انہوں نے ہفتہ بیس مئی کے کالم میں آرمی چیف کے اس بیان پر نقد کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ انتہاء پسندی صرف مائنڈ سیٹ نہیں بلکہ ایک آئیڈیالوجی ہے اور اس آئیڈیالوجی کو مذہب اور اہل مذہب نے پروان چڑھایا ہے۔

محترم خورشید ندیم نے وہی منطقی مغالطہ دہرا یا ہے جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا ہے۔انہوں نے بات کو اصل تناظر میں دیکھنے کی بجائے اس کو دیگر موضوعات میں الجھا دیا ہے ، اگر موصوف آرمی چیف کے موضوع گفتگو اور ان کی تقریری کا بغورمطالعہ کرلیتے تو شاید انہیں یہ مغالطہ نہ ہوتا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں اس وقت انتہاء پسندی کی مختلف تحریکیں چل رہی ہیں ، بھارتی انتہاء پسندی، اسرائیلی انتہاء پسندی اور امریکی اتنہاء پسندی ، یہ انتہاء پسندی کی وہ صورتیں ہیں جو عالمی سطح پر دیکھی جا سکتی ہیں ، اس کے علاوہ ہر ملک اور ہر خطے میں انتہاء پسندی کا ایک رجحان پایا جاتا ہے جس کی وجوہات علاقائی اور مقامی ہوتی ہیں ، عالمی اور علاقائی انتہاء پسندی کی ان صورتوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو بلاشبہ یہ ایک مائنڈ سیٹ اور ذہنی ساخت کا نام ہے جس کا آئیڈیالوجی سے دور کا بھی تعلق نہیں ، آرمی چیف کی گفتگو کا اشارہ بھی اسی طرف تھا اور گفتگو کے سیاق و سباق سے یہ مفہوم بآسانی سمجھا جا سکتا تھا۔

لہذا انہوں نے اگرانتہاء پسندی کو ایک مائنڈ سیٹ قرار دیا ہے تو بلاشبہ وہ حق بجانب ہیں اور محترم کالم نگار کو یہ سیدھی سی بات سمجھنے میں اتنا تردد نہیں کرنا چاہئے تھا۔ بعض اوقات ایک مفہوم بدیہی طور پر بالکل واضح اور غیر مبہم ہوتا ہے لیکن مخاطب اسے اس لیے قبول نہیں کرتا کہ وہ اس کے مخصوص ذہنی سانچے کے مطابق فٹ نہیں بیٹھتااور اس کا ذہن اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔

وہ ذہن اپنے مخصوص ماحول اور اپنے فہم کی بنیاد پر ایک مخصوص ڈھانچہ تیار کر لیتا ہے اور کوئی بھی استدلال خواہ کتنا ہی مضبوط اور محکم کیوں نہ ہووہ اسے قبول نہیں کرتا۔ آپ انہیں قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائیں یا احادیث سے استدلال کریں یہ کبھی نہیں مانتا اور اس کا کوا ہمیشہ سفید رہتا ہے ۔ کیا محترم خورشید ندیم بتائیں گے کہ اس وقت عالمی سطح پر اتنہاء پسندی کی جو صورتیں پائی جاتی ہیں ان کے پیچھے کون سی آئیڈیالوجی کام کر رہی ہے ۔

اس وقت دنیا کے مختلف خطوں میں علاقائی اور داخلی سطح پر انتہاء پسندی کی جوصورتیں موجود ہیں ان کے پیچھے کو ن سی آئیڈیالوجی کام کر رہی ہے ۔ بذات خود ہمیں اس وقت داخلی سطح پر انتہاء پسندی کی جن صورتوں کا سامنا ہے ان کے پیچھے کون سے صحائف ہیں جن سے ا ستدلال کیا جا رہا ہے، ہمارے ہاں سیاسی انتہاء پسندی عروج پر ہے جس کا رونا وہ خود بھی روتے رہتے ہیں لیکن اگر وہ بتا کر میرے علم میں اضافہ کردیں تو میں ان کا مشکور رہوں گا کہ یہ انتہاء پسندی کو ن سی علمی بنیادوں پر استوار کی گئی ہے ۔

سماجی انتہاء پسندی جواس وقت ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، جس کے مظاہر ہم آئے روز دیکھتے رہتے ہیں اور مشال خان کا واقعہ اس کی ایک حالیہ مثال ہے اس کے پیچھے کو ن سی آئیڈیالوجی ہے اور اس کی علمی بنیاد کیا ہے ۔ دیکھیں ان سب صورتوں میں انتہاء پسندی کے پیچھے کوئی آئیڈیالوجی نہیں بلکہ یہ ایک مائینڈ سیٹ کے طور پر موجود ہے لیکن محترم کالم نگار کاذہن ایک خاص سانچے میں ڈھل چکا ہے اور وہ ہر بات کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں اس لیے ان کا ذہن آرمی چیف کی سیدھی سی بات کو قبول کرنے کا روادار نہیں ۔


جہاں تک بات ہے مذہبی انتہاء پسندی کی تو آرمی چیف کی تقریر کے کسی پہلو سے یہ مترشح نہیں ہوتا کہ وہ اس کے پیچھے موجودکسی آئیڈیالوجی کاانکار کر رہے ہیں ۔ویسے موصوف نے مذہبی انتہاء پسندی اور اس کے پیچھے موجود آئیڈیالوجی کے لئے جن نمائندہ گروہوں داعش، القاعدہ اور طالبان کو پیش کیا ہے، کیا ہم ان گروہوں کی غلط تشریحات کی بنیاد پر مذہب کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں اور اس کو مذہبی انتہاء پسندی کا نام دے سکتے ہیں ، یعنی اگر مسلمانوں کے چند گروہ کھڑے ہو کر اسلام کی غلط تعبیر و تشریح پیش کرتے ہیں تو ہم اس کی سزا مذہب کو کیوں دیتے ہیں ، تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلام کی غلط تعبیر و تشریح اور آج داعش، طالبان اور جاوید احمد غامدی اسلام کی جو تعبیر و تشریح پیش کر رہے ہیں اس کا بوجھ اسلام پر نہیں بلکہ اس کے ذمہ دار وہ مسلمان ہیں جو یہ غلط تعبیر پیش کر رہے ہیں اور اس کے لیے میرے خیال میں ہمیں” مذہبی انتہاء پسندی “ کی بجائے کوئی اور اصطلاح ڈھونڈنی چاہئے ۔

جس طرح محترم کالم نگار کا فکری سفر ایک ” امام “ پر جا کر رک گیا ہے اور اس کے علاوہ انہیں امت کی اجتماعی علمی روایت نظر نہیں آتی بعینہ ان کی کالم نگاری کا سفر بھی ایک خاص سمت میں چل نکلا ہے اور ان کا ذہن ایک خاص سانچے میں ڈھل گیا ہے ۔ میرے خیال میں انہیں اب آگے بڑھنا چاہئے ، لکیر پیٹتے رہنے سے البتہ اب کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :