یہ کیسے ممکن ہے !

پیر 6 جنوری 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

سترھویں صدی کے آغاز میں ایشیا، افریقہ اور امریکہ کے اکثر خطوں پر دو پرائیویٹ کمپنیوں کی اجاری داری تھی ، ایسٹ انڈیا کمپنی اور دوسری ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی ۔ یہ دونوں کمپنیاں دنیا کی پہلی ملٹی نیشنل کارپوریشنیں تھیں اور انہوں نے آدھی دنیا کو اپنے شکنجے میں لیا ہوا تھا ۔ان ملکوں کی حکومتیں بھی ان کے سامنے بے بس تھیں ، ایسٹ انڈیا کمپنی کو 1857کی جنگ کے صرف ایک سال بعدبرطانیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا اور ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی لالچ، حرص اور ہوس کی بنا پر ٹھیک دو سو سال بعد 1800میں دیوالیہ ہو گئی ۔

ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی 1602 میں چھوٹی چھوٹی ڈچ کمپنیوں نے مل کر بنائی تھی ،یہ شروع میں ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے قائم کی گئی تھی، سترھویں صدی کے اوائل میں اس نے عام لوگوں کو وسیع پیمانے پر بانڈز اور اسٹاک کے حصص جاری کیے اور دنیا کی پہلی باضابطہ عوامی کمپنی بن گئی۔

(جاری ہے)

ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی (جس کا مختصر نام وی او سی ہے ) کے تاجروں نے سب سے پہلے انڈونیشیا کا تجارتی سفر شروع کیا، انڈونیشیا دنیا میں جزائر کا سب سے بڑا سلسلہ ہے ، سترھویں صدی کے آغا ز میں انڈونیشیا کے ہزاروں جزائر پر سینکڑوں بادشاہتیں ، سلطان اور قبائلی ریاستیں موجود تھیں ، وی او سی کے جہاز راں اور تاجر جو تجارتی مقاصد کے لیے آئے تھے انہوں نے مقامی سرداروں سے جنگ شروع کر دی اور ساحلی علاقوں پر قبضہ کر لیا ۔

ڈچ کے علاوہ دیگر یورپی ممالک کے جہاز راں بھی یہاں پہنچ چکے تھے ،اپنا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے ڈچ تاجروں کو مقامی سرداروں کے ساتھ یورپی حریفوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا ۔ وی او سی نے تجارتی جہازوں کو جنگی جہازوں میں تبدیل کیا ، یورپی ، جاپانی اور انڈونیشی فوجیوں کو کرائے پر بھرتی کیا ( اس دور میں تجارتی کمپنیوں کے لیے یہ معمول کی بات تھی کہ وہ کرائے کے فوجی بھرتی کرتے تھے یہاں تک کہ جرنیل اور ایڈمرل تک کو کرائے پر ہائیر کر لیا جاتا تھا ) قلعے تعمیر کیے اور بھرپور جنگی مہمات کے ساتھ انڈونیشیا پر قبضہ کر لیا ، انڈونیشیا کا بڑا حصہ ڈچ کالونی بن گیا اور اگلے دو سو سال تک وی او سی نے انڈونیشیا پر حکومت کی ۔

1800میں ڈچ حکومت نے وی او سی کے دیوالیہ ہونے کے بعد اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا جو 1945تک انڈونیشیا کے آذاد ہونے تک اس کے ہاتھ میں رہا ۔ عین اس وقت جب وی او سی کے مہم جو انڈونیشیا پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے تھے اسی لمحے وی او سی نے بحر اوقیانوس میں بھی جہاز ڈال دیے تھے ، امریکہ دریافت ہونے کے بعد یورپی ممالک امریکہ پہنچنے اور وہاں سے دولت لوٹنے میں پیش پیش تھے ، ڈچ کمپنی وی او سی نے بھی کئی مہمات روانہ کی،ڈچ تاجروں نے دریائے ہڈسن کے تجارتی راستے پر قبضہ کر نے کے لیے ایک نئی آبادی نیو ایمسٹر ڈیم کے نام سے قائم کی ، اس نئی کالونی پر مقامی ریڈ اینڈینز اور حریف یورپی حملہ آوروں کی طرف سے مسلسل حملے ہوتے رہتے تھے، ان حملوں سے بچنے کے لیے ڈچ تاجروں نے ایک دیوار تعمیر کروائی مگر اس کے باوجود 1664میں برطانیہ نے اس آبادی پر قبضہ کر لیا ، برطانیہ نے اس کا نام تبدیل کر کے نیو یارک رکھ دیااور آج یہ شہر دنیا کی معاشی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہے ۔

مقامی ریڈ اینڈینز اور یورپی حریفوں کے حملوں سے بچنے کے لیے وی او سی نے جو دیوار تعمیر کروائی تھی آج وہاں دنیا کی مشہور ترین سڑک موجود ہے جسے وال اسٹریٹ کہا جاتا ہے ۔یہ سٹرک نہ صرف امریکہ کا اقتصادی مرکز ہے بلکہ دنیا کے ہر ملک کے اقتصادی مرکز کو وال اسٹریٹ کے استعارے سے یاد کیا جاتا ہے۔ اگر آج امریکہ امریکہ اور یورپ یورپ ہے تو اس کے پیچھے صدیوں کی محنت ہے، آج سے پانچ سو سال قبل ان کے آباوٴ اجداد نے جو پلاننگ کی تھی اس کے ثمرات آج یہ لوگ سمیٹ رہے ہیں ۔


آپ ایک اور مثال دیکھیں ، کیونی فارم رسم الخط تین ہزار سال تک مشرق وسطیٰ میں رائج رہا ، اس رسم الخط کو پڑھنے اور سمجھنے والے افراد اس خط کے ساتھ ہی دفن ہو گئے تھے اور دنیا میں کوئی فرد ایسا نہیں بچا تھا جو اس خط کو پڑھ سکتا ہو۔ پورے مشرق وسطیٰ میں یہ خط کتبوں، پتھر کی سلوں ، چمڑے،اہم یادگاروں اور برتنوں پر کند ہ تھا مگر کوئی انسان سمجھ نہیں سکتا تھا کہ ان کتبوں پر جو لکھا ہے اس کا مطلب اور مفہوم کیا ہے ۔

آثار قدیمہ سے معلوم ہوا کہ ماضی میں کیونی فارم تختیوں کا استعمال بہت زیادہ تھا۔قوانین،ٹیکس اکاوٴنٹس،کہانیاں،سکول کے اسباق اور خطوط مٹی کی نرم تختیوں پر نقش کیے جاتے تھے جنہیں بعد میں دھوپ یا بھٹی میں سکھا کر محفوظ کر لیا جاتاتھا۔صرف”نپور“ کے خطے میں 50000 ہزار کے قریب ایسی تختیاں دریافت ہوئیں تھیں۔یہ تختیاں 1600 سے 1800 سو سال قبل مسیح میں لکھی گئیں تھیں ، اس خط کی سب سے بڑی کولیکشن استنبول،فلاڈیلفیا کے شہروں سے ہوئیں جن کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب تھی۔

کیونی فارم رسم الخط تاریخ کے سب سے پہلے رائٹنگ سسٹمز میں شمار کیاجاتا ہے جو سمیرین تہذیب کی ایجاد تھی۔ کیونی فارم کا مطلب ہے تیکھی صورت ، اس رائٹنگ سسٹم میں جو سمبلز استعمال کیے جاتے تھے ان کی شکل لکڑی کے اس کھونٹے سے ملتی تھی جو کسی جانور کو باندھنے کے لیے زمین میں گھڑا جاتا ہے ۔1618میں اہل یورپ کو پہلی بار اس رسم الخط کے بارے میں علم ہوا اور وہ مسلسل اس خط کو پڑھنے کی کوششیں کرتے رہے ۔

ٹھیک دو سو سال بعد ایک برطانوی افسر ہنری رالنسن شاہ ایران کی فوج کو تربیت دینے کے لیے ایران آیا ، وہ فارغ وقت میں سیر کو نکل جاتا ، ایک دن مقامی گائیڈ نے اسے زاگروس کی پہاڑیاں دکھائیں جہاں اسے وسیع ستونوں پر کیونی رسم الخظ لکھا دکھائی دیا ۔ پچاس فٹ اونچی اور اسی فٹ چوڑی اس ڈھلوان پر یہ خط 500قبل مسیح ایرانی شاہ دارا اول نے کھدوایا تھا ، یہ کیونی رسم الخط میں تین زبانوں میں تحریر تھا ، قدیم فارسی، ایلام اوراہل بابل کی زبان ۔

رالنسن نے فیصلہ کیا اگر وہ اس تحریر کو پڑھنے میں کامیاب ہو گیا تو مشرق وسطیٰ سے برآمد ہونے والی لاکھوں تحریروں کو پڑھا جا سکے گا ۔اس نے ان حروف کی نقل تیار کر کے یورپ بھیجنے کا فیصلہ کیا، مقامی لوگوں کو اپنی مدد کے لیے بھرتی کیا اور ایک کردش لڑکے کو ڈھلوان کے باقابل عبور حصے تک پہنچا دیا تاکہ اس کندہ تحریر کے بالائی حصے کی نقل تیار کر سکے ، 1847میں رالنسن نے ایک بہترین نقل تیار کر کے یورپ روانہ کر دی ۔

رالنسن خود بھی اس علاقے میں ایسے افراد کی تلاش میں رہا جو اس تحریرکو پڑھ سکے ، قدیم فارسی جدید فارسی سے قدرے مختلف تھی مگر بلآخر اسے ایک ایسا فرد مل گیا جو اس قدیم فارسی تحریر کو سمجھ سکتا تھا ، قدیم فارسی والے حصے کو سمجھنے کے بعد وہ اس قابل ہو گیا کہ ایلام اور بابل والے حصے کو بھی سمجھ سکے ۔ ان تحریروں سے پورے مشرق وسطیٰ کی تاریخ ، لاکھوں کتبے پڑھے جانے کے قابل ہو گئے جن میں قدیم تہذیبوں کی داستانیں رقم تھیں ۔

ان تحریروں نے قدیم تہذیبوں کی تاریخ ، ثقافت ، قوانین ، سیاست ، مذہب اور اس جیسے ان گنت مباحث انسانوں کے سامنے وا کر دیے تھے ۔ یہ علم ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی جستجو تھی جس نے ان لوگوں کو عروج پر پہنچایا ، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی قوم علم ، ایمان ، اخلاق،سائنس اور ٹیکنالوجی کے بغیر دنیا میں اپنا مقام بنا سکے لیکن شاید ہمیں یہ نکتہ سمجھنے میں مزیدصدیاں درکار ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :