دفعہ کرو جی، کچھ نہیں ہوتا

جمعرات 4 جون 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

سرونسٹن چرچل دوسری جنگ عظیم کے ہیرو خیال کئے جاتے ہیں کیونکہ انکی بہترین حکمت عملی کے سبب ایک ایسی جنگ جو کہ اتحادی افواج تقریبا ہارنے والی تھی اسے فتح سے ہمکنار کیا۔کیونکہ پرل ہاربر پر جاپانیوں کی طرف سے کامیاب حملہ اور ہاربر کے نقصان کو کوئی بھی عسکری تجربہ رکھنے والا بآسانی یہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ اب یہ جنگ اتحادی کسی طور بھی نہیں جیت پائیں گے۔

تاہم ہیرو شیما اور ناکا ساگی پر ایٹمی حملہ نے پوری جنگ کا نقشہ تبدیل کے رکھ دیا۔لیکن تاریخ اور انگریز قوم کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ایک ایسا شخص جو کہ 1945 میں ختم ہونے والی جنگ کا ہیرو تھا اسی سال منعقدہ انتخابات میں شکست سے دوچار ہوا۔تاہم وہ آئندہ انتخابات میں جیت کر انگلینڈ کا وزیراعظم بنا۔ان کی زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ جو کہ ہماری قوم کا بھی آج وطیرہ بنا ہوا ہے کچھ اس طرح سے ہے کہ
چرچل نے بی بی سی ریڈیو پہ تقریر کرنی تھی اس نے ایک ٹیکسی والے کو روکا اور کہا کہ بی بی سی ریڈیو چلئے،ٹیکسی ڈرائیور نے معزرت کرتے ہوئے کہا کہ
”جناب میں نے گھر جا کر چرچل کی تقریر سننی ہے کیونکہ میں ان کا بہت بڑا مداح ہوں لہذا میں آپ کو نہیں لے جا سکتا“
چرچل نے جب یہ سنا تو بہت خوش ہوا اور دس پاؤنڈ نکال کر ٹیکسی ڈرائیور کی ہتھیلی پر رکھے اور خوشی سے کچھ کہنا ہی چاہ رہا تھا کہ ڈرائیور بولا
”لعنت بھیجیں جی چرچل پہ آئیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہے“
یہ واقعہ ایک ایسی قوم کے ٹیکسی ڈرائیور ہے جسے دنیا آج ترقی یافتہ ملک اور اعلی اخلاقی اقدار کی متحمل قوم سمجھتے ہوئے ان کی مثال دیتے نہیں تھکتی۔

(جاری ہے)

گویا معاشی مسئلہ کے سامنے باقی سب مسئلہ بے معنی سے ہوجاتے ہیں۔جہاں بھوک ،افلاس،ضروریات زندگی کی شدت ہوگی وہاں اخلاقیات کا پنپنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔تہذیب،اخلاقیات،خلوص یہ سب معاشی خاش حالی کی باتیں سمجھی جاتی ہیں اور ایسا ہی ہے وگرنہ تو
افلاس نے بچوں کو بھی تہذیب سکھا دی
سہمے ہوئے پھرتے ہیں شرارت نہیں کرتے
افلاس زدہ بچوں کی تہذیب دراصل اپنی غربت کی وجہ سے ڈرے ہوئے رہنا ہے اسی لئے ایک غریب کا بچہ خوف سے سہم کر کسی محفل میں بھی کسی ایک کارنر میں پڑا رہتا ہے کیونکہ اس کے اندر ایک خوف ہوتا ہے کہ وہ دیگر لوگوں سے معاشی لحاظ سے کمتر ہے۔

اس کے اس احساس محرومی کو دنیا اس کی اخلاقیات سمجھ بیٹھتی ہے جبکہ دوسی طرف ایک امیر اور معاشی طور پہ خاش حال بچے کی بدتمیزیوں کو ان کا اعتماد اور شخصیت کی اعلی ظرفی سمجھ بیٹھتی ہے۔
بات ہو رہی تھی کہ فی زمانہ دنیا میں بہت سی قوموں کا رویہ بن چکا ہے کہ دفعہ کرو یا لعنت بھیجو جی کچھ بھی نہیں ہونے والا۔جیسے کہ آجکل میرے ملک میں لوگوں نے یہ رویہ اپنا لیا ہوا ہے کہ کون سا کرونا جی کوئی کرونا ورونا نہیں ہے کچھ بھی نہیں ہوتا۔

کوئی بیمار ہوگیا تو دوائی لینے کی بجائے اور کچھ بھی نہیں ہوگا دوائی پہ لعنت بھیجو قہوہ پیو خود ہی ٹھیک ہو جاؤ گے،بغیر لائسنس گاڑی آپ موٹر وے پہ لے جائیں ،کوئی صاحب علم اگر یہ کہہ دے کہ یہ تو قانونا جرم ہے تو ذرا بھی گھبراتے نہیں بلکہ شیخی بکھیرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہوتا ،نو انٹری میں گھس کر بھی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہوتا ،بھائی جی ذرا سوچیں کہ ایسی حرکات سے اگرچہ آپ کو تو کچھ بھی نہیں ہوگا(اگرچہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے)تاہم مخالف سمت سے آنے والے بھی اللہ کی مخلوق ہیں ان کو کچھ بھی نہ ہونے سے بچاؤ کی ذمہ داری بھی تو آپ کی ہی ہے۔

اگر وہ بھی یہیں سوچ لیں کہ مخالف سمت سے آنے والوں پہ لعنت بھیجیں کچھ بھی نہیں ہوتا تو کیا ہو سکتا ہے۔
ابھی حالیہ کرونا کی وبا میں بھی جو حال پاکستانیوں نے عید شاپنگ یہ کہہ کر دس ارب تک پہنچا دی کہ کون سا کرونا کچھ بھی نہیں ہوگا،اب اس کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔اللہ ملک کو ہر برے حالات سے بچائے۔میں حیران تھا کہ رمضان سے قبل ٹی وی اور سوشل میڈیا کی نیوز اور ویڈیوز سے یوں لگ رہا تھا کہ شائد چند دن بعد ہی لوگ بھوک پیاس سے مر جائیں گے لیکن عید پر لوگوں کو جوق در جوق شاپنگ کے لئے شاپنگ مالز کا رخ بتا رہا تھا کہ ہر کوئی اسی سوچ سے باہر نکلا ہے کہ لعنت بھیجو جی کچھ نہیں ہوتا۔

کچھ نہیں ہوتا اور لعنت بھیجو والا رویہ ہم پاکستانیوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ ہم تو ابھی معاشی لحاظ سے طفل مکتب ہیں ہماری معیشت چائنہ جتنی مستحکم نہیں ہے کہ خدانخواستہ کچھ برا ہوا تو ہم اپنے اس رویہ کہ لعنت بھیجو اور کچھ بھی نہیں ہوتا کی بھاری قیمت چکائیں گے،ہمیں سمجھ جانا چاہئے اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :