
پنجاب یونیورسٹی پر رحم کریں!
منگل 8 مئی 2018

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
پنجاب یونیورسٹی پاکستان کی سب سے بڑی اور قدیم ترین یونیورسٹی ہے لیکن یہ گزشتہ چند سالوں سے لاوراث اور یتیم ہو گئی ہے ۔ گزشتہ ڈھائی سالوں سے یونیورسٹی کا کوئی مستقل وائس چانسلر متعین نہیں کیا گیا۔ پہلے ڈاکٹر مجاہد کامران توسیع لیتے رہے اور رہی سہی کسر عبوری وائس چانسلرز نے پوری کر دی۔ کچھ عرصہ قبل سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹرزکریا ذاکر کو عبوری وائس چانسلر متعین کیا گیا تو انہوں نے یونیورسٹی کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ لیا۔ خود کو مستقل کروانے کے چکر میں مقتدر حلقوں سے ساز باز شروع کر دی جس کے عوض یہ ان کے ناجائز کام ، سفارشی بھرتیوں اور آوٴٹ آف میرٹ نوازنے جیسے جرائم میں ملوث ہوتے رہے ۔ اپنی اہلیہ کو انتہائی کم مدت میں آوٴٹ آ ف ٹرن ترقی دے کر ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ بنا دڈالا۔ پنجاب یونیورسٹی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق ڈاکٹر زکریا ذاکر کی اہلیہ نے 1998سندھ میڈیکل کالج سے MBBSکیا اور 2000میں FCPSُُٓپارٹ ون کیا ۔ ان کی سپیشلائزیشن Gynaecology and Obstetricsتھی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا شعبہ بدلا اور2006میں پنجاب یونیورسٹی سے Papulation Sciencesمیں ایم اے کیا جس کے بعدا نہیں اپنے شوہر کے ڈیپارٹمنٹ میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کی ملازمت مل گئی ۔وہ چھ سال تک ریسرچ ایسوسی ایٹ رہیں ۔ 2012میں انہوں نے Papulation Sciencesمیں پی ایچ ڈی کر لی اور اس کے ساتھ ہی انہیں اسی ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر سلیکٹ کر لیا گیا ۔ اس کے بعد ان کی ”معجزاتی“ ترقی کا آغاز ہوا اور پہلے انہیں 2014میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بعد ازاں فل پروفیسر سلیکٹ کر لیا گیا ۔ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے لیے کم از کم دس سال اور فل پروفیسر کے لیے پندرہ سال کا تجربہ درکا ر ہوتا ہے لیکن ان کی اہلیہ کے معاملے میں ان سب قواعد اور اصول و ضوابط کو نظر انداز کر دیا گیا ۔یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ کسی بھی گورنمنٹ ادارے میں کسی فرد کی تقرری کے لیے شوہر اپنی بیوی کی Eligibilityکو Determineنہیں کر سکتا لیکن ڈاکٹر زکریا ذاکر نے ان تمام معاملات میں قوانین کی دھجیاں بکھیر دیں اور کسی اصول ضابطے کو در خور اعتناء نہیں جانا ۔ اپنی بیوی کو صر ف آٹھ سالہ ملازمت اور پی ایچ ڈی کے صرف دو سال بعد فل پروفیسر بنا کر یونیورسٹی کیلنڈر کی بھی صریح خلاف ورزی کی ۔ اس پر مستزاد یہ کہ خود عبوری وائس چانسلر بنتے ہی اہلیہ کو ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ بنا ڈالا جبکہ ان سے کہیں ذیادہ سینئر فل پروفیسر ڈیپارٹمنٹ میں موجود تھے ۔اور اگر یہ وی سی برقرار رہتے تو انہوں نے سنڈیکیٹ سے اہلیہ کی غیر قانونی اور آوٴٹ آف میرٹ تقرری کو قانونی تحفظ بھی دے لینا تھا اور اس سلسلے میں انہوں نے ساز باز بھی شروع کر دی تھی۔یہ صرف ڈاکٹر زکریا ذاکر کی داستان ہے ورنہ اس عظیم جامعہ کے ساتھ کسی نے وفا نہیں کی ۔ آپ کو اکثر ڈیپارٹمنٹس میں سفارشی بھرتیوں کی ایک لمبی قطار نظر آئے گی اور پھر یہ سفارش پر بھرتی ہونے والے لاڈلے یونیورسٹی کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں ۔ سفارش کلچر، اقرباء پروری ،خوشامدیوں کو نوازنااور طلبہ تنظیموں کی لڑائی یہ وہ اہم مسائل ہیں جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی جیسے عظیم ادارے کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ڈاکٹر زکریا ذاکر کو برطرف کر دیا تھا ۔ کیس کی سماعت کے دوران جب چیف جسٹس نے ڈاکٹر زکریا ذاکر سے پوچھا کہ انہوں نے کس حیثیت سے یونیورسٹی کی اسی کنال زمین حکومت کو بیچی تو اس کا ڈاکٹر زکریا ذاکر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔چیف جسٹس نے انہیں برطرف کیا تو موصوف کے پاوٴں کے نیچے سے زمین نکل گئی ۔انتہائی ندامت اور لجاجت کے ساتھ معذرت نامہ پیش کیا اور فریا د کی کہ میں اٹھائیس سال سے طلبہ کو پڑھا رہا ہوں ، میری ریٹائر منٹ میں صرف دو سال باقی ہیں ایک غلطی ہوگئی شفقت کرتے ہوئے اس کی معافی دی جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں استاد کا احترام جانتا ہوں ، نپولین نے استاد کے گھر میں پنا ہ لینے والوں کو معافی دی تھی ، آپ ذیادہ باتیں نہ کریں ورنہ سب سچ سامنے لے آوٴں گا ۔ یعنی اس کے علاوہ بھی کچھ سچ تھے جو صرف چیف جسٹس کو معلوم تھے اور عوام اور میڈیا ابھی تک ان کے بارے میں لاعلم ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر زکریا ذاکر نے اپنے مختصر سے عرصے میں پنجاب یونیورسٹی میں بدا نتظامی کے سبب اپنی معطلی اور بعد ازاں معافی کی درخواست کر کے اپنا سارا کیرئیر تباہ کر لیا ۔
چیف جسٹس کے بعد پنجاب کے دس کروڑ عوام بھی ڈاکڑ زکریا ذاکر سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے پنجاب یونیورسٹی کی اسی کنال زمین کس حیثیت سے حکومت کو فروخت کی ، کیا یہ آپ کی ذاتی جاگیر تھی ؟گوتلب لیٹنر یہودی ہوتے ہوئے پنجاب کو پنجاب یونیورسٹی جیسا عظیم ادارہ دے گیا اورہم نے 135سال بعد اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اسے بیچنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ ہم کیوں پیچھے ہیں فرق واضح ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.