
الطاف بھائی کی خواہش
جمعرات 20 مارچ 2014

محمد ثقلین رضا
(جاری ہے)
ا نکے الفاظ کی گونج گرج اسلام آباد کے ایوانوں میں بھی پہنچ گئی اور حکومت نے الطاف حسین کے بیان کو غیرسنجیدہ ، سازشی اور خطرناک قراردیکر انہیں اپنے بیانات پر نظرثانی کا مشورہ دیا ہے ۔ وزیراطلاعات پوریز رشید نے ایم کیوایم کے قائد کے بیان پر ردِعمل میں کہا کہ الطاف حسین کو بیانات دیتے ہوئے سوچنا چاہئے ،غیرسنجیدہ بیانات کے غیرسنجیدہ نتائج کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کے بیانات خطرناک رحجان کو فروغ اور افراتفری پھیلا رہے ہیں۔
الطاف بھائی کہتے ہیں کہ اگر انہیں ان باتوں کی و جہ سے غدار کہاجاتا ہے تو میں ہرمقدمہ بھگتنے کو تیار ہیں۔ پتہ نہیں اب غداری کامقدمہ کون درج کراتاہے اور بھائی یہ مقدمہ بھگتنے کیلئے پاکستان آتے بھی ہیں یا نہیں ‘ خیر یہ خیالی پلاؤ پکانے والی بات ہوگئی ورنہ بھولاکہتا ہے کہ ہردوتین ماہ بعد بھائی ایسی کوئی موشگافی چھوڑتے ہیں جس کا ظاہراً کوئی منہ سر نہیں ہوتا یعنی غریب کی اس چادر کی طرح ہوگئی کہ سرڈھانپو تو پاؤں ننگے اورپاؤں ڈھانپو تو سر ننگا۔ لگتاہے کہ سند ھ کی سیاسی چادر بھی الطاف بھائی پر کم پڑرہی ہے اس لئے تو کبھی سیاست بچانے کیلئے سر کی فکرکرتے ہیں اورپھر جب پاؤں پرسیاسی ٹھنڈ اثر پذیرہوتو پھر سر ننگا کرکے پاؤں ڈھانپ لیتے ہیں
صاحبو!بات چلی تھی بابائے سیاست نوابزادہ نصراللہ خان سے اور آن پہنچی الطاف بھائی تک‘ گوکہ دونوں میں کوئی ایک قدر بھی مشترک نہیں ہے اس کے باوجود بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دونوں میں ایک قدر بہرحال مشتر ک ہے کہ دونوں جب چاہیں یا چاہتے کوئی بھی ان کی قربت میں آجاتا ۔عرف عام میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ نوابزادہ نصراللہ خان کسی دور میں بینظیربھٹو کے سخت مخالفت تھے اور پھر جب” جمہوریت بچانے کیلئے“ اتحاد قائم ہوا تو یہی نوابزادہ صاحب بینظیر بھٹو کی بدولت اسی اتحاد کے فرنٹ فٹ پر کھیلنے والے کھلاڑی تھے ۔خیردونوں مرحومین کیلئے اب دعا کی جاسکتی ہے ۔ بہرحال بعض سیاسی ماہرین کاخیال ہے کہ بھائی اب نوابزادہ صاحب کے مشن پر کسی نہ کسی طرح سے کاربند ہیں۔
ہم اکثر عرض کیاکرتے ہیں‘کہ پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں کاعجیب مزاج ہے جمہوریت کی ٹھنڈی ہوااگر مسلسل پانچ سال تک چلتی رہے تو بیچارے بے چین ہوجاتے ہیں اوران کی خواہش ہوتی ہے کہ اب آمریت کی لو سے فائدہ اٹھایاجائے یایوں کہئے کہ ٹھنڈے ٹھار خون کو گرمایاجائے جب آمریت کی لُو جسم کوشدید حد تک گرمادیتی ہے تو پھر یہ صاحبان جمہوریت جمہوریت کی راگنی گانے لگتے ہیں ۔ ستم ظریف ایسے جلد باز واقع ہوئے ہیں کہ کسی ایک نظام کو ٹکنے تک نہیں دیتے اور چاہتے ہیں کہ ان کے چاہنے یا خواہش پر نظام فوراً تبدیل ہوجائے۔ حالانکہ بعض ناقدین کاخیال ہے کہ پاکستان میں سرے سے جمہوریت آئی ہی نہیں ہے‘ پتہ نہیں یاران وطن جس کو جمہوریت سمجھتے ہیں وہ بی آمریت کی چھوٹی بہن ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن جمہوریت کی تسبیح پھیرنے والوں کاخیال یہ بڑی بہن یعنی آمریت نے بیچاری چھوٹی بہن یعنی جمہوریت کے حق پر ہمیشہ ڈاکہ ڈالا ہے اور اس ہرپانچ سات سال کے بعد آکر اس کا ہنستا بستا گھر تباہ کرکے خود ”گھس بیٹھیا‘ ‘ بن کر اس کے آنگن میں راج کرتی ہے اورپھرسبھی کچھ تباہ کرنے کے بعد دامن جھٹک اور یہ کہہ کر چل نکلتی ہے کہ ” میں اپنی بہن جمہوریت کا حلوہ کھانے آئی تھی‘ کھالیا اب چل پڑی ہوں“ شاید الطاف بھائی بھی دونوں بہنوں میں سے کسی ایک کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.