
تنقیدی شعور لازم ہے !
پیر 1 مارچ 2021

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
اور اگر کوئی اس حقیقت کو جھٹلاتا ہے تو وہ ضرورت سے زیادہ سادہ یا انفعالی مزاج کا حامل ہے ،اسے مغربی تہذیب اور مغرب کی چکا چوند نے اندھا کر دیا ہے ، وگرنہ اکڈیمک سطح پر یہ بات طے ہو چکی اور مغرب و مشرق کے دانشوروں کا اس پر اجماع ہے کہ آج مغرب علم و فن ،سائنس وٹیکنالوجی اور تہذیب و تمدن کے جس مقام پر کھڑا ہے اس کے سرچشمے اسلامی تہذیب سے پھوٹتے ہیں۔ علم و فن کی کوئی کتاب ایسی نہیں تھی جو قرون وسطیٰ میں عربی سے یورپی زبانوں میں ٹرانسلیٹ نہ ہوئی ہو۔ یورپ میں باقاعدہ ادارے قائم کیے گئے تھے جن کا مقصد عربی علوم اور عربی کتب کو یورپی زبانوں میں ٹرانسلیٹ کرنا تھا۔ بادشاہوں نے اپنے درباروں میں ایسے افراد کو رہائشیں مہیا کیں اور انہیں بھارے معاوضے اور لالچ دے کر اس خزانے کو یورپ منتقل کیا ۔ علوم وفنون کی منتقلی کے دوران جہاں مترجمین کواظہار مدعایا کسی سائنسی و علمی تصور کو واضح کرنے کے لئے اپنی زبانوں کا کوئی مناسب لفظ نہیں ملا تو وہاں انہوں نے عربی کے لفظ کوہی من وعن منتقل کر دیا، انگریزی میں موجود عربی کے ہزاروں الفاظ اس امر کے گواہ ہیں۔ بعض عرب اور انگریز مصنفین نے ایسے الفاظ کی تحقیق کی ہے اور تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ لاطینی، انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں عربی کے ایسے ہزاروں الفاظ موجود ہیں ہیں۔ اسلامی تہذیب نے یورپ اور مغربی تہذیب پر جواثرات مرتب کیئے اس کے اثرات آج بھی یورپ میں موجود ہیں اورآج بھی کھلی آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یورپ کی ترقی اور تہذیب و تمدن کے عروج میں آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی اہم ترین عوامل ہیں اور یہ دونوں یونیورسٹیاں بذات خود اسلامی تہذیب کی خوشہ چینی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پہلے ایک کالج تھا اور یہ عربی کے لفظ ”کلیہ “ کی بگڑی ہوئی شکل ہے، ان دونوں یونیورسٹیوں کی ابتدائی عمارات عربی طرز پر تعمیر کی گئی تھیں۔ یورپ تو براہ راست اسلامی تہذیب سے متاثر ہوا جبکہ دنیا کے دیگر تین براعظم جن میں بر اعظم آسٹریلیا، برا عظم شمالی امریکہ اور بر اعظم جنوبی امریکہ ان تینوں براعظموں کوآبادکرنے اور ان پر حکمرانی کرنے والے باشندے بھی یورپی تھی، یہ یورپ سے ہی گئے تھے اور انہوں نے ان علاقوں کو فتح کرنے کے بعد ان پر حکومتیں کی تھی، ان کے واسطے سے اسلامی تہذیب کے اثرات ان بر اعظموں تک بھی جا پہنچے۔ گویا بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اسلامی تہذیب نے دنیا کے ہر خطے کو متاثر کیا اور دنیا کی موجودہ ترقی میں اسلامی تہذیب کا کردار اہم ترین ہے۔
اس لیے مذہب اور مسلمان کو کوسنے سے قبل درست تناظر اور اس کی درست تفہیم لازم ہے ۔ اس کے ساتھ مغربی تہذیب اور مغرب کی ہوش ربا ترقی سے متاثر ہونے اور احساس کمتری کا روگ پالنے سے قبل تنقیدی شعور بھی لازم ہے ، یہ تنقیدی شعور ہی ہے جو آپ کو ہر کسی سے تاثر لینے سے بچا سکتا ہے،یہ آپ کو ہر اس شخص کو سمجھنے میں مدد دے گا جس کا شیوہ ہی اسلام اور مسلمان پر کیچڑاچھالنا ہے ۔یہ آپ کو بتائے گا کہ کون ہے جو مغرب کی چکا چوند کے آگے سرنڈر کر چکا ہے اور کون اقبال کا جانشین ہے جو مغربی تہذیب اور مغربی ترقی کی اصلیت سے واقف ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.