پارلیمنٹ سے بازارحسن تک اورعائشہ گلالئی کی کہانی

جمعہ 4 اگست 2017

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

ماضی بعید میں” اگر پارلیمنٹ سے بازار حسن تک “کتاب نے اس لئے شہرت حاصل کی کہ اس میں پارلیمنٹ سے جڑے لوگوں ، حکومتی ایوانوں میں بیٹھنے والوں کے رنگین قصے شامل تھے مگر گزرتے وقت نے ثابت کردیا کہ یہ وہ حمام ہے جس میں رہنے والوں کوننگاہوناپڑتا ہے ورنہ اگر کوئی لباس میں آجائے تو پھر اسے ”ننگا “ کہہ کر چھیڑاجاتا ہے، ہم جمشید دستی کی مثال دینا بھی نہیں چاہتے کہ بیچارہ پہلے ہی اپنی انہی عادت کی وجہ سے موجب سزا ٹھہرا ۔

ویسے پاکستان عجب طرز کے دور سے گزررہا ہے کہ جنہیں سزا ہونی چاہئے تھی یا جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوناچاہیں تھے وہ حکمران اورجو حکمران بننے کے لائق تھے وہ زندگی کی جیل میں گھٹ گھٹ کر مرجاتے ہیں خیر جمشید دستی بیچارہ چیختے چیختے چپ ہوگیا کہ ”پارلیمنٹ لاجز میں لائی جانیوالی ان ”رانیوں“ کوروکاجائے جنہیں پولیس والے ”جنرل رانیاں“ سمجھ کراس لئے سیلوٹ کرتے ہیں کہ وہ خصوصی گاڑیوں میں لائی اورخصوصی کمرے میں سلائی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

مان لیا کہ جمشید دستی نے شراب کی بوتلیں برآمد کرکے بہت بڑا جرم کیا لیکن اپنے حافظ حمد اللہ تو جھوٹ نہیں بولتے، وہ بھی فرمایاکرتے ہیں کہ پارلیمنٹ لاجز میں چرس کی بدبو کے باعث بیٹھا نہیں جاتا ، اجی چھوڑئیے کہ ان قصے کہانیوں کے باعث بہت سے چہروں پر سلوٹیں پڑنے لگ جاتی ہیں۔اصل میں ہم پارلیمنٹ کے حمام کے ننگوں کی بابت لکھ رہے تھے۔ آپ ذرا ”پارلیمنٹ سے بازار حسن تک ‘ ‘ کامطالعہ کریں دونوں بازار (دونوں میں جسم ہی بکتے ہیں، ایک کپڑوں سمیت اور ایک ․․․․ )آپس میں جڑے دکھائی دیتے ہیں، اب یہ بھی نہیں کہاجاسکتا تھاکہ یہ کتاب ماضی کی کہانیاں بیان کرتی ہے اور موجودہ پارلیمنٹ میں حقیقی شرفا ہی بیٹھتے ہیں، ارے صاحب ایسی بھی بات نہیں ،یہاں نٹ کھٹ لوگ ابھی تک موجود ہیں اوردل کھول کردل پشور ی کرتے ہیں، آج عائشہ گلا لئی کے الزامات کی کہانیوں میں ان لوگوں نے بھی حصہ شامل کرلیا جن کا ذکر اس کتاب میں موجود ہے یا عالمی میڈیا اس تناظر میں بہت کچھ بیان کرچکا ہے، اگر تھوڑی سی تکلیف کرتے ہوئے ماضی میں ایک نظر دیکھ لیاجائے تو عائشہ گلا لئی کے الزامات جیسی کہانیاں حقیقت میں نظرآتی رہیں، البتہ ان کا یوں کھلے عام ”چرچا“ نہیں ہوتاتھا، ہاں کبھی ایک جانب سے شاہ ایران اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں کے قصے اچھالے جاتے تو دوسری جانب سے بھی کمر درد اوردوسری دوائیوں کاذکر ہوتا اورپھر کہانی اس نہج پر پہنچی کہ شیر کے ماڈل ٹاؤن آنے کاذکر چھڑ گیا۔

یہ تو پرویز مشرف کا بھلا ہو کہ عنان اقتدار سنبھالتے ہی دونوں مورچوں میں بیٹھے لوگوں کو اکٹھا کردیا ورنہ پتہ نہیں اخلاقیات کسی کونے کھدرے میں منہ چھپاکر روتی نظرآتی ۔ چلو اس قصے کو بھی چھوڑے دیتے ہیں، ذرا پرویز مشرف کے ”اٹیک“ کا ہی ذکر کردیتے ہیں جب موصوف تختہ حکومت سنبھال چکے تو ماڈل ٹاؤن تلاشی کے دوران کمر درد ، طاقت کی ادویات اور انجکشن برآمد کرنے کا ذکر ہوتارہا، اس کو بھی چھوڑے دیتے ہیں کہ یہ شوق بھی انہی کو راس آتا ہے جو اس کو برداشت کرنے کاہنر جانتے ہیں۔


اب اگر عائشہ گلا لئی کے الزامات کی بات کریں تو پھر عجب سی کہانی سامنے آتی ہے ، ایک خاتون رہنما سے بات ہورہی تھی بلکہ ہم نے کئی خواتین کے منہ سے سنا ہے اور ایک خاتون ماہر نفسیات بھی ایک نجی ٹی وی پر بتارہی تھی کہ ایک عورت کے اندر خداوند قدوس نے عجب سا سینسر رکھا ہوا ہے اور وہ سینسر سامنے بیٹھے مرد کی نیت اور آنکھوں کی چمک سے بتادیتا ہے کہ یہ مرد کیسا ہے؟ ایک مرد کسی عورت کو مسلسل دیکھے جارہاہو اورعورت اس کی جانب متوجہ نہ بھی ہوتو وہ سینسر اسے الرٹ کردیتاہے کہ وہ کسی کی نگاہ کی زد میں ہے۔

عورت اس نگاہ کو محسوس کرتے ہی سب سے پہلے اپنے پردہ کاانتظام کریگی دوپٹہ ٹھیک کریگی اوراپنے لباس کی جانب توجہ دے گی کہ کہیں کوئی کمی بیشی تو نہیں رہ گئی، یہ محض چند منٹ میں ہی طے ہوجاتاہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر عائشہ گلا لئی کو غلیظ یاگندے میسجز اپنے پارٹی قائد کی طرف سے بھیجے جارہے تھے تو پھر وہ اتنا عرصہ کیوں خاموش رہی یا وہ اپنے لیڈرکی نگاہوں میں چھپی ہوس (بقول اس کے) کو دیکھ نہیں پائی، اب کوئی بیوقوف لیڈر ہی ہوگا جو اپنی پارٹی کی ممبر اسمبلی کو غلیظ میسجز کر کے اپنی طرف راغب کرے اوربی بی بھی ایسی ہو پاک پوتر ،اسے یقین بھی ہو کہ بی بی اس کی جانب راغب ہونے والی نہیں جس سے اس کی اپنی ہی شرافت کیلئے سوالیہ نشان بھی لگ سکتے ہیں، ہاں ایسے بہت سے بیوقوف ہوسکتے ہیں (عائشہ گلا لئی کے مطابق) چلو میسجز کو چھوڑے دیتے ہیں، ہوس کی بات کرلیتے ہیں ، جب موصوفہ کو پتہ تھا کہ ان کاکپتان یا لیڈر(جو ایک دن پہلے تک تو بالکل صاف وشفاف تھا) ہوس پرست آدمی ہے اور اسکے ذہن پرہوس ہی چھائی ہوئی ہے تو اسے چاہئے تھا کہ وہ نہ صرف اپنا دفاع کرتی بلکہ دوسری خواتین لیڈران کو آگاہ کرتی کہ ہٹو بچو ہمار اقائد ایسا ہے؟ کیا اس خاتون نے یہ بتانے یا سمجھانے کی کوشش کی ؟؟ یکم اگست سے پہلے یا اس سے قبل کسی پارٹی میٹنگ یا نجی محفل میں اس نے اپنے کپتان کی ہوس کاذکر کیا ؟؟ چلو مردوں سے نہ سہی کسی خاتون سے ہی کہاہو کہ ہمار اقائد ہوس پرست ہے اورمجھے اپنی عزت کا خطرہ لاحق ہے،کوئی ایک تو ساتھ دو“ آخر چار سال سے وہ پارٹی کی اہم ترین رکن تھی، ممبر قومی اسمبلی تھی کوئی عام سی گھریلو خاتون نہیں جو اس زورازوری زبردستی پر خاموش رہتی، اسے تو آواز اٹھاناچاہئے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا ؟ کیوں؟؟ کیوں ؟؟ اس کیوں کیوں کو اپنی مرضی منشا اور پھر کیوں کیوں کو کہیں او رلے جایاجائے تو بہت کچھ سامنے آتا جاتا ہے اورپھر کسی بھی عاقل اورخصوصی طوربالغ شخص کا ذہن ٹامک ٹوئیاں مارنے لگتا ہے۔

باعث حیرت بات یہ ہے کہ چھان بین کاذکر بھی انہی لوگوں کی طرف سے ہورہا ہے جو ماضی میں خود داغدار رہے یعنی انکے اپنے دامن چھید چھید تھے
ہم نہ تو کپتان کے چاہنے والے ہیں اورنہ ہی صفائیاں دینا ہمارا کام ہے، یہ جس کاکا م ہی اسی کو اچھا لگتا ہے لیکن ایک ظاہری صورتحال واضح کررہی ہے کہ بی بی چار سال سے اس ”عذاب “ کاشکار تھی مگر چپ تھی کیوں؟؟ اگر میسجز چار سال سے نہ صرف اسے بلکہ دوسری کئی خواتین کو مل رہے تھے تو وہ ان میسجز کا ”سکرین شارٹ “ بناکر محفوظ کرلیتی اور پھر بوقت ضرورت (یکم اگست کو ) میڈیا کے سامنے پیش کردیتی کہ میرے الزامات کی صداقت کیلئے یہ سکرین شارٹ ہی کافی ہیں۔

کوئی ایک میسجز کوئی ایک سکرین شارٹ پیش ہوا؟ الزامات لگانے والا کم ازکم ایک ثبوت پیش کرکے اپنے دیگر الزاما ت کوبھی سچا ظاہرکرسکتاہے، بی بی نے ایسا کرنا کیوں گوارہ نہیں کیا؟ کیا وہ واقعی سچی ہے یا پھر سچ کی آڑ میں کچھ اورمقاصد کوپورا کیاجانامقصود تھا؟؟
(زندگی رہی تو پھر کبھی برطانوی ،امریکی میگزینوں سے لی گئی پاکستانی سیاستدانوں کی کہانیوں، شہزادوں کاذکر ضرور کرینگے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :