دیکھتی آنکھیں،سنتے کانوں

جمعہ 19 جون 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

قانون قدرت ہے کہ جس کو اس دنیا میں آنا ہے اسے اپنی مقررہ زیست گزار کر اس دار فانی سے رخصت بھی ہونا ہے۔لیکن کچھ ایسے بھی ابنائے عصر ہوتے ہیں کہ جو وصال کے بعد لوگوں کے دلوں کی مسند پر براجمان ہوتے ہیں،جیسے کہ مولانا روم جب اس بے ثبات دنیا سے سفرآخرت پہ جا رہے تھے تو کسی نے پوچھا کہ حضور آپ ہم سے بہت دور جا رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں میں دنیا کی مسند سے رخصت ہو کر لوگوں کے دلوں کی مسند پر براجمان ہو جاؤں گا۔

مگر ایسے خوش قسمت لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔
دنیا میں خلوص کی کمی ہے
ہیں لوگ مگر چیدہ چیدہ
انہیں لوگوں میں ایک شخصیت طارق عزیز کی تھی،میری عمر کے تمام لوگوں نے اپنے پچپن کو ایک آواز سنتے ہوئے پروان چڑھایا ہے،وہ آواز تھی کہ”شروع کرتا ہوں اللہ رب العزت کے با برکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے،دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے“۔

(جاری ہے)

ان کے یہ کلمات ایسے مقبول ہوئے کہ لوگوں کی سماعتیں ان الفاظات کو سننے کے لئے ترستی رہتی کہ کب ایک ہفتہ ختم ہو اور طارق عزیز کا نیلام گھر دیکھیں۔مجھے یاد ہے کہ میرے محلہ کا ایک بزرگ اکثر کہا کرتا تھا کہ میں نیلام گھر صرف طارق عزیز کے اس نعرہ میں مضمر جوش اور حب الوطنی کی وجہ سے دیکھتا ہوں کہ”پاکستان زندہ باد“۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ 1965 کی جنگ میں جیسے نور جہاں نے سرحد پر تعینات فوجیوں کے لہو کو اپنے ملی نغموں سے گرمایا تھا اسی طرح سرحد سے دور شہروں میں موجود لوگوں کی حب الوطنی اور ملکی وقار کی بلندی کے لئے طارق عزیز کے اس نعرہ نے اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔


اس طرز کے جتنے پروگرام بھی عصرِ حاضر میں کئے جا رہے ہیں شعوری ولاشعوری طور پر نیلام گھر کی ہی نقالی ہیں لیکن نیلام گھر اور آج کے پروگرام میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ نیلام گھر ہر لحاظ سے ایک فیملی شو ہوا کرتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ 1975 میں شروع ہونے والے اس پروگرام میں اپنی طوالت نشری کے سبب بہت سے ریکارڈ بھی توڑے۔گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کے تمام ایسے پروگرام کا شجرہ کہیں نا کہیں یا کسی طور نیلام گھر سے ہی جا کر ملتا ہے۔


دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کاپس منظر بتاتے ہوئے ایک بار طارق عزیز نے خود ہی کہا تھا کہ ایک بار مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ” دیکھتی آنکھیں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے“کا انتخاب کیوں کیا؟ تو میں نے جواب دیا کہ میں روایتی انداز میں ہی اپنے پروگرام کا آغاز کیا کرتا تھا ایک بار مجھے ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ طارق عزیز صاحب میں ایک نابینا شخص ہوں میں آپ کا ہر پروگرام باقاعدگی سے سنتا ہوں ،آپ نے مجھے کبھی سلام نہیں کیا ،تو اس دن کے بعد میں نے اس فقرے کا انتخاب کیا کہ دیکھتی آنکھیں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے۔


طارق عزیز کے والد جالندھر سے ساہیوال کے ایک گاؤں میں آکر آباد ہوئے،ان کا پچپن ساہیوال میں گزرا،گورنمنٹ کالج ساہیوال سے انٹر کی تعلیم کے بعد اپنے شوق کی آبیاری کے لئے لاہور تشریف لے گئے۔ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر میں ملازمت اختیار کی ،جب لاہور میں پاکستان ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تو انہیں پی ٹی وی کا پہلا اناؤنسر ہونے کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔

آپ براڈ کاسٹر،اناؤنسر،ادیب،صداکار،شاعر اور کمپیر تھے۔انہوں فلموں میں اداکاری بھی کی تاہم جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ ان کا اداکاری کے میدان میں کامیاب ہونا مشکل ہو گا تو انہوں نے اپنی مکمل توجہ اپنے مشہور زمانہ پروگرام نیلام گھر کی طرف مبذول کر لی۔سخنوری میں انہوں نے اگرچہ ایک ہی کتاب تصنیف”ہمزاد دا دکھ“کی تاہم اسے ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی نصیب ہوئی۔

یعنی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک کثیر پہلو شخصیت کے مالک تھے۔اگر اس میدان میں کسی شعبہ میں وہ طبع آزمائی نہ کرسکے وہ تھا گلو کاری،ایسا نہیں کہ انہوں نے اس میں کوشش نہیں کی لیکن ان کی اس کوشش کو پارکھی نظر رکھنے والوں نے حقیقت آشنائی سے واقفیت دلا دی کہ میاں یہ آپ کے بس کی بات نہیں،وہ خود ہی کہتے ہیں کہ ایک بار میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ
اناؤسمنٹ کی،خبریں پڑھیں،بڑے بڑے پروگرامز کی میزبانی کی،ڈراموں اور فلموں تک میں کام بھی کیا لیکن کبھی گانا نہیں گایا،کیوں نہ اس میں بھی طبع آزمائی کی جائے۔

پی ٹی وی لاہور مرکز میں ساتھ والے سٹوڈیو میں گانے کا آڈیشن چل رہا تھا میں بھی وہاں چلا گیا۔دو گویے کافی لوگوں کا انٹرویو کر رہے تھے،میری باری آئی تو انہوں نے مجھے جو مصرعہ دیا میں نے گا دیا۔ایک صاحب بڑے صبر کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیے بالآخر کہنے لگے
کتھوں آئے جے پا جی
میں نے کہا ۔۔۔۔۔ساہیوال توں
بڑے کرب سے بولا۔۔۔آئے تے بڑے دوروں جے
اتنے میں دوسرا بولا
خیر نال ،،سُر توں وی اونے ای دور نیں۔


ان کی سخنوری کے نمونہ کلام سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معاشرہ کا دکھ درد ان کے قلم سے روشنائی نہیں بلکہ سرخ خون بن کر ٹپکتا تھا۔
ہم وہ سیاہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
کھولیں دوکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اج دی رات میں کلاں واں کوئی نئیں میرے کول
اج دی رات تے میریاں رباں نیڑے ہو کے بول
یا پھر
ایسے علم سکھا دے سانوں
ہرے بھرے ہو جائیے
گہرے علم عطا کر سانوں
بہت کھرے ہو جائیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گناہ کیہ اے ثواب کیہ اے
ایہہ فیصلے دا عذاب کیہ اے
ایہہ ساری بستی عذاب وچ اے
تے حکم عالی جناب کیہ اے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :