پنجاب پولیس کے اندرونی خلفشار کی بنا پر ناکام احتساب

بدھ 3 اپریل 2019

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

پاکستان تحریک انصاف نے” نیا پاکستان “کے نام پر جو خواب دکھائے تھے اب اُن خوابوں کی تعبیر پر طنزیہ جملے کسے جا رہے ہیں۔موجودہ حکومت کی کارکردگی پر تنقید اب سرعام ہو نے ہولگی ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنان بھی مایوس ہو کر کنارہ کشی کر رہے ہیں جبکہ عوام میں مایوسی کا کفر پھر پھیلنے لگا ہے۔کیونکہ حکومت کی ناکام ٹیم نے پورا میچ ہار نے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔

پنجاب حکومت کی کارکردگی اِس وقت سب سے زیادہ موضوع بحث بن چکی ہے۔ بیورو کریسی کا بے لگام گھوڑا بزدار حکومت سے سنبھالا نہیں جا رہا ہے۔ پنجاب کی بیوروکریسی وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں کو اپنی من پسند پیچ پر میچ کھیلا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز کبھی وزیر اعظم عمران خان اور کبھی وزیر اعلیٰ پنجاب سردارعثمان خان بزدار کو بیورو کریسی کے متعلق کوئی نہ کوئی بیانیہ جاری کرنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)


 بیورو کریسی کے راج کا یہ عالم ہے کہ محکمہ ہیلتھ کا ایک ڈپٹی سیکٹریری پورے محکمہ صحت کو یرغمال بنائے بیٹھا ہے ۔جس کو کام بتاتے ہوئے صوبائی وزیر صحت اور مشیر صحت پنجاب بھی گھبراتا ہے۔ اُس ڈپٹی سیکٹریری کی رائے کو دیگر سیکٹریری صاحبان نے آسمانی صحیفہ کا درجہ دے رکھا ہے۔ کوئی قانون اور سروس رولز نہیں، بس جو فیصلہ وہ ڈپٹی سیکٹریری کر دے وہی محکمہ کا قانون بھی ہے اور وہی سروس رولز بھی۔

ورنہ سب قانونی دلیلیں بے کار ہیں۔ یہی ستم ظریفی پنجاب حکومت کے ہر محکمہ میں جاری ہے۔کہیں کوئی ڈپٹی سیکٹریری دردر سر بنا ہواہے تو کہیں کوئی سیکٹریری مغل بادشاہ کا کردار اد ا کر رہا ہے۔بیورو کریسی وفاقی اور پنجاب حکومت کے لیے دیمک کا کام کر رہی ہے۔
 وزیر اعلیٰ پنجاب آفس کے متعلقہ اعلیٰ حکام نے اگرا ِسی طرح سردار عثمان خان بزدا رکو بے خبر رکھا تو پنجاب حکومت مذید مشکلات کا شکا ر ہو جائے گی۔

حواری ہمیشہ سب اچھا ہے کی گردان دُہراتے رہتے ہیں یہ کھوکھلی تعریف درحقیقت دشمنی کی ایک قسم ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار تعلیم یافتہ اور بہادربلوچ سردارہیں۔ لہذا انہیں حواریوں کی بے جا تعریف کے سحر سے نکل کر عوام کی آواز کو سننا ہوگا ۔ 
سرکاری افسر شاہی مسلسل پنجاب حکومت کو امتحانات کا شکا ر کر رہی ہے۔ ابھی ڈی پی او پاکپتن، آئی جی پنجاب محمد طاہر کی تبدیلی، اور پولیس اصلاحات کمیٹی کے سربراہ ناصر خان دُرانی کے استعفیٰ کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ انسپکٹر جنر ل آف پنجاب نے 36ڈی ایس پی کی معطلی کا نیا پنڈو رابکس کھول کر رکھ دیا ہے۔

 چند دن قبل وزیر اعظم عمران خان نے عوام کے رد عمل کے پیش نظر تمام صوبائی حکومتوں سے اُن کی کارکردگی رپورٹ طلب کی تو پنجاب حکومت کے محکمہ پولیس نے اپنی پرفارمنس دکھانے کے چکر میں عجلت جازی میں 36ڈی ایس پی افسران کومحکمانہ احتساب کے نام پر مورخہ 25مارچ کو معطل کر دیا۔پنجاب پولیس کے سرکاری بیانیہ کے مطابق محکمہ میں انٹرنل اکاؤنٹبیلٹی کے عمل کی بناپر اِن 36پولیس افسران کو نوکری سے معطل کیا گیا ہے اور اِن افسران کی معطلی کو دیگر باقی کرپٹ عناصرکے لیے ایک مثال بنا دیا گیا ہے۔

اِن افسران کے بعد 29افسران کی ایک اور لسٹ بھی تیار تھی جس پر معطلی کے آڈر جاری ہونے تھے۔ مگر اِس سے قبل ہی معطل شدہ ڈی ایس پی نعیم عزیز نے لاہور ہائی کورٹ لاہور بنچ سے چارج شیٹ اور شوز کاز نوٹس جاری کیے بغیر معطلی آڈر کو قانونی بنیادوں پر چیلنج کر دیا۔ 
معزز عدالت عالیہ کے جسٹس محمد امیر بھٹی نے ڈی آئی جی لیگل جواد ڈوگر اور ڈی آئی جی ایڈمن زبیر قریشی سے قانونی موقف پر سوالات کیے تو محکمہ پولیس کو عجلت بازی کی بنا پر شرمندگی اُٹھانا پڑی ۔

معزز عدالت نے درخواست کو representationمیں تبدیل کرکے معاملہ آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کو واپس بھجوا دیا ہے۔ 
پنجاب پولیس کا سرکاری موقف ہے کہ اِن افسران کو اِن کے متعلقہ یونٹ ہینڈز کی طرف سے موصول ہونے والی مختلف شکایات کی روشنی میں معطل کیا گیا ہے اور اِن پر لگائے گئے الزامات کی انکوئری شروع کر دی گئی ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات سید صمصام بخاری کا میڈیا بیان ہے کہ اِن افسران کو انٹیلی جنس رپورٹس کی بناپر پر معطل کیا گیا ہے اور اِن کی انکوئر یاں اختتام کے قریب ہیں۔

جبکہ دیگر معتبر ذرائع کے مطابق یہ فہرست درحقیقت پنجاب پولیس کا اندرونی خلفشار ہے۔مخصوص لابنگ کی بناپر یہ تمام تماشہ کھڑا ہو اہے۔ جس طرح پنجاب پولیس نے ایڈیشنل آئی جی اظہر امین کھوکھرکو سانحہ ساہیو ال کی آڑ میں سائیڈ لائن پر کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے حوالے کیا ہے بعین اندورنی گروپ بندیوں کی بناپر یہ فہر ستیں بنا ئی جار ہی تھیں۔

افسر شاہی کے اِس انداز حکمرانی نے ایک دفعہ پھر بزدار حکومت کے لیے مسئلہ پیدا کر دیا ہے اور اپوزیشن کو ایک اور بھرپوروار کا موقعہ مل گیا ہے۔پاکستانی عوام آج جن مسائل کے گر داب میں پھنسی ہے، حکومت ِوقت کا اولین فرض اُن مسائل کا سد باب کر ناہے۔ مگر حکومتی ٹیم کی نااہلیت کی بناپر ہر ادارہ عوام میں تماشہ بن کر رہ گیا ہے۔ پنجاب پولیس ایک دفعہ پھر پویس یونیفارم بدلنے چلی ہے۔

جس پر پھر کروڑوں روپے خرچ کیے جائیں گے۔ ایک طرف ملک قرضوں پر چل رہا ہے دوسری طرف نااہل پالیساں سرکاری اداروں کو تباہ کر رہی ہیں۔ پولیس یونیفارم کی تبدیلی پر آنے والے اخراجات سے اگر نئی بھرتیاں کر لی جائیں تو پولیس میں کافی حد تک افراد ی قوت کی کمی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
 پنجاب پولیس وسائل کی کمی اور افسران کی کرپشن کابُری طرح شکا رہے۔

پولیس کے پاس خارجی اور داخلی راستوں کی حفاظت کے لیے ڈیجیٹل سکینرز تک موجود نہیں۔ گاڑیوں کی مرمت ، پٹرول ،آئل کے فنڈز میں کرپشن ہو رہی ہے۔ تھانہ جات میں پولیس اہلکاروں کو سرکاری طور پر آج بھی سیٹشنری فراہم نہیں کی جاتی۔سیٹشنری اور انوسٹی گیشن کی مد میں ملنے والے فنڈز ڈی پی او آفس میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ پنجاب کے بیشتر تھانوں کی عمارتیں اپنی خستہ حالی کی داستان گو ہیں ۔

پولیس ملازمین سے 18گھٹنے تک ڈیوٹی لی جا رہی ہے۔ 
سیاسی اثرو رسوخ اور سفارش کا کلچر پاکستان تحریک انصاف کے ممبران کی جانب سے بھی پولیس میں جاری ہے۔ ہر سیاسی حکومت پولیس ریفارمز کا نعرہ تو لگاتی ہے مگر اپنی بد نیتی کی بنا پر ریفارمز کر تی نہیں۔ ناصر درُانی کا استعفیٰ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ صدر پرویز مشرف نے پولیس ریفارم کے لیے بحیثیت چیف ایگزیکٹو آڈر نمبر 36/2002کے تحت پولیس ترمیمی آڈر 2002جاری کیا تھا جس کو 14اگست2002کو باقاعدہ سرکاری گزٹ کا حصہ بنایا گیا مگر تاحال آج تک کسی حکومت نے بھی اِس پولیس آڈر 2002پر عمل کرنا پسند نہیں کیا اور نہ ہی اِس کو لاگو کیا جاتا ہے۔

کیونکہ اِس میں بہت سی ایسی اصلاحات موجود ہیں جن کی تکمیل سے کافی حد تک پولیس میں تبدیلی ممکن ہے اور سیاسی مداخلت ختم ہو سکتی ہے مگر ذاتی مفادات کے چکر میں سیاست دان پولیس ریفارم نہیں چاہتے۔ 
 ہرسربراہ ادارہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ تمام انتظامی امور پر مضبوط گرفت رکھتا ہو۔ اُس کی ٹیم کے ممبران ادارہ کی ہر شے پر کڑی نظر اور چیک اینڈ بیلنس رکھتے ہوں مگر پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ کی پولیس کے انتظامی امور کی بد حالی،بد نظمی اور نااہلیت کا یہ عالم ہے کہ انٹر نٹ کے ای گورننس کے عہد میں پنجاب پولیس کی سرکاری ویب سائٹس آج تک اپ ڈیٹ نہیں۔

پنجاب پولیس کی سرکاری ویب سائٹ پر محکمانہ قانونی سزا (احتساب) کے اعدادو شمار 2018موجو دنہیں۔ سالانہ بجٹ 20181-9کی تفصیل آمدن و خرچ موجود نہیں۔ پنجاب پولیس کا پروفائل بمعہ اعداو شمار موجود نہیں۔ کرائم اعداد وشمار کا موزانہ فقط ایک سال کا پیش کیا جاتا ہے جو لازمی طور پر ہر سال کی نسبت بہتر کارکردگی ظاہر کرتا ہے ،کبھی ناکامیاں ظاہر نہیں کی جاتیں۔

اخراجات کی تفصیل تو کبھی بھی ظاہر نہیں کی جاتی۔
 آئی جی پنجاب کی مرکزی سرکاری ویب سائٹ کا جب یہ عالم ہوگاتو دیگر ریجنل دفاتر کی سرکاری ویب سائٹس کا لامحالہ اِس سے بھی زیادہ بُرا حال ہے۔ مثلاً پولیس ریجن ڈیرہ غازیخان کے چاروں اضلاع کے ڈی پی او دفاتر کی سرکاری ویب سائٹس جن کا لنک پنجاب پولیس کی مرکزی ویب سائٹ پر بھی موجو دہے وہ بھی اپ ڈیٹ نہیں ۔

حتی کہ ڈیر ہ غازی خان کی سرکاری سرکاری ویب سائٹ پر ڈی پی او کا نام عاطف نذیر کی بجائے سابقہ ڈی پی او کپٹن ریٹائرڈ عطامحمد خان کا تحریر ہے حالانکہ عطا محمد خان اب ڈئی آئی جی پرومویٹ ہو چکے ہیں اُ نکے بعد تین ڈی پی او تبدیل ہو چکے ہیں مگر آج تک اُنہی کانام ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اِسی طرح ضلع لیہ پولیس کی سرکاری ویب سائٹ پر سابق ڈی پی او ناصر راجپوت، ضلع مظفر گڑھ پولیس کی سرکاری ویب سائٹ پر سابق ڈی اوپی اویس احمد اور ضلع راجن پور پولیس کی سرکاری ویب سائٹ پر سابقہ ڈی پی او غلام مبشر میکن کانام آج بھی حالیہ تعینات ڈی پی او کے طور پر تحریر ہے۔

2019کے 4Gدور میں اور وزیر اعظم عمرا ن خان کے مغربی سٹائل انداز حکمرانی میں پنجاب پولیس کی انتظامی بدنظمی باعث شرمندگی بن رہی ہے۔ نیا پاکستان بنانا ہے تو سب کو خود کو بدلنا بھی ہوگا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :