ساڑھی کے فال سے

جمعہ 21 دسمبر 2018

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

میری طرح بہت سے لوگ اس علم سے نابلد ہونگے کہ ساڑھی باندھی جاتی ہے کہ پہنی جاتی ہے۔ایک انڈین دوست نے از راہ تفنن اپنی بائیں آنکھ دباتے ہوئے اس حقیقت سے یوں پردہ اٹھایا کہ ناف سے نیچے باندھی جاتی ہے اور پیٹ سے ذرا اوپر پہنی جاتی ہے گویا پیٹ نہ ہوا باندھنے اور پہننے کے درمیان حد فاصل ہو گیا۔جواب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیٹ کیوں ”ظاہر“ کیا جاتا ہے۔

ساڑھی ایک ایسا لباس ہے جسے پہن کر بھی خاتون بے لباس سی دکھائی دیتی ہے۔ساڑھی ساری بھی پہنی ہو تو بھی عورت آدھی ساڑھی کی بنا ہی دکھتی ہے،شائد ساڑھی کو دیکھ کر ہی پنجابی کا یہ اکھان بنا ہو کہ ”دکھتی ہے تو بکتی ہے“ساڑھی ایسا لباس ہے جس میں مکمل مساوات پائی جاتی ہے یعنی جسم کا جو حصہ دکھنا چاہئے وہی دکھائی دیتا ہے باقی ساڑھی ڈھانپ لیتی ہے اسی کو دیکھنے کے لئے من چلے اتاولے ہوئے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)


کہتے ہیں دو چیزیں بنارس کی پہچان ہیں ،بنارسی ساڑھی اور بنارسی ٹھگ،مثل مشہور ہے کہ روم میں رہنا ہے تو وہی کرو جو رومن کرتے ہیں(رومن کیا کرتے ہیں؟یہ ابھی تک صیغہ راز ہے)۔ایسے ہی بنارس میں اگر رہنا ہو تو وہی بن جاؤ جو بنارس کے لوگ بنے ہوئے ہیں یعنی ٹھگ۔ساڑھی پہننے والی عورتیں ساڑھی میں دو چیزوں کا خاص خیال رکھتی ہیں،ساڑھی کا فال اور اس کا پلو۔

ساڑھی کا فال غیر مردوں کے ”فالواپ“ کے لئے اور پلو اپنے مردوں کوباندھنے کے لئے۔عورت کے ساڑھی پہننے پر سب سے زیادہ خوشی جس چیز کو ہوتی ہے وہ چابیوں کا گچھا ہوتا ہے۔جو ساڑھی کی اڑیس میں ہر وقت ننگ بدن کے مزے لے رہا ہوتا ہے۔ساڑھی کتنی بھی قیمتی ہو اس کا ایک نقصان ضرور ہوتا ہے کہ ساڑھی کی کوئی ’جیب‘ (پاکٹ) نہیں ہوتی،اسی لئے ساڑھی زیب تن کرتے ہوئے خواتین اپنا” مخصوص“ سامان اپنی مخصوص جیبوں میں ہی رکھتی ہیں۔

ایک اور نقصان بھی ساڑھی کا ہوتا ہے کہ ساڑھی والی خواتین کسی محفل میں یہ بھی نہیں کہہ سکتیں کی میں تو اپنے خاوند کو اپنی جیب میں رکھتی ہوں۔ خواتین کے زیب تن کئے جانے والے لباس میں کچھ ایسے کپڑے بھی ہوتے ہیں جن کا الٹا سیدھا ایک سا ہوتا ہے۔ایسے ہی ساڑھی پہنے خواتین کا الٹا اور سیدھا جاننا اور پہچاننا قدرے مشکل ہوتا ہے۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسے آپ سمجھتے ہیں کہ جا رہی ہے وہ دراصل آ رہی ہوتی ہے اور جسے آپ کی دانست میں آپ کے پاس آنا چاہئے وہ اصل میں کسی اور کے پاس جا رہی ہوتی ہے،مگر دیکھنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔

اور دیوار کے اس پار بھی دیکھنے کی مہارت میں یکتا ہوتے ہیں۔ایک دوست سے اس بارے میں جانکاری چاہی تو دھیمے لہجے میں اپنی فلسفیانہ رائے کچھ اس طرح سے دی کہ جناب اگر تو ساڑھی پہنے خواتین کا” پہاڑی سلسلہ“ فلک بوس ہو تو سمجھ لو کہ توپوں کا رخ آپ کی طرف ہے۔اور اگر” مرتفاعی سلسلہ “زمین بوس ہو رہا ہو تو سمجھ جائیں کہ فوجوں کا بریگیڈمخالف سمت حملہ کرنے والا ہے۔

ویسے شرفا کے ہاں ساڑھی کو مہذب لباس خیال نہیں کیا جاتا،اسے شرفا کی تنگ نظری خیال نہ کیا جائے کیونکہ بات صرف ساڑھی کی ہو رہی ہے خواتین کی پسندیدگی کی نہیں۔مذہبی حلقوں میں تو اسے مکمل ناپسند کیا جاتا ہے اگر کسی اور خاتون نے پہنی ہو تو۔ضمناً ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک مولانا صاحب تقریر فرما رہے تھے کہ عورت کو ستر پوشی کا خاص خیال رکھنا چاہئے ،ایسے کہ سر کے بال سے ہاتھوں کے ناخن تک مکمل پردے میں ہو۔

ایک دیہاتی بھی مجمع میں موجود تھا۔مجلس سے فارغ ہو کر سیدھا بازار گیا اور کپڑے کا ایک پورا تھان خرید کر گھر لے گیا اور اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ دیکھو آج مولانا نے کہا ہے کہ عورت کو پردے اور ستر کا خیال رکھنا چاہئے،اس لئے تم فلاں مولانا کے گھر چلی جاؤ اور جیسے اس کی بیوی نے لباس پہنا ہوگا اتنی ضرورت کا کپڑا اس تھان سے کٹوا لینا۔دیہاتی کی بیگم مولانا کے گھر گئی اور فوراً واپس آ گئی اور اپنے خاوند سے کہنے لگی کہ مولانا کی بیگم نے جتنا مختصر لباس پہنا ہوا تھا اس کیلئے تھان نہیں بس چند میٹر کی ضرورت ہوگی۔

دیہاتی اٹھا سیدھا مولانا کے پاس گیا اور سارا ماجرا کہہ ڈالا،مولانا نے دیہاتی کی ساری بات تسلی سے سنی اور زیر لب تبسم فرماتے ہوئے کھسیانے انداز میں جواب دیا ”کہ دیکھویار ستر پوشی تو وہی ہے جو میں نے بیان کی مگر کیا کروں بیگم مختصر کپڑوں میں خوبصورت بہت لگتی ہے“
ساڑھی ایک ایسا لباس ہے جسے پہن کر بھی عورت بے لباس ہی دکھتی ہے۔

ساڑھی پہنے خواتین میں پیٹ اور پہلو کا اہم کردار ہوتا ہے اگر تو پہلو اور پیٹ ساڑھی سے نکل کر ایسے جھاتیاں مار رہے ہوں جیسے ”اُس “بازار کی کھڑکیوں سے ”اُس “قسم کی خواتین اپنے گاہکوں کو تاڑ رہی ہوتی ہیں تو سمجھ لو ساڑھی اپنا کام دکھا گئی۔خوب صورت گلِ اندام ساڑھی میں ملبوس ہو تو لگتا ہے گلوں میں رنگ بھر دئے ہیں اور ساڑھی کا حق ادا کر دیا ہے ، یہی ساڑھی اگر کسی سانولی سلونی نے زیب تن کی ہو تو لگتا ہے ”کٹًا کپاہ وچ چھڈ دتا“(بھینسا کپاس کے کھیت میں چھوڑ دیا ہو)۔

شوبز کی خواتین جب ساڑھی بنواتی ہیں تو اپنے ڈیزائنر کو یہ نہیں بتاتیں کہ کون کون سے جسمانی اعضا ڈھکے ہوں بلکہ یہ کہتی ہیں کہ کیا کیا دکھنا چاہئے۔ایسی خواتین کا زیادہ زور اس بات پہ ہوتا ہے کہ دیکھو ساڑھی کی فال اور میری ناف اگر خط مستقیم میں نہ ہوئے تو آئندہ میں اپنا ڈیزائنر ہی تبدیل کر لونگی،کبھی کبھار تو شوبز خواتین ایسی ساڑھی بھی پہن آتی ہیں کہ حکومت وقت کو اعلان کرنا پڑ جاتا ہے کہ حضرات دیپیکا کو ایسی ساڑھی میں دیکھنا منع ہے۔مگر کون باز آتا ہے ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :