بلی تھیلے سے باہر !!

ہفتہ 21 ستمبر 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

مولانامودودی اورمولانا امین احسن اصلاحی کے درمیان شروع دن سے ہی گہری رفاقت رہی تھی مگر پچاس کی دہائی میں جماعت کی پالیسیوں اورچند دیگر مسائل کی وجہ سے یہ رفاقت کمزور پڑگئی۔ انہی وجوہات کی بنا پر مولانا اصلاحی نے13 جنوری 1958 کواستعفاء لکھ کر مولانا مودودی کو روانہ کر دیا۔ مولانا مودودی نے ان کو اپنے پاس بلایا اور ان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی۔

ملاقاتیں جاری رہیں اور ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہے رہا ، اس دوران ایک دلچسپ مکالمہ پیش آیا ، مولانا اصلاحی نے اپنے ایک خط میں مولانامودودی کے تصور امارت اور امیر کو حاصل اختیارات پر اعتراضات کیے ، اس خط کے جواب میں مولانا مودوی نے لکھا :”کوٹ شیر سنگھ کے اجلاس شوریٰ میں میری افتتاحی تقریر کے متعلق آپ کا تصور یہ ہے کہ یہ کوئی بلی تھی جو بہت دنوں سے تھیلے میں چھپی ہوئی تھی اور اس روز مناسب موقع دیکھ کر تھیلے سے باہرآ گئی ہے۔

(جاری ہے)

اپنے پرانے دوست پر آپ کی یہ بڑی نوازش ہے کہ آپ اس کے متعلق اتنے بلند اور پاکیزہ خیالات رکھتے ہیں۔ ان خیالات سے واقف ہو جانے کے بعد میرے لیے یہ امید کرنا مشکل ہے کہ آپ کبھی میرے کسی قول کو اچھے مفہوم میں بھی لیں گے تاہم میرا اخلاقی فرض یہ ہے کہ میں اپنا ما فی الضمیر صحیح صحیح بیان کر دوں۔درحقیقت میرے پاس کبھی کوئی بلی نہ تھی جسے تھیلے میں چھپا کر رکھنے کی ضرورت مجھے محسوس ہوتی ہو اور اگر کوئی بلی تھی تو اگست1941ء میں جس روز پہلی مرتبہ جماعت بنی تھی اور کسی امیر کا انتخاب ہوا بھی نہ تھا اسی وقت میں نے اسے تھیلے سے نکال کر سب کے سامنے رکھ دیا تھا،آپ روداد اجتماع اول ملاحظہ فرما لیں۔


مولانا ا صلاحی کو یہ خط موصول ہوا تو انہوں نے مولانا مودودی کے نام جوابی خط میں لکھا :”آپ نے اپنی ”بلی“ کی تاریخ پیدائش ناحق بیان کرنے کی کوشش فرمائی ہے میں اس بات سے ناواقف نہیں ہوں کہ یہ بلی آپ کے تھیلے میں روز اول سے موجود ہے لیکن آپ کو یاد ہو گا کہ تقسیم سے پہلے الٰہ آباد کی شوریٰ کے اجلاس میں‘ میں نے اس کا گلا دبانے کی کوشش کی، یاد نہ ہو تو مذکورہ شوریٰ کی رْوداد پڑھ لیجئے۔

اس وقت تو یہ مر نہ سکی لیکن میں اور جماعت کے دوسرے اہل نظر برابر اس کی فکر میں رہے اور شوریٰ میں اس کی موت و حیات کا مسئلہ بار بار چھڑتا رہا یہاں تک کہ تقسیم کے بعد ہم نے جو دستور بنایا اس میں اس کی موت کا آخری فیصلہ ہو گیا۔ 
واضح رہے کہ جب اس کے قتل کا فیصلہ ہوا تھا تو اس وقت شرع شریف‘ مصلحت زمانہ اور اسلامی جمہوریت سب کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر ہوا تھا،اس کی تائید میں علماء کے فیصلے بھی حاصل کیے گئے تھے اور اہل نظیر کی رائیں بھی جمع کی گئیں تھیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ آپ اپنے عمل سے وقتاً فوقتاً اس کو زندہ بھی کرتے رہے لیکن ہمارے دستور نے اس کی زندگی تسلیم نہیں کی، اس سلسلہ میں جب کبھی آپ نے دستور کی مخالفت کی تو عموماً اپنے اقدامات میں بے بصیرتی کا ثبوت دیا جس سے جماعت کے اہل الرائے اس بارہ میں یکسو ہو گئے کہ یہ ”بلی“ مردہ ہی رہے تو اچھا ہے۔لیکن آ پ پر اس کی موت بڑی شاق تھی،آپ اس کو حیاتِ تازہ بخشنے کے لیے برابر بے چین رہے اسی کے عشق میںآ پ نے استعفاء دیا،ماچھی گوٹھ میںآ پ نے اس کے لیے رازداروں کو خلوت میں بلا کر سازش کی،پھر کوٹ شیر سنگھ میں اس پر مسیحائی کاآخری افسوں پڑھا اور یہ واقعی زندہ ہو گئی۔

اب آپ مجھے دعوت دیتے ہیں کہ میں پھر شوریٰ میںآ وٴں اور اس کے اندر رہ کر اس کو مارنے کی کوشش کروں تو میں اس سے معافی چاہتا ہوں۔ایک ”بلی“ برسوں کی محنت سے میں نے ماری‘ آپ نے وہ پھر زندہ کر دی اور اب آپ کی مجلس عاملہ نے اس کی رضاعت و پرورش کی ذمہ داری بھی اٹھالی، اب میں پھر اس کے مارنے میں لگوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی ساری زندگی اس ”گربہ کْشی“ ہی کی نذر کر دوںآ خر یہ کون سا شریفانہ پیشہ ہے۔

کچھ دن قبل جمعیت علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود اسعد مدنی کی تصویر سوشل میڈیا پرکیا وائرل ہوئی بہت سارے لوگوں کی بلی تھیلے سے باہرآ گئی۔ ایسا محسوس ہوا یہ بلیاں سالوں سے ان کے ضمیر کے تھیلوں میں پرورش پا رہی تھیں اور کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھیں۔ جیسے ہی یہ واقعہ رونما ہوا سب کی بلیاں تھیلے سے اچھل پڑیں۔ ان میں کچھ بلیاں تو سیکولر تھیں لیکن بہت ذیادہ تعداد مذہبی بلیوں کی تھی۔

اپنی بلیوں کو مذہبی ضمیر کے تھیلوں میں چھپانے والے احباب ہمیشہ ایسے واقعات کی ٹوہ میں رہتے ہیں ، جیسے ہی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے ان کی مرادیں برآتی ہیں اور بلیاں اچھل کر تھیلے سے باہر۔ مذہبی ضمیر کے تھیلوں میں جو بلیاں پرورش پاتی ہیں وہ سیکولر بلیوں سے ذرا ذیادہ خطرناک ہوتی ہیں ، سیکولر بلیاں خالی الذہن ہو کر ، تہذیب و شائستگی اوراصولی طریقے سے تھیلے سے باہرنکلتی ہیں لیکن جو بلیاں مذہبی ضمیر کے تھیلوں میں پرورش پاتی ہیں انہیں ایسے مواقع پر عموما تہذیب بھی یاد نہیں رہتی ، بس اچھل کود کرتی ، ہفوات بکتی اورمنہ سے جھاگ اڑاتی ہر طرف ہڑبونگ مچادیتی ہیں۔

جہاں تک بات ہے مولنا محمود مدنی اور ان کے ٹیم ممبران کے پینٹ شرٹ زیب تن کرنے کی تو صورت واقعہ یہ ہے کہ یہ مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں واقع ایک ٹریننگ سنٹر تھا جس میں 60 سے زائد علماء شریک تھے۔جمیعت علماء ہندنے ایک سال قبل جمعیت یو تھ کلب قائم کیاتھا جس کا ڈریس کوڈ پینٹ شرٹ اور ٹائی منتخب کیا گیا تھا۔ اس کے تحت نوجوان طلبہ کو ڈیفنس کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔

اس کلب کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اپنی صلاحیتوں کو ملک ،سوسائٹی اور معاشرہ کیلئے قابل استعمال بنایا جائے۔ (واضح رہے کہ اس تصویر میں جس کوٹائی کہا جا رہا ہے یہ ایک علامتی رومال ہے، اسکاوٴٹ کی اصطلاح میں اسے اسکارف”Scarf“اور اسے روکنے کے لئے جو پلاسٹک لگائی جاتی ہے اسے ووبیل Wobbleکہتے ہیں۔)اب اس واقعے میں کون سی ایسی بات ہے جس کو بنیاد بنا کر علماء پر تنقید کی جائے یا پینٹ شرٹ زیب تن کرنے کے طعنے دیے جائیں۔

اصولی بات ہے کہ یہ ایک قسم کی ڈیفنس ٹریننگ تھی جس کے لیے ایک ڈریس کوڈ منتخب کیا گیا تھا ،یہ ڈریس کوڈ کسی بھی طرح کا ہو سکتا تھا۔
آج کل سماجی خدمت کا رواج عام ہے ، مختلف ملکوں میں رضاکارانہ طور پر سماجی خدمات کے لیے جماعتیں اور ادرے قائم کیے جاتے ہیں ، اس سے مقصود عوام کی خدمت کے ساتھ سوسائٹی میں اپنا تشخص قائم کرنا بھی ہوتا ہے ، ان اداروں او ر جماعتوں کے جو رضا کار یہ خدمات سر انجام دیتے ہیں ان کے لیے ایک خاص یونیفارم یا ڈریس کوڈ منتخب کیا جاتا ہے تاکہ پتا چل سکے یہ فلاں رفاہی ادرے کے رضاکار ہیں وغیرہ۔

جمعیت یوتھ کلب نے بھی اپنے لیے ایک ڈریس کوڈ کا انتخاب کیا ، اب اس ڈریس کوڈ کے قلابے آپ آسمان سے ملائیں یا زمین سے یہ توآپ کی ذہنی حالت پر منحصر ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر مولانا محمود مدنی نے کوئی غلط کام کیا ہے تو وہ ہمارے لیے کیسے حجت بن گیا، جب دین کی راہنمائی موجود ہے تو کسی فرد کے غلط ارتکاب کو بنیاد بنا کر کوئی حکم کیسے لگایا جا سکتا ہے۔

یہی اصولی بات ہے ۔ رہی بات اس کو واقعے کو بنیاد بنا کر پینٹ شرٹ کے جواز کی اس بارے میں اصل اصول وہی ہے جو اسلام نے دیاہے، لباس کے ساتر اور معقول ہونے کے ساتھ اپنے سماج کے عرف کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے، ڈریس پینٹ شرٹ اگرچہ ساتر لباس ہے اور عام مسلمانوں کے لیے اس کے جواز کی گنجائش بھی موجود ہے مگر ایک دین کا طالب علم یا مذہبی راہنما اسے پہنے گا تو سوال تواٹھے گا۔

اس واقعے کے پیش نظر سیکولر او ر بے دینوں کے ضمیر میں چھپی بلیوں کا تھیلے سے باہر آنا تو قابل فہم تھا افسوس مگران دینداروں اور مدارس کے پڑھے ہووٴں پر ہوتا ہے جن کی بلیاں ہر ایسے موقعے کی ٹوہ میں لگی ہوتی ہیں ۔ یہ وہ طبقہ ہے جس نے ہر ایسی بات اور مدارس ،ا رباب مدارس اور بڑوں پر ضرور کیچڑا چھالنا ہوتا ہے ۔ ایسے احباب کے بارے میں کم از کم مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ دین کی دولت سے ہی محروم نہ کر دیے جائیں ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :