تنقیدی شعور لازم ہے !

پیر 1 مارچ 2021

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

تنقیدی شعور علمی دنیا کی اہم اصطلاح ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کوئی چیز پڑھیں ، دیکھیں یا سنیں تو آنکھیں بند کر کے اس پر ایمان نہ لے آئیں بلکہ تنقیدی نقطہ نظر سے اس کا جائزہ لیں۔ اس کے مختلف امکانات اور ممکنا ت پر غور کریں ، اس کے مالہ و ماعلیھا پر نظر دوڑائیں ، کہنے اور لکھنے والے کو مختلف زایوں سے پرکھیں اور اچھی طرح چھان بین کے بعد اس پر کوئی رائے قائم کریں۔

ہماری درسگاہوں میں جب سے نمبروں کو کامیابی کا معیار بنا یا گیا ہے تنقید ی شعور ختم ہو چکا ہے۔ طلباء کی ساری محنت محض نمبروں کے حصول کے گرد گھومتی ہے ، گیارہ سو میں سے ایک ہزار پچانوے نمبر تو آجاتے ہیں مگر تخلیقی صلاحیت اور تنقیدی شعور کی الف ب بھی نہیں آتی۔ اب تو انہیں یہ بھی نہیں پتا کہ تنقیدی شعور ہوتا کیا ہے ، ایم فل سطح کے طلباء کو سمجھانا پڑتا ہے کہ Thinking Critical یا تنقیدی شعور کس بلا کا نام ہے۔

(جاری ہے)

تنقیدی شعور رٹا لگانے سے نہیں بلکہ علم کا تجزیہ کرنے ، اسے اپنی ذات میں جذب کرنے اور غور و فکر سے آتا ہے۔ مسلسل مطالعہ ، مختلف موضوعات سے شناسائی، اپنے عصر سے ہم آہنگی ، وقت کے محاورے اور زبان سے واقفیت یہ چیزیں مل کر تنقیدی شعور کو جلا بخشتی ہیں۔ تنقیدی شعور سے عاری انسان بہت جلد تاثر لے جاتا ہے ، کسی معمولی بات پر بلا سوچے سمجھے ایمان لے آتا ہے اور ایسا انسان کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو اس کی عقل ، فہم اور فیصلہ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

آج کل ہماری نوجوان نسل خواہ اس کا تعلق یونیورسٹی سے ہو یا دینی مدرسے سے اکثر تنقیدی شعور سے عاری ہیں ، وجوہات متعدد ہیں ، سوشل میڈیا، کتاب سے دوری، تن آسانی ، رٹا سسٹم اورنمبروں کی دوڑ چند اہم علامتیں ہیں۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ فکری پراگندگی کے اس دور میں ، سیکولر طبقہ یا کسی اور طرف سے مذہب ، ا سلام یا مسلمان کے خلاف کوئی آواز اٹھے تو یہ فورا اس سے تاثر لے جاتے ہیں۔

مغرب کی ہوش ربا ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی فتوحات کو دیکھ کر فورا مسلمانوں کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں ، یہ سوچے بغیر کہ مسلمان بھی اپنا شاندار ماضی رکھتے ہیں ، مغرب کی ساری ترقی کی بنیاد مسلم سائنس پر ہی رکھی گئی۔ پھر مسلمان ہی کیا دنیا کی ہر تہذیب نے انسانی ترقی میں اپنا حصہ ڈالاہے۔ آج مغرب اور ہم انسانی ترقی کی جس معراج پر کھڑے ہیں اس کی بنیادیں قدیم سمیری تہذیب میں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔

سمیری تہذیب اگر رسم الخط ایجاد نہ کرتی تو کوئی موجودہ ترقی کا تصور کر ہی نہیں سکتا۔ اگر قدیم تہذیبیں پہیا ایجاد نہ کرتی تو آج انسان سالوں کا سفر گھنٹوں میں کیسے طے کرتا۔ قصہ مختصر اکسیویں صدی کی ا نسانی ترقی کے پیچھے انسانیت کا اجتماعی شعور کھڑا ہے ، ہر تہذیب اپنے ماقبل تہذیب سے رد و قبول کا عمل جاری رکھ کر اسے آگے بڑھاتی رہی ہے۔

ماضی میں اسلامی تہذیب نے یونانی اور رومی تہذیبوں سے استفادہ کیا اور مادی علوم وفنون کو آگے بڑھایا۔اس کے ساتھ دینی و روحانی علوم تو اسلامی تہذیب کا خاصہ تھے، الہامی مذاہب میں دینی علوم کو جس طرح محفوظ کیا گیا دنیا آج بھی اس پر انگشت بدنداں ہے۔اس لیے مذہب ، اسلام اور مسلمانوں کو کوسنے سے پہلے یہ جان لیا جائے کہ مغرب کی موجودہ ترقی اسلامی سائنس کی بنیادوں پر ہی استوار ہے ، وہ الگ بات ہے کہ اس وقت مسلمان اپنی شاندار روایت کو نظر انداز کیے بیٹھے ہیں ۔

اوراس کے ساتھ مغرب کو سارا کریڈٹ دینے سے قبل بھی ذراغور کر لیا جائے کہ مغرب سائنس و ٹیکنالوجی کے جس بر ج الخلیفہ پر پہنچا ہواہے یہ محض اس کی کارفرمائی نہیں بلکہ انسانیت کے اجتماعی شعورنے اسے یہ توفیق بخشی ، اسے اس سطح تک پہنچایا کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کی حیران کن دنیا پیدا کر سکے ۔
اور اگر کوئی اس حقیقت کو جھٹلاتا ہے تو وہ ضرورت سے زیادہ سادہ یا انفعالی مزاج کا حامل ہے ،اسے مغربی تہذیب اور مغرب کی چکا چوند نے اندھا کر دیا ہے ، وگرنہ اکڈیمک سطح پر یہ بات طے ہو چکی اور مغرب و مشرق کے دانشوروں کا اس پر اجماع ہے کہ آج مغرب علم و فن ،سائنس وٹیکنالوجی اور تہذیب و تمدن کے جس مقام پر کھڑا ہے اس کے سرچشمے اسلامی تہذیب سے پھوٹتے ہیں۔

علم و فن کی کوئی کتاب ایسی نہیں تھی جو قرون وسطیٰ میں عربی سے یورپی زبانوں میں ٹرانسلیٹ نہ ہوئی ہو۔ یورپ میں باقاعدہ ادارے قائم کیے گئے تھے جن کا مقصد عربی علوم اور عربی کتب کو یورپی زبانوں میں ٹرانسلیٹ کرنا تھا۔ بادشاہوں نے اپنے درباروں میں ایسے افراد کو رہائشیں مہیا کیں اور انہیں بھارے معاوضے اور لالچ دے کر اس خزانے کو یورپ منتقل کیا ۔

علوم وفنون کی منتقلی کے دوران جہاں مترجمین کواظہار مدعایا کسی سائنسی و علمی تصور کو واضح کرنے کے لئے اپنی زبانوں کا کوئی مناسب لفظ نہیں ملا تو وہاں انہوں نے عربی کے لفظ کوہی من وعن منتقل کر دیا، انگریزی میں موجود عربی کے ہزاروں الفاظ اس امر کے گواہ ہیں۔ بعض عرب اور انگریز مصنفین نے ایسے الفاظ کی تحقیق کی ہے اور تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ لاطینی، انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں عربی کے ایسے ہزاروں الفاظ موجود ہیں ہیں۔

اسلامی تہذیب نے یورپ اور مغربی تہذیب پر جواثرات مرتب کیئے اس کے اثرات آج بھی یورپ میں موجود ہیں اورآج بھی کھلی آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یورپ کی ترقی اور تہذیب و تمدن کے عروج میں آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی اہم ترین عوامل ہیں اور یہ دونوں یونیورسٹیاں بذات خود اسلامی تہذیب کی خوشہ چینی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پہلے ایک کالج تھا اور یہ عربی کے لفظ ”کلیہ “ کی بگڑی ہوئی شکل ہے، ان دونوں یونیورسٹیوں کی ابتدائی عمارات عربی طرز پر تعمیر کی گئی تھیں۔

یورپ تو براہ راست اسلامی تہذیب سے متاثر ہوا جبکہ دنیا کے دیگر تین براعظم جن میں بر اعظم آسٹریلیا، برا عظم شمالی امریکہ اور بر اعظم جنوبی امریکہ ان تینوں براعظموں کوآبادکرنے اور ان پر حکمرانی کرنے والے باشندے بھی یورپی تھی، یہ یورپ سے ہی گئے تھے اور انہوں نے ان علاقوں کو فتح کرنے کے بعد ان پر حکومتیں کی تھی، ان کے واسطے سے اسلامی تہذیب کے اثرات ان بر اعظموں تک بھی جا پہنچے۔

گویا بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اسلامی تہذیب نے دنیا کے ہر خطے کو متاثر کیا اور دنیا کی موجودہ ترقی میں اسلامی تہذیب کا کردار اہم ترین ہے۔
اس لیے مذہب اور مسلمان کو کوسنے سے قبل درست تناظر اور اس کی درست تفہیم لازم ہے ۔ اس کے ساتھ مغربی تہذیب اور مغرب کی ہوش ربا ترقی سے متاثر ہونے اور احساس کمتری کا روگ پالنے سے قبل تنقیدی شعور بھی لازم ہے ، یہ تنقیدی شعور ہی ہے جو آپ کو ہر کسی سے تاثر لینے سے بچا سکتا ہے،یہ آپ کو ہر اس شخص کو سمجھنے میں مدد دے گا جس کا شیوہ ہی اسلام اور مسلمان پر کیچڑاچھالنا ہے ۔یہ آپ کو بتائے گا کہ کون ہے جو مغرب کی چکا چوند کے آگے سرنڈر کر چکا ہے اور کون اقبال کا جانشین ہے جو مغربی تہذیب اور مغربی ترقی کی اصلیت سے واقف ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :