پاکستانی سیاست کایہ انداز بھی

ہفتہ 12 اپریل 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

کسی دیہاتی کاگھوڑابیمارہوا ‘ وہ کسی نیم تجربہ کار ”حکیم جانوراں“ المعروف ویٹرنری ڈاکٹر کے پاس گیا‘ موصوف نے انہیں ایک بڑی سی پڑیاتھماتے ہوئے کہاکہ اسے پائپ نما نوزل( یہ مخصوص قسم کاپائپ جانوروں کو ادویات پلانے کیلئے استعمال کیاجاتا ہے)میں ڈال کر ایک سرا گھوڑے کے منہ میں رکھا کر دوسری طرف سے خود پھونک مارکر وہ دوا گھوڑے کے منہ میں پہنچانی ہے۔

موصوف خوشی خوشی وہ پڑیاہاتھ میں لئے گھر پہنچ گئے ‘ وہ پاؤڈر نما پھکی جونہیپائپ میں رکھ کر اس دیہاتی نے گھوڑے کے منہ میں ڈالنا چاہے تو اس کے پھونک مارنے سے پہلے ہی گھوڑا نے زور سے ہنکارا بھرا اور پھر․․․․․․․․․․․․․ صاف ظاہر ہے کہ گھوڑے کی پھونک سے وہ دوا دیہاتی کے منہ میں پہنچ چکی تھی۔

(جاری ہے)

نجانے کیوں یہ لطیفہ پڑھنے کے بعد ہمیں اپنے میاں جی یاد آگئے ‘ یو ں تو میاں جی کی یادیں اورباتیں ذہن میں ہی رہتی ہیں لیکن نجانے کیوں اس لطیفہ نے گذشتہ کئی ماہ سے جاری قصے فسانے نمایاں کردئیے۔

موصوف بھی شاید حکومتی گھوڑے کی بیماری کاعلاج کرانے کے خواہش تھے لیکن بدقسمتی سے وہ دو ا جو حکیم نے انہیں دی تھی وہ گھوڑے کے منہ تک پہنچاتے پہنچاتے موصوف ”ٹائمنگ آؤٹ “ کربیٹھے اور جونہی وہ دوا سے بھرا پائپ گھوڑے کے منہ میں رکھ کر پھونک مارنے لگے تو اس سے پہلے ہی گھوڑے نے ہنکارا بھرتے ہوئے وہ دوا موصوف کے منہ میں پہنچادی۔ اب میاں جی الٹا پریشان ہیں کہ وہ اس دوا کے مضمرات سے کیونکر چھٹکارا حاصل کریں جبکہ حکومتی گھوڑا ویسے کا ویسا بلکہ پہلے سے زیادہ”اتھرا “ دکھائی دے رہا ہے ‘ اس دیہاتی کو تو شاید اس حکیم نے مشورہ نہ دیا ہو لیکن اپنے میاں جی کو تو مشیروں نے بتایا ہوگا کہ اگر حکومتی گھوڑے نے پہلے پھونک ماردی تو پھر کیا کرناہے؟ ؟ اگر تو سیاسی حکیموں نے کچھ نہیں بتایا تو یہ ان کی کم عقلی کی دلیل ہے‘ اگر بتایا اور اس کے باوجود عمل نہیں ہوا تو پھر ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ سوچنا کم ازکم ہمارا کام نہیں ہے
صاحبو! مسافرٹرین میں بیٹھا ایک بزرگ اچانک جھٹکے سے کھڑا ہوا اور پھررقت آمیز آواز میں کہنے لگا ” صاحبو! میں جوان بیٹی کاباپ ہوں (اس نے ایک جانب بیٹھی نہایت خوبصورت لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ) مجھ میں سکت نہیں کہ اس کی شادی کرسکوں بس میری خواہش ہے کہ آپ میں سے کوئی اس سے شادی کرلے۔

لوگ ہکا بکا کہ یہ یکدم کون اورکیسے شادی کرے کہ جان نہ پہچان‘ بزرگ نے ایک بارپھر آواز کو مزید گلوگیر کرتے ہوئے کہا ” یہ ایسی نیکی اوراحسان ہوگا جس کا بدلہ میں نہیں اتار سکتا البتہ خدا وند قدوس آپ کو اگلے جہان ضرور دینگے“ اس بزرگ کی آنکھوں میں اترے آنسودیکھ کر ایک نوجوان کھڑا ہوا اوراپنے آپ کو اس قربانی کیلئے پیش کردیا۔ بزرگ نے مسافروں کی موجودگی میں نوجوان سے مکمل معلومات لینے کے بعد رضامندی ظاہرکردی ۔

مگر مسئلہ یہ آن پڑا کہ گاڑی میں نکاح کیسے ہو ‘ کیوں کہ کوئی نکاح موجود نہ تھا اسی دوران ایک صاحب بھی دھکے کھاتے آن پہنچے اورسب کو بتاکر حیران کردیا کہ وہ نکاح خوان ہیں ایک بارات کے ساتھ جارہے ہیں مسئلہ ہی حل ہوگیا ‘جھٹ پٹ نکاح پھربوڑھے نے روتی آنکھوں سے نوجوان کو گلے لگالیا۔ اگلے ہی سٹیشن پر گاڑی رکی تو وہ بوڑھا بھاگم بھاگ نیچے اترا اورڈھیر ساری جلیبیاں لے آیا تاکہ سب مسافروں کا منہ میٹھا کرایاجاسکے۔

خیر جونہی مسافروں نے وہ جلیباں کھائیں تو چند ہی ثانیوں میں وہ اپنے آپ میں نہ رہے اورپھر ․․․․․․․․․․․ ہوش آنے پر پتہ چلا کہ سب مسافر لٹ چکے ہیں کیونکہ وہ بوڑھا ‘ وہ لڑکی‘ نوجوان ‘نکاح خوان سبھی لٹیروں کے گروہ کے ارکان تھے۔ نجانے کیوں یہ واقعہ نما لطیفہ پڑھنے کے بعددل چاہ رہا ہے کہ خوب قہقہے لگائے جائیں کہ ہمارے ہاں کی سیاست میں بھی سبھی کردار ویسے کے ویسے ہیں کوئی بوڑھے کا کردار اداکررہا ہے تو کوئی اس قربانی دینے والے نوجوان کا‘ کسی کے حصے میں نکاح خوان کا کردا رآیا ہے تو کوئی اس بوڑھے کی نوجوان بیٹی کا کردار نبھارہا ہے لیکن اصل کردار کچھ اورہیں ‘ یہ تو مسافروں کی کم بختی ہی قرار دی جاسکتی ہے کہ وہ آنکھ کھلنے کے باوجود سمجھ نہیں پائے کہ ان کے ساتھ کیاہوچکا ہے یا کیا ہورہا ہے ؟اگر کسی نے سمجھ یاجان لیا تو اس کے باوجود بھی اس کی پتھرائی آنکھیں سب کچھ دیکھنے کے باوجود خاموش اس لئے بھی ہیں کہ اس کی زبان گنگ ہے۔


ایک دیہاتی میلہ دیکھنے گیا ‘ میلے کی رنگینیوں میں گم اس دیہاتی کو خبر ہی نہ ہوسکی اورجیب کترے ہاتھ دکھا گئے ‘خبر تو اس وقت ملی جب ”گولہ “ کھانے کیلئے اس نے جیب سے پیسے نکالناچاہے ‘ وہ بیچارا بہت چیخا چلایا لیکن کسی کو کیا پرواہ ہوناتھی۔ خیر جی وہ دیہاتی شام کو تھکاہارا پنڈ پہنچ گیا‘ آس پاس کے مردوخواتین اکٹھے ہوگئے کہ اس سے میلے کی رنگینیوں کے بارے میں پوچھتے ہیں‘وہ بیچارا سیدھا سادھا دیہاتی ”ڈولوں“ پر ہاتھ مارتے ہوئے بار بار کہے جارہاتھا کہ ”اصل میں میلہ لگایا ہی اس لئے گیا تھا تاکہ میرا بٹوہ چرایاجاسکے“ اب کسی سیدھے سادھے پاکستانیوں سے پوچھا جائے تو وہ یہی جواب دینگے کہ ہرتین چار یا پھر اخیر پانچ سال بعد ہونیوالے انتخابات محض انکا ”بٹوہ“ چوری کرنے کا بہانہ ہوتے ہیں ‘سوچئے تو سہی ایک عام پاکستانی شہری کے بٹوے میں ہے کیا ”دال روٹی‘ چائے ‘ کپڑے لتے“ لیکن بھلا ہو ”میلہ “ کرانے والوں کاکہ پاکستانی قوم ”بٹوؤں“ سے محروم ہورہی ہے اورکوئی سوچنے سمجھنے والا نہیں ‘ یہ پوچھنے والے تو ہیں کہ ”ویرا! میلے اچ کی ویکھیا سی“ اب بیچارہ پاکستانی بتا بتا کے تھک گیا کہ ہر تین پانچ سال بعد لٹنے کیلئے میلہ لگایاجاتاہے ‘ہرانتخابات گذشتہ الیکشن سے زیادہ کڑے اورامتحان آور ثابت ہوتے ہیں لیکن کوئی سنے بھی کیسے کہ میلہ لگانے والے اور جیب کتروں کا ”یارانہ “ جو ہے ‘ اب میلہ لگانے والے اگر جیب کتروں کو پکڑنے لگیں تو پھر اگلے سال ان کا میلہ کیسے ”سجے “ گا کیونکہ میلہ لگانے کیلئے بھی تو”پیسوں“ کی ضرورت ہے ‘ اب کون اس سادہ لوح دیہاتی اورسادہ مزاج پاکستانیوں کو سمجھائے؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :