اک مسلم کی مسیحی شادی میں شمولیت

منگل 1 جنوری 2019

Muhammad Waris

محمد وارث

پچھلے دنوں میرا ایک بہت ہی قریبی دوست بمعہ فیملی مجھ سے ملنے آیا اور اپنے ایک عزیز کی شادی میں شمولیت کا کارڈ دیا اور پر زور فرمائش کی کہ میں بمعہ فیملی ضرور شرکت کروں۔ چرچ میں شادی دیکھنا میرا بھی سپنہ تو تھا ہی ساتھ میں بیگم نے بھی فرمائش کر دی کہ چل کے دیکھتے تو ہیں ان کی شادی ہوتی کیسے ہے؟ اب بھلا بیگم کا حکم ہو اور بفضل خدا میرے جیسا رن مرید آدمی نا مانے کیسے ہو سکتا ہے؟
بروز اتوار ہم لوگ کارڈ میں درج پتے پر پہنچ گئے ، یہ شہر کا ایک قدیم چرچ تھا جسے بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا برقی قمقمے رات کی تاریکی کو دھوکہ دے کے دن کا ساماں باندھے ہوئے تھے، ہر طرف پاکستان کے قومی پھول چنبیلی سے پروئی لڑیاں منظر اور ہی دلکش بنا رہی تھیں۔

مہمانوں کی آمد جاری تھی میرے دوست کو جیسے ہی میری آمد کی خبر ہوئی ایک شاندار استقبال کے لیے حاضر ہو گیا میں اور میری  بیگم وہاں اس خوش فہمی کا شکار ہوتے رہے کہ ہم صرف مہمان نہیں بلکہ مہمان خصوصی بھی ہیں۔

(جاری ہے)

 

چرچ کے اندرونی مناطر بالکل ویسے ہی تھے جیسے ہم لوگ ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلموں میں دیکھتے چلے آئے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں نکاح کی رسم ادا ہونا شروع ہوئی۔

سب سے پہلے پادری صاحب سٹیج پہ آئے سب مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور آغاز سے ہی سب عالم کے لیے دعائیں مانگنا شروع ہو گئے۔ میں اور میری  بیگم ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے کہ یہ کیسا پادری ہے اور یہ کیسی دعا ہے جس میں سب عالم کے لیے دعا خیر مانگی جا رہی ہے کسی فرقے کو کافر نہیں کہا جا رہا کسی مذہب کو گالی نہیں دی جا رہی، کسی گرو کو نیست و نابود کرنے کی باتیں نہیں ہو رہیں، نا ہی مسلمانوں اور یہودیوں کو برباد کرنے کا پکارا جا رہا ہے، نا ہی امریکہ اور اسرئیل کے مقابلے میں ایران اور سعودی عرب کو فساد کی جڑ قرار دیا جا رہا ہے، پاکستان اور پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی سلامتی اور بقا کے لیے دعائیں مانگی جا رہی تھیں۔

اس دوران بیگم نے میرے کان میں سرگوشی کی ہمارے مولوی صاحب تو ہر وقت یہود و نصارہ کو نیست و نابود کرنے کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں یہ عجیب مولوی ہے ان عیسائیوں کا یہ ان کو بھی دعائیں دے رہا ہے جو ان کو گالیاں دیتے رہتے ہیں، بیگم سرگوشیاں کرتی جا رہی تھی اور میں طائف کی گلیوں میں کھویا  ہوا سرور دو عالم کی خون آلود جوتیوں کو زہن میں لا رہا تھا اور سرکار دوعالم کی دعائیں یاد کر رہا تھا جب طائف کے اوباش لڑکے سرکار دوعالم کو پتھر مار کے لہو لہان کر رہے ہوتے ہیں اور مدد کے لیے فرشتے بھی آ چکے ہوتے ہیں لیکن وہ رحمت عالم ان کے لیے پھر بھی دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں، وہ بوڑھیا یاد آتی ہے جو کوڑا کرکٹ اکھٹا کر کے رحمت عالم پہ پھینکتی ہے اور ایک روز ناغہ کرنے پے وہی ہستی اس کا گھر تک صاف کر کے آجاتے ہیں،  فتح مکہ کا وہ دن یاد آجاتا جب بدلہ لینے پے آتے تو ایک ایک سے بدلہ لے سکتے تھے لیکن سب کو معاف کر دیا جاتا ہے اور ابوسفیان جیسے دشمن کے گھر کو دارالامان قرار دے دیا جاتا ہے، حجتہ الوداع کا دن یاد آتا جس دن پورے عالم کی بھلائی کے لیے دعا مانگی  جاتی ہے سب غلاموں کو آزاد کر دیا جاتا ہے عربی ، عجمی،  کالے ، گورے کا فرق ختم کر دیا جاتا ہے اور فضیلت کا معیار صرف تقوی رکھا جاتا ہے، یہ اسوہ حسنہ تو آج سے چودہ سوسال پہلے ہمیں رحمت عالم نے سیکھا دیا تھا پھر ہم کس ڈگر چل رہے ہیں؟ ندامت کے مارے ہم میاں بیوی نم آنکھیں کیے ایک عیسائی پادری کی دعاوں پہ آمین آمین کہی جا رہے تھے۔

 
نکاح عیسائی عقیدے کے آئن مطابق ہوا پادری صاحب نے دونوں میاں بیوی کو سٹیج پہ بلا کے کچھ دعائیہ کلمات کہے اور ہال تالیوں سے گونج اٹھا بیگم نے پھر سرگوشی کی اور کہاں وہ جو میاں بیوی کس (kiss) کرتے ہیں وہ والا سین تو نہیں ہوا تو بیگم کو یاد دلانا پڑا کہ وہ فلم نہیں دیکھ رہی ویسا فلموں میں ہی ہوتا ہے۔
نکاح کے بعد سب مہمانوں کو دعوت طعام کے لیے مخصوص جگہ پہ لایا گیا جہاں ایک دفعہ پھر عیسائی پادری نے دل جیت لیے کھانا شروع ہونے سے پہلے عیسائی پادری اپنی سیٹ پہ کھڑا ہوا ایک دفعہ پھر پورے عالم کی بھلائی مانگی ، پورے عالم کے رزق میں برکت کی دعا کی، اس سلسلے میں مجھے مولوی کی رٹائی ہوئی دعا بھی یاد آئی جس میں آللہ کی حمدو ثنا کے بعد صرف مسلمین کے لیے مانگا جاتا ہے میں نے اللہ کی لاریب کتاب سے کچھ روگردانی کرنی چاہی تو اس لاریب کتاب کی پہلی آیت نے ہی آج چودہ طبق روشن کر دیے اس کی تو پہلی آیت میں ہی اللہ کہ رہا میں صرف مسلمانوں کا رب نہیں سب جہانوں کا رب ہوں۔

یہاں تک کہ ایک جگہ اپنے پیارے حبیب کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ میرا حبیب تو پورے جہان کے لیے رحمت عالم ہے۔ 
پادری صاحب کی دعا کے بعد کھانا شروع ہوا ساتھ میں میوزک بھی چلتا رہا پورے حال میں بہت ہی مہذب انداز میں سب نے بیٹھ کے کھانا کھایا مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ہم پاکستان میں ہیں کیوں کہ اتنے مہذب انداز میں کھانا کھانا ہمارے تو خون میں ہی نہیں ہے پھر نا جانے یہ کیا ہو رہا تھا۔

اسی دوران مسجد سے آذان کی آواز آئی اور ایک دم سے آذان کے احترام میں میوزک مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
گھرواپسی پے آتے ہوئے ہم میاں بیوی جہاں اتنی خوبصورت شادی میں شرکت پے خوش لوٹ رہے تھے وہی افسردہ بھی تھے کہ یہ سب تعلیمات تو ہمارے سچے مذہب کی تھیں ان سب چیزوں کا تو رحمت عالم نے ہمیں عملی نمونہ کر کے دیکھایا تھا پھر ہم لوگوں میں یہ چیزیں کیوں نہیں ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :