ہوش کے ناخن کہاں سے لیں؟‎

جمعہ 1 مارچ 2019

Muhammad Waris

محمد وارث

یہ 6 اگست 1945 کا دن تھا "لٹل بوائے" نام کا ایک ایٹمی بم ہیروشیما نام کے ایک شہر پے گرتا ہے اور چند ہی لمحوں میں ایک لاکھ پچاس ہزار کے قریب انسانی زندگیوں کو لقمہ اجل بنا دیتا ہے، اس درد ناک دن کو گزرے ابھی تین ہی دن ہوئے ہوتے ہیں کہ 9 اگست 1945 کو ناگا ساکی نام کے شہر کو "فیٹ مین" کے نام کا ایک بم تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ یوں تین ہی دنوں میں اڑھائی لاکھ جانیں دوسری عالمی جنگ میں ایٹم بم کی نظر ہو جاتی ہیں اور تاریخ گواہ ہے اتنی جانوں کے ضیائع کے بعد پھر یہی عالمی طاقتیں بات چیت سے اپنے مسائل حل کر لیتی ہیں۔

 
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ بہت پرانی ہے اس دھرتی پہ جنگ و جدل ہمیشہ سے رہا ہے آج کل یہ دھرتی ایک مرتبہ پھر جنگ کا سماں پیش کر رہی ہے۔ اس دھرتی پے رہنے والے دو انتہائی اہم ملک پاکستان اور بھارت ہیں جن کے درمیان تقسیم کے بعد سے لیکر آج تک کشمیر سب سے بڑا تنازعہ رہا ہے اس کی وجہ سے یہ دونوں ممالک 1947 سے لیکر آج تک تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن مسئلہ کشمیر جوں کا توں ہے۔ حالیہ تنازعہ کی وجہ بھی کشمیر ہی ہے اور خدشہ ہے کہ اس مسلہ کشمیر کی وجہ سے پھر کوئی بڑی جنگ نا چھڑ جائے۔ اب کی بار اگر جنگ ہوتی ہے تو وہ معمولی جنگ نہیں ہو گی بلکہ ایٹمی جنگ ہو سکتی ہے جس سے لاکھوں جانوں کا نقصان ہو گا۔
 جنگیں شروع تو حکومتیں کرتی ہیں لیکن لڑنی عوام کو پڑتی ہیں۔ بھارت کی 2017 کے مطابق آبادی 1.339 بلین ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 197 ملین بنتی ہے لہذا دونوں ممالک کی کل آبادی تقریباً ڈیڑھ ارب کے قریب ہے۔

دونوں ملک ایٹمی پاور ہیں اور دونوں کی افواج دنیا کی بہترین افواج میں شامل ہیں۔ سالانہ بجٹ میں دفاع پر زیادہ سے زیادہ اخراجات سے دونوں ممالک میں غربت و افلاس اور بے روزگاری تقریباً ایک جیسی ہی ہے۔ اگر شروع سے ہی ان دونوں ممالک میں امن کی پالیسی پہ کام کیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، ایک وقت تھا جب یہی خطہ سونے کی چڑیا تصور کیا جاتا تھا اب بھی اگر ہٹ دھرمی چھوڑ دی جائے تو بہت کچھ ممکن ہے، اس سال کی ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان 37بلین ڈالر کی تجارت کی جا سکتی ہے یہ 37 بلین ڈالر دونوں ملکوں کی غربت ختم کرنے کے لیے کافی ہیں مگر بدقسمتی سے ادھر توجہ ہی نہیں دی جا رہی۔

 
1974 میں جب بھارت ایٹمی طاقت بنا تو اس کے جواب میں پاکستان کو بھی مجبوراً 1998 میں ایٹمی دھماکے کرنے پڑے۔ اس موقع پر ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ رونما ہوا ، جاپان سے سپیشل وہ لوگ جو ایٹمی جنگ میں زندہ بچ گئے تھے پاکستان اور بھارت آئے تاکہ یہاں کی عوام کو آگاہ کر سکیں کہ ایٹمی جنگ کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کس طرح پورے کے پورے خاندان کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

پاک بھارت کی حالیہ کشیدگی سے اقوام عالم میں تشویش پائی جارہی ہے، بے چینی سی کیفیت ہے، پوری دنیا کا امن اس خطے سے وابستہ ہے۔ ان حالات میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہوتا ہے لیکن جس طرح کی رپورٹنگ اس وقت دونوں اطراف میں ہو رہی ہے وہ بالکل مایوس کن ہے۔ انڈین میڈیا خاص طور پر جو زبان اور جو انداز پاکستان کے بارے میں اپناے ہوئے ہے وہ نہ صرف قابل بیان بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں اطراف کا میڈیا عوام کو ایجوکیٹ کرتا، جنگ کے نقصانات عوام کو دیکھائے جاتے، اور کچھ نہیں تو ہیروشیما اور ناگا ساکی کی تباہی کے حالات ہی دیکھائے جاتے تو کافی تھے لیکن دونوں اطراف میں غلط رپورٹنگ سے جنگی جنون میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 
یہ جنون جنگ کی طرف لے جائے گا اور اس جنگ سے تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا، فلسطین، شام، یمن اور عراق کی تباہی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔

یہ یاد رکھنا چاہیے ایک ماں اپنے بیٹے کو جوان کرنے کے لیے سالہاسال محنت کرتی ہے اور اس کی جوانی بارود چند سیکنڈ میں چھین لیتا ہے ایسا ہی قوموں کے ساتھ ہوتا ہے سالہا سال کی محنتوں سے بنی ہوئی قومیں بارود کے سامنے چند سیکنڈ میں نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو ہوش کے ناخن لینا ہونگے اور یہ ہوش کے ناخن جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی سے ملتے ہیں وہاں سیخرید لانے ہونگے، مذکرات کی طرف ہی آنا پڑے گا جنگ کسی مسلے کا حل نہیں ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :