
انتہا پسندی اور ہمارا مستقبل
ہفتہ 23 مارچ 2019

محمد وارث
نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں جس سفاکیت اور حیوانیت سے معصوم، امن پسند اور بے گناہ لوگوں کو جس طرح قتل کیا گیا اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ یہ درندگی کرنے والا ایک سفید فام دہشت گرد ہے۔ نیوزی کی وزیراعظم جو کہ عقیدے کے لحاظ سے عیسائی ہیں اس موقع پر مسلمانوں کا اس طرح ساتھ دیا جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، ناصرف شلوار قمیض پہن کے ان سے ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ پارلیمٹ کے اندر قرآن پاک کی تلاوت کروا کے بین المذاہب کی خوبصورت مثال پیش کی۔
اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیں اگر خدانخواستہ ایسا پاکستان میں ہوا ہوتا اور پاکستان کا وزیراعظم ایسا کرتا تو کیا اب تک وہ یہودی ایجنٹ، مودی کا یار اور واجب القتل نہ ہو چکا ہوتا؟ اب ہم اپنے وطن عزیز کی مثال لے لیتے ہیں چند دن قبل فتح جنگ کے علاقے میں دو ڈاکٹرز کو موت کی گھاٹ اتار دیا گیا ابھی یہ زخم بھرے ہی نہیں تھے کہ بہاولپور کے علاقے میں ایک طالب علم نے اپنے ہی استاد کو مار دیا۔
یہ دو واقعات ہی آئینہ دیکھانے کے لیے کافی ہیں جب کہ ہماری تاریخ مشال خان، سلمان تاثیر اور آسیہ بی بی جیسے کیسز سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک انتہا پسندی ہے۔ یہ ناسور ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔
(جاری ہے)
اب وقت آ چکا ہے کہ اس ناسور سے چھٹکارا پایا جائے اس کے لیے کئی عملی اقدامات کرنے ضروری ہیں کچھ حکومتی سطح پر تو کچھ انفرادی طور پر۔ حکومتی سطح پر اس کے لیے چند اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں کالعدم تنظیموں پر پابندی وغیرہ شامل ہے۔ کالعدم تنظیمیں بہت ہی حساس معاملہ ہیان تنظیموں کی بدولت پاکستان پر ہمیشہ یہی الزام عائد ہوتا رہا کہ ہماری سرزمین کو ایسی تنظیمیں دنیا بھر میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے اور ان تنظیموں کی معاونت کرنے کے الزام میں بلیک لسٹ ہونے کے بادل سر پر منڈھلا رہے ہیں۔ ماضی کے برعکس اس دفعہ حکومت کو اس معاملے کا مکمل حل سوچنا ہوگا۔
صرف ایسی تنظیموں پر پابندی لگا دینا یا ان کے اہم سربراہوں کو نظر بند کر دینا آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے اور اب کی بار ڈر ہے کہ آنکھیں بند کرنے سے بلی سارے کبوتر کھا ہی نہ جائے۔ عالمی سطح پر ہمارے موقف کو تسلیم نہ کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے حالانکہ ہم نے پچھلی ایک دہائی میں 75 ہزار سے زیادہ قیمتی جانوں کی قربانی دی ہے۔ اب ہمارا ہمالیہ کی بلندی والا دوست ملک چائینہ بھی یہی مطالبہ کر رہا ہے کہ ان تنظیموں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
اب ان تنظیموں سے چھٹکارے کے لیے سب کو قتل تو نہیں کیا جاسکتا ظاہری سی بات ہے کہ ایسی تنظیموں کو قومی دھارے میں لایا جائے۔ قومی دھارے میں لانے کے لیے ان سے مذکرات کیے جائیں۔ مذکرات کی ہی بدولت برطانیہ نے آئریش ریبلکن آرمی کے سیاسی فرنٹ "شن فین" کو قومی دھارے میں لیا۔ پاکستان کو بھی ایسے ہی مذکرات کرنے چاہیے۔ ایسی شدت پسند تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے سیاسی و عسکریت قیادت میں اتفاق رائے قائم کرنا بہت ضروری ہے۔
موجودہ حکومت کے لیے یہ بہت آسان ہے کیوں اب حکومت اور عسکریت قیادت دونوں ایک ہی پیج پر نظر آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ اب مدارس کی نگرانی کرے ایسے تمام مدارس جو انتہاپسندی پھیلا رہے ہیں ان کا فوری خاتمہ کیا جائے ایسے تمام علماء کرام جن کی بدولت پاکستان میں بد امنی اور انتہاپسندی عروج پر پہنچ رہی ہے ان کو ملک بدر کیا جائے ان سے قیمتی گاڑیاں اور جائیدادیں واپس لی جائیں ۔وہ تمام علماء کرام جن کا زریعہ معاش بھی کوئی نہیں لیکن وہ کروڑوں کی جائیداد کے مالک ہیں ان کو نیب اور ایف بی آر کے حوالے کیا جانا چاہیے۔ ان کابھی احتساب ہونا چاہئیے۔
مساجد اب حکومت کی مرضی سے قائم ہونی چاہئیں ان میں اعلی تعلیم یافتہ سکالرز تعینات ہوں جو پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے سلیکٹ ہوں۔ ان کو 17سکیل اور اچھی مراعات دی جائیں اور مدارس کا سلیبس بھی ریاست اپنی مرضی کا رکھے۔ درس گاہوں میں انتہاپسندی کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں اور مختلف عقائد رکھنے والے طالب علموں میں باہمی روابط قائم کیے جائیں تاکہ دوسروں کی رائے کا احترام فروغ پائے۔ جہاد کا حکم صرف حکومت کی مرضی سے ہو اور کسی جماعت میں عسکریت پسندی نہیں ہونی چاہئیے۔
یہ تو تھے حکومتی سطح کے اقدامات اب آتے ہیں انفرادی اقدام پر، ہمیں انفرادی طور پر بھی انتہا پسندی سے نجات چاہیے۔ اس سلسلے میں ہم اگر چند ضروری کام کر لیں تو کافی حد تک اس سے نجات ممکن ہے۔ اگر ہم بحثیت گھر کے سربراہ کے طور پر دیکھیں تو ہمیں اپنے بچوں پر بہت محنت کرنی ہے، بچے معصوم ہوتے ہیں ان کو تعصب کا نہیں پتہ ہوتا اگر ہم بچپن میں ہی ان کے دل میں سب کا احترام اور سب عقائد کی اہمیت اجاگر کر دیں تو وہ کبھی انتہا پسندی کی طرف نہیں جائیں گے۔ بچوں کو اپنے سے مختلف عقائد کے لوگوں سے ملوایا جائے بات چیت کی عادت ڈالی جائے، دوسروں کی رائے کا احترام کرنا سکھایا جائے تو وہ کبھی تعصب کا شکار نہیں ہوں گے۔
یاد رکھیں یہ تعصب ہی ہے جو ہمارے بچپن میں ہمیں تحفے میں ملتا ہے اور یہ تحفہ دینے والے کوئی اور نہیں ہمارے اپنے ہوتے ہیں پھر جوان ہوکر یہی تعصب ہم سے مشال خان مروا دیتا ہے، ہم سلمان تاثیر کو قتل کردیتے ہیں ڈاکڑز کو صرف مختلف عقائد کی خاطر زندہ جلا دیتے ہیں اور یہ تعصب اور انتہا پسندی کی ہی بدولت ہم طالب علم ہوتے ہوئے قلم کی جگہ چاقو ہاتھ میں اٹھا لیتے ہیں اور اپنے ہی استاد کی گردن کاٹ دیتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.