کرہ ارض کا مستقبل!

پیر 6 مئی 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

کیا دنیا اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے ،کیا نسل انسانی کسی عظیم سانحے سے دو چار ہونے جا رہی ہے اور کیا ہم ایک بار پھر پتھر کے دور میں دھکیل دیئے جائیں گے؟ یہ آج کے دور کے اہم سوالات ہیں ، میں ان سوالات سے پہلے آپ کو ماضی میں لے جانا چاہتا ہوں ا وران سوالوں کے جواب آپ کو آخر میں دوں گا ۔ سائنس کہتی ہے اس کرہ ارض پر باشعور انسانوں (Sapiens)کا وجود دو لاکھ سال قبل وجود میں آیا ، اس سے قبل انسان جانوروں کے کسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس سے ارتقاء کرتے ہوئے دو لاکھ سال قبل شعور ی انسان وجود میں آیا ۔

سائنس کی اس تھیوری سے قطع نظر مذہب اور سائنس اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی تاریخ میں ایسے کئی دور آئے جب انسانی نسل کسی ہولناک تباہی سے دو چار ہوئی اور صرف چند افراد باقی بچے جن سے از سر نو نسل انسانی کی افزائش کا سلسلہ چلا ۔

(جاری ہے)

مثلا قرآن طوفان نوح کے بارے میں واضح راہنمائی فراہم کرتا ہے اور احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے طوفان نوح کے بعد کرہ ارض پرانسانی نسل کے صرف چند افراد باقی بچے تھے جو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں سوار تھے ۔

مذہب اس واقعے کو اپنے تناظر میں دیکھتا ہے جبکہ سائنس اس کی اپنی تشریح کرتی ہے مگر تنائج پر دونوں متفق ہیں کہ اس موقعہ پرسوائے چند افراد کے ساری نسل انسانی تباہ ہوگئی تھی،پھر انہی چند افراد سے یہ سلسلہ آگے چلا۔اس کے علاوہ بھی تاریخ میں ایسا کئی بار ہوا کہ انسانی نسل کسی عظیم تباہی سے دوچار ہوئی ،سائنس اور تاریخ ہمیں ایسی تباہیوں اور تہذیبوں کے ملیا میٹ ہونے کی داستان سناتی ہے ۔

اس کرہ ارض کی عمر تقریبا چار ارب سال ہے اور ان چار ارب سالوں میں اس نے سینکڑو ں ہزاروں نشیب و فراز دیکھے ہیں ۔ ماضی میں درجہ حرات میں اضافے کی وجہ سے پورا ہمالیہ کا سلسلہ پانی میں ڈوب گیا تھا اور یہی سب کچھ اب ہونے جا رہا ہے ۔ ایٹم بم چلنے یاسائنس و ٹیکنالوجی کی تباہ کن ترقی اور صنعتوں کی وجہ سے درجہ حرات میں روز بروز اضافہ بڑھتا جا رہا ہے ، اگر درجہ حرات میں یہ اضافہ اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو اس صدی کے آخرتک سمندروں کے نزدیک موجود تمام شہر سمندر برد ہو جائیں گے ۔

دنیا کے پاس اس وقت پندرہ ہزار ایٹم بم موجود ہیں اور اگر ان میں سے آدھے ایٹم بم بھی چل جائیں تویہ دنیا کے سات ارب انسانوں اور اس کرہ ارض کی تباہی کے لیے کافی ہیں ۔ اور اگر یہ سارے کے سارے چلا دیئے جائیں تو ہمارے نزدیک ترین سیارے بھی اس تباہی کی زد سے محفوظ نہیں رہیں گے۔مذہب و سائنس کی ان حقیقتوں اور ان سارے حقائق کے مد نظر آج یہ تھیوری پیش کر ناچنداں غلط نہیں ہو گا کہ نسل انسانی ایک بار پھر کسی ہولناک تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے ۔

سائنسی حقیقتوں ،نئی دریافتوں ، سائنس و ٹیکنالوجی کی بے ہنگم ترقی ،گلوبل وارمنگ،گرین پاوٴس گیسوں کا بکثرت اخراج، فیکٹریوں اور پاور پلانٹس سے نکلنے والا دھواں،خام کچرہ، تابکار فضلہ، نت نئی ایجادات، ایٹم بم ، زہریلی گیسوں ، کائنات کے رازوں سے چھیڑ چھاڑ ،الیکٹرانکس اشیاء کا بے جا استعمال اور اس کے نتیجے میں اوزون تہہ کی تباہی اور مذہب و نسل کی بنیاد پر تیسری جنگ عظیم کے بڑھتے ہوئے خدشات و رجحانات یہ سب حقائق اور تاریخ کا یہ بہاوٴہمیں کسی ہولناک تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے ۔

اسی حقیقت کو آپ ایک دوسرے پہلو سے بھی دیکھ سکتے ہیں ، آج انسان انسانیت کے نام پر دھبہ بن چکا ہے ،من حیث الانسان آج ہم حیوانیت سے بھی نیچے چلے گئے ہیں ، بدی اور برائی کے وہ طریقے دریافت کر لیے گئے ہیں جنہیں دیکھ اور سن کر روح کانپ اٹھتی ہے لیکن دنیا میں ایسے واقعات لاکھوں نہیں کروڑوں کی تعداد میں ہو رہے ہیں ۔ اس میں مشرق و مغرب کی بھی کوئی تفریق نہیں فرق صرف اتنا ہے مغرب و مشرق میں برائیوں کے معیارات الگ الگ ہیں ، مغرب نے انسانیت پرستی ، لبرلزم ، آذادی مذہب جیسے فلسفوں کے نتیجے میں وہ قانون سازی کی کہ انسانیت کے سر شرم سے جھک گئے، اس کی صرف ایک مثال ہم جنس پرستی اور اس کے بعد جانوروں کے ساتھ تعلقات جیسے عنوانات پر قانون سازی ہے ۔

انسانیت کے اس حد تک چلے جانے کے بعدکیا ممکن نہیں کہ انسانی نسل ایک بار بھر کسی عظیم اور ہولناک تباہی سے دو چار ہو جائے ۔مغرب کے بر عکس مشرق میں پائی جانے والی برائیوں کا معیار کچھ الگ ہے ، یہاں جھوٹ ، دھوکا، فراڈ ،لالچ، حرص،ہوس ،چوری، قتل ، بد زبانی ، بد تہذیبی ، پست اخلاقی معیار ، عدم برداشت ، انتہاء پسندی اور جہالت عام ہے ۔ آپ پاکستان ،ا نڈیا ، بنگلہ دیش یا افغانستان کی مثال لے لیں ، ہرطرف افراتفری اور ہاہو کار مچی ہے، لوگ سڑکوں اور بازاروں میں بھاگ رہے ہیں ، ایک دوسرے کو روندتے اوورٹیکنگ کرتے کسی ان دیکھی منزل کی طرف رواں دواں ہیں ۔

ہر طرف قیامت کا سماں ہے ، کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ ، سڑکوں پر گاڑیوں اور ٹریفک کا ہجوم ، ہر چھوٹے بڑے شہر میں ٹریفک جام ، ہر طرف تاحد نظر انسانوں کے سر ہی سر دکھائی دیتے ہیں ۔ انسان روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں لیکن انسانیت مر رہی ہے ، سر بڑھتے جا رہے ہیں مگر ضمیر مردہ ہوتے جارہے ہیں ۔بیٹا ماں اور باپ کو قتل کر رہا ہے ، مائیں اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد وں کو قتل کر رہی ہیں ، باپ بچوں کا گلا کاٹ رہا ہے، چھوٹا بڑے کا گریبان پکڑ رہا ہے اور بڑا چھوٹے کو قتل کر رہا ہے ، دلوں میں نفرتیں، کدورتیں ،حسد ، کینہ ، بغض، دشمنیاں، سازشیں اور غداریاں ہیں۔

اشیاء میں دھوکا، خوراک میں ملاوٹ ، خدمات میں جھوٹ ، باتوں میں منافقت، عمل میں سستی ، دلوں میں شقاوت اور عبادات میں ریا اور دکھلاوہ شامل ہے ۔ آج انسانی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ہم حیوانیت کے جس نچلے درجے تک جا گرے ہیں کوئی بعید نہیں کہ تاریخ کا تسلسل اور فطرت کا قانون یہاں بھی جاری و ساری ہواورساری نسل انسانی کسی عظیم اور ہیبت ناک تباہی کا شکار ہو جائے ۔

اس تباہی کے نتیجے میں صرف چند افراد باقی بچیں اور ان سے نسل انسانی کا از سر نو احیاء و بقا ممکن ہو ۔کسی خوفناک انجام کی طرف بڑھتی ہوئی انسانیت کی اس تھیوری کو تقویت ان احادیث سے بھی ملتی ہے جن میں آپ ﷺ نے قرب قیامت کی پیشنگوئی میں تیروں اور گھوڑوں کے لشکروں کے الفاظ استعمال کیے ہیں ، اگر احادیث کے لفظوں کو حقیقی معانی پر محمول کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ نسل انسانی کسی عظیم تباہی سے دوچار ہونے کے بعد واپس اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گی۔

ضروری نہیں یہ تباہی پہلی قوموں کی طرح آسمان سے عذاب الہی کی صورت میں نازل ہو بلکہ یہ خود انسانی اعمال و افعال کے نتیجے میں آشکار ہو سکتی ہے ۔ یہ بے ہنگم سائنسی ترقی کے نتیجے میں بھی رونما ہو سکتی ہے ۔ یہ تباہی مذہب و نسل اوروطن و قومیت کے جھنڈے تلے بھی نمودار ہو سکتی ہے اور یہ تہذیبوں کے تصادم کے رو پ میں بھی منظر عام پر آ سکتی ہے ۔

اس تباہی کے گہرے بادل تیسری جنگ عظیم کی صورت میں بھی اس کرہ ارض کے افق پر منڈلا رہے ہیں اور اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو انسانوں کے پا س موجود پندرہ ہزار ایٹم بم صرف اس کرہ ارض کو نہیں ہمارے قریبی سیاروں کو بھی تہس نہس کر دیں گے اور سائنس و ٹیکنالوجی کی یہ ساری ترقی ،یہ بلندو بانگ بلڈنگیں ملیا میٹ ہو جائیں گی اور صرف چند ہزار یا چند لاکھ بچنے والے خوش قسمت انسان از سر نو اس دنیا کو آباد کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :