بدلتے فیصلے اور خفیہ ہاتھ

جمعہ 31 جنوری 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

اس بات میں اب کو ئی شعبہ نہیں رہا کہ مو جودہ حکومت کے اندر اور پاکستانی سیاست میں طالبان نواز ایک طاقتور طبقہ مو جود ہے جو نہ صرف فوجی ایکشن میں نہ صرف تا خیر کے لئے تمام و سائل اور اپنے پوشیدہ ذرائع ا ستعمال کر رہا ہے بلکہ اس کو مسلسل اندر کی خبریں بھی مل رہی ہیں اور ان کی ر سائی دیگر شعبوں تک بھی ہے۔یہ المیہ ہے کہ اب پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں کا کو ئی بھروسہ نہیں ر ہا، ایک دن کی اچھی بات دوسرے دن ہی کمزوری میں بدل گئی۔

ابھی کل ہی کی بات تھی کہ پاکستان اور باہر یہ بات اطمینان کے ساتھ سنی گئی کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں طالبان کے متعلق کھل کر بات ہوئی تھی کہ اب مذاکرات نہیں ہونگے بلکہ جوابی کار وائی کی جا ئے ، اکثریت نے فوجی ایکشن کی حما ئت کی تھی بہت ہو گیا۔

(جاری ہے)

کافی مواقع دے دیئے گئے ہیں ، برداشت کی حد ہوتی ہے میڈیا میں بریکنگ نیوز کے طور پر خبر نشر ہوئی ،لیکن حیران کن طور پر اگلے دن قومی اسمبلی میں وزیر ا عظم نے پارلیمانی اجلاس کے اکثریتی فیصلے کو نہ صرف رد کردیا بلکہ ایک چار رکنی ٹیم بھی تشکیل دے کر مذاکرات کا اعلان کر دیا۔

یہ عمران خان کی کامیابی تھی غموں،دکھوں کے مارے پاکستانی عوام کے لئے یہ پریشان کن صورت حال ہے۔جس چار رکنی ٹیم کا علان کیا گیا ا ن ممبرزکی اپنی خودشناخت قابل بھروسہ نہیں۔اس حکومتی ٹیم کے تمام اراکین مذہبی نکتہ نگاہ سے طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں،ایک بھی حقیقی سیاسی پس منظر نہیں رکھتا جو جمہوری اور آئینی موقف کی بات کر سکے جس کی طالبان ہمیشہ سے مخالفت کرتے رہے ہیں اور ہیں گویا ایک طرح سے حکومت نے کمزوری کے ساتھ ساتھ ریاست کے تصور اور اس کے کردار کی بھی نفی کردی ہے۔

موجودہ حکومتی کردار قابل تشویش اور باعث فکر ہے۔دور حاضر میں اب تک کسی بھی ملک میں ایسی ریاستی کمزوری دیکھنے میں نہیں آئی جیسی ا س حکومت نے دکھائی ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ ملکی اور قومی مفاد سے سیا سی جماعتوں اور سیاست دانوں کو کوئی سروکار نہیں اور نہ ان خاندانوں سے کو ئی ہمدردی ہے جن کے پیارے بم دھماکوں،خود کش حملوں کی نذر ہو چکے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے پار لیمانی اجلاس میں عوامی نمائیندے بیٹھے تھے اور ان کی رائے کو نظر انداز کرنا ایک غیر جمہوری رویہ ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ ضیا ء ا لحق کے سیاہ دور میں جنم لینے والے بزنس مین سیاست دان نہ حوصلہ رکھتے ہیں اور نہ مستقبل کے حوالے سے اس فیصلے کے منفی اثرات سے واقف ہیں۔جو طاقتیں اس سے قبل لیبیا، مصرمیں اپنی کامیاب کار و ئیاں کر چکی ہیں وہ آج کل شام میں خونی ڈرامہ سجائے ہوئے ہیں اور پاکستان میں صف بندی میں مصروف ہیں۔

محسوس یوں ہوتا ہے کہ بعض اسلامی حکومت یا حکومتیں بھی اپنے نظر یات کے فروغ کے لئے سر زمین پاکستان کو استعمال کر رہی ہیں اوراس پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ کیا مجبوری ہے؟
طالبان کو قومی دھارے میں لانے والے کیا ان کے ملک کے اندر پرامن رہنے کی کوئی ضمانت دے سکتے ہیں؟ آستین کے سانپ اب وطن عزیز کے اندرغیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں۔

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آج کا فیصلہ کل کے روشن یا سیاہ مستقبل کی ضمانت ہوگا۔تاریخ معاف نہیں کرے گی مورخ کا قلم بھی سرخ سیاہی سے منحوس تاریخ قلمبند کرے گا۔شہداء کے قبرستان میں مدفون شہداء کی روحیں دور حاضر کے ان میر و جعفروں کو کبھی معاف نہیں کریں گی بیوگان، یتیم بچے، بوڑھے والدین اور بہن،بھائی سبھی روز قیامت اس قومی اسمبلی کے تمام آراکین کا گر یبان پکڑیں گے،محاسبہ کریں گے کہ ان کے پیاروں کے خون کے سودے کا اختیار قومی اسمبلی کو کس نے دیا تھا؟سیاسی المیہ ہے کہ اب تک قومی اسمبلی کے تمام فیصلوں نے ملکی و قومی وقار کو داغدار ہی کیا ہے اور تمام فیصلے یا تو ذاتی و جماعتی مفادات میں کئے جاتے رہے ہیں اور کئے جارہے ہیں اور ان کی منظوریاں سپریم کورٹ سے حاصل کر لی جاتی ہیں
بندوق کو چھوڑکر جدید ترین ا سلحہ سے لیس ریاست پر قبضہ کرنے والے قانون شکن ہیں یا کہ محب وطن؟ اور کچھ حصہ پر ان کا قبضہ بھی ہو؟منافقوں کی علامت یہ ہے کہ ان کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کون ہیں؟ یہی حال اس وقت ملکی سیاست کا بھی ہے۔

کلین شیو سیاست دان زیادہ خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔مشاورت ایک ایسا عمل ہے جس سے نازک دور میں بہتریں فیصلے ہوتے ہیں لیکن انفرادی اور ون مین شو میں ا نفرادی فیصلہ سب کو لے ڈوبتا ہے۔لہذا مو جودہ حا لات میں مسلم لیگ ن کے پار لیمانی اراکین کے اکثریتی فیصلے کو نظر انداز کرنا ایک بھیانک فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :