تاریخ میں زندہ رہنے والے !!

پیر 2 مارچ 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

29فروری 2020کو دوحہ میں ہونے والے مذاکرات اور 24نومبر 1221میں لڑے جانے والے معرکے میں گہری مماثلت ہے ، وہ مماثلت کیا ہے ، اس کی طرف میں بعد میں آوٴں گا پہلے آپ 24نومبر1221کو لڑے جانے والے معرکے کے بارے میں جان لیں ۔ جیحون اور سیہون کے نام سے و سطی ایشیا میں دومشہور اور تاریخی دریا بہتے ہیں، ان دریاوٴں کے درمیان کا علاقہ ماورء النہر کہلاتا ہے اورسمر قند، بخارا، ترمذ اور قوقند جیسے مشہور شہر اسی علاقے میں واقع ہیں۔

موجودہ ازبکستا ن میں اور گنج نامی شہرآباد ہے اور ماضی میں یہ شہر سلطنت خوارزم کا دار الحکومت ہوا کر تا تھا ۔
 سلطنت خوارزم کی تاریخ بہت قدیم ہے ، اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کے دور میں سلطنت خوارزم اسلامی مملکت میں شامل ہوئی،خوارزم کے حکمران خلافت اسلامیہ کے صوبے دار یا گورنر کی حیثیت سے اختیارات استعمال کرتے تھے، امویوں کے بعدیہ سلطنت عباسیوں کے ماتحت آگئی ،عباسیوں کا زوال شروع ہواتومختلف علاقوں کی طرح سلطنت خوارزم نے بھی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔

(جاری ہے)

1200ء میں سلطان علاوٴالدین محمد شاہ حکمران بنا تو سلطنت کی سرحدیں تیزی سے وسیع ہونے لگیں ،ماوراء النہر کے اکثر علاقے جن میں سمر قند، بخارا، قوقند، ترمذ، بلخ، تاشقند اور فرغانہ شامل تھے سلطنت خوارزم کا حصہ بن گئے ۔معمولی جنگ کے بعد سلجوقی ترکوں کے مقبوضات بھی خوارزم شاہ کے پاس آ گئے، ادھر افغانستان میں شہاب الدین غوری کو حسن بن صباح کے فدائیوں نے شہید کر دیا تھا ، پہلے غوری سلطنت انتشار کا شکار ہوئی اور پھر خوارزم شاہ کے قبضے میںآ گئی۔

موجودہ سرحدی اعتبار سے سلطنت خوارزم اپنے زمانہ عروج میں موجودہ ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان، افغانستان، ایران، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے کچھ حصہ پر محیط تھی۔اسی دوران ایک غلط فہمی اور ایک گورنر کی لالچ کی بناء پر علاء الدین نے چنگیزخان کے قاصد کو قتل کر دیا اور اسی کے ساتھ سلطنت خوارزم کازوال شروع ہوا۔ چنگیز خان نے خوارزم سلطنت پر حملے شروع کر دیے ، علاؤ الدین کو شکست ہوئی اور وہ کچھ ہی عرصے بعد طبعی موت مر گیا۔

اس کے بعد اس کابیٹا جلال الدین حکمران بنا ،جلال الدین خیوا کی شکست سے اس قدر شرمندہ تھا کہ اس نے خوارزم شاہ کا لقب چھوڑکر سلطان کہلوانا شروع کر دیا۔ اس نے فوج جمع کی اور منگولوں پر حملے شروع کر دیے‘ وہ افغانستان پہنچااور شمالی افغانستان کے قبائل‘ تاجک قبائل اور خوارزمی قبائل پر مشتمل فوج بنائی‘ کابل کے شمال میں”پروان“ کے علاقے میں منگولوں سے جنگ ہوئی اور جلال الدین یہ جنگ جیت گیا‘ یہ چنگیزی فوج کی پہلی اور آخری شکست تھی‘ شکست نے چنگیز خان کو حیران کر دیا ۔

پروان کی فتح نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کردیے تھے، تاتاری فوج کے ناقابل شکست رہنے کا تصور پاش پاش ہوگیا تھا، قریب تھا کہ جلال الدین آگے بڑھ کر خود چنگیز خان پر حملہ کرتا اور اسے خراسان سے دھکیلتا ہوا ماورالنہر کے علاقوں میں دھکیل دیتا مگرفی الحال قسمت کو یہ منظور نہ تھا، پروان کے مال غنیمت میں ایک بیش قیمت گھوڑے پر سلطان جلال الدین کے دو امراء امین الملک اور سیف الدین میں جھگڑا ہوگیا، بات قتل و غارت گری تک پہنچ گئی، امین الملک سلطان کا رشتہ دار تھا، سیف الدین نے جلال الدین پر اقرباء پروری کا الزام لگاتے ہوئے لشکرسے علیحدگی کا اعلان کردیا۔

سلطان نے سیف الدین کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر سیف الدین نہ مانا اور فوج کا ایک بڑا حصہ لے کر الگ ہوگیا۔چنگیز خان کو اس کا علم ہوا تو اس نے موقع غنیمت جان کر سلطان پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا، اس دفعہ چنگیز خان بذات خود لشکر لے کر نکلا، ضلع اٹک میں دریائے سندھ کے کنارے نیلاب کے میدان میں خوفناک جنگ ہوئی،24نومبر 1221 ء کودن کا آخری پہر تھا، نیلاب کا میدان انسانی لاشوں سے بھر چکا تھا،ہر طرف انسانی کھوپڑیاں بکھری پڑی تھیں اور زخمیوں کی آہ و بکا آسمان کے پردے چیر رہی تھی، آسمان پرگدھ منڈلارہے تھے اور نیلاب کے میدان میں تیر ،تلوار اور نیزے بکھرے پڑے تھے ۔

 دریا کے کنارے جہاں پہاڑی سلسلہ ختم ہوتا تھا وہاں اب تک جنگ جاری تھی، تاتاری فوج خوفناک طوفان کی طرح آگے بڑھ رہی تھی اور اس طوفان نے راستے میں آنے والی ہر شے کو تہس نہس کر دیا تھا ۔ یہ اپنے وقت کا فیصلہ کن معرکہ تھا ، تاتاری فوج سلطان کے گرد گھیرا تنگ کر چکی تھی ، آگے چنگیز خان تھا اور پیچھے دریائے سندھ کی بلند ہوتی لہریں تھیں، چنگیز خان کی خواہش تھی کہ کسی بھی طرح سلطان کوزندہ گرفتار کیا جائے ۔

جب کوئی اور آپشن نہ بچا تو سلطان نے دریا میں کودنے کا فیصلہ کر لیا،وہ کنارے پر موجود ایک چٹان پر چڑھا ، گھوڑا تبدیل کیا، ڈھال کسی ، نیزہ او ر تیر و ترکش ساتھ لیا ، گھوڑے کو چابک رسید کی اور گھوڑا دریا میں کود پڑا ، گھوڑے کو چابک رسید کرنے سے ذرا ایک لمحہ پہلے سلطان رکا، چنگیز خان کی طرف دیکھا،اس کی بے بسی کو دیکھ کر طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائی اور گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا ۔

چنگیز خان یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔
دریا کے دوسرے کنارے پہنچ کر سلطان نے اپنا نیزہ زمین میں گاڑ اد دوسرے کنارے پر موجود فاتح مگر بے بس چنگیز خان کے چہرہ پرنگاہ ڈالتے ہوئے ایک قہقہہ بلند کیا،چنگیز خان کے منہ سے بے ساختہ نکلا ”بیٹا ہو تو ایسا ہو ، وہ باپ بڑا خوش قسمت ہے کہ جس کا بیٹا اتنا بہادر ہے۔“(چنگیز خان کے یہ جملے علامہ ابن خلدون نے نقل کئے ہیں)چند جوشیلے جنگجوٴوں نے چنگیز خان سے دریا عبور کرنے کی اجازت طلب کی مگر چنگیز خان نے انہیں منع کردیتا ہے۔

جلال الدین کے چند ساتھی بھی دریا عبور کر کے سلطان کے پاس پہنچ گئے، یہاں سے یہ لٹا پٹا قافلہ دہلی کے سلطان التمش کی طرف روانہ ہوامگر التمش نے جلال الدین کی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ جلال الدین نے دوسر ے اسلامی ممالک سے بھی مدد طلب کی اور انہیں اتحاد بنانے کی دعوت دی مگر کسی طرف سے کوئی مثبت ردعمل سامنے نہ آیا۔ سلطان جلال الدین کے آخری ایا م کے بارے دو روایتیں مشہور ہیں،ایک یہ کہ جب وہ کسی پہاڑی مقام پرسستانے کے لئے ٹھہرا ہوا تھاایک پہاڑی شخص نے اْس کے گھوڑے اورلباس کے لالچ میں دھوکے سے اسے قتل کردیا،دوسری یہ کہ وہ اپنے وقت کے حکمرانوں سے مایوس ہو کر اپنا لباس اور حلیہ تبدیل کرکے مشائخ عظام کے حلقے میں داخل ہوا اور صوفیوں اورعابدوں کی زندگی بسر کرنے لگا ، اس نے دور دراز ملکوں میں سفر کیااوراسی زہد وعبادت کی حالت میں عرصہ دراز تک زندہ رہنے کے بعد وفات پا گیا۔

 
وقت کے فرعون چنگیز خان کو ٹف ٹائم دینے والے ہیرو کا آخری انجام کیا ہوا اور وہ کہاں مدفون ہے کسی کو نہیں معلوم ، معرکہ افغانستان کے ہیرو کے آخری لمحات کہاں ، کیسے گزرے اور اس کی قبر کہاں ہے کسی کو خبر نہیں مگر ایک بات دونوں میں مشترک ہے یہ دونوں ہیرو تاریخ کے صفحات میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے ،آج ہم جلال الدین کو کتابوں میں پڑھتے ہیں کل ہماری نسلیں ملا عمر کو کتابوں میں پڑھیں گی۔ جبکہ بش ، مشرف اور اس معرکے میں طاغوت کا ساتھ دینے والوں کو زندہ رہنے کے لیے شاید چند دہائیاں بھی بمشکل ملیں ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :