
کچرے پر کچرا سیاست
جمعرات 10 ستمبر 2020

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
ایسے سماجی مسائل اور برائیوں کو روکنا ہرآنے والی حکومت کے لئے چیلنج کے ساتھ ساتھ درد سر بھی بنا رہا کہ کسی طرح کراچی کا امن واپس لوٹ آئے۔
کسی طرح اس شہرِ بے مثال کی روشنیاں پھر سے جل بجھ کر لوگوں کو زندگی کی طرف لوٹا دے۔قدرت کاملہ کو اس شہر کے مکینوں پر ترس آیا تو سیاسی و عسکری قوتوں نے مل کر اس شہر کے سکون کو بحال کرنا شروع کردیا اگرچہ اس مقصد کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد ہے لیکن سلام ہے رینجرز اور افواج پاکستان کے جوانوں کوجو راہِ حق میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے شہید کہلائے۔نذرانہ عقیدت اور تحسین ہے ان ماؤں کو جنہوں نے ایسے لعل پید اکئے جن کے خون نے اس دھرتی کو سرخ خون دے کر سرخ ہونے سے بچا لیا۔قابل ستائش ہیں ایسے لوگ جنہوں نے اپنے کفن کو خاکی سے سفید رنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے تبدیل کر دیا۔یہ سب ایسے ہی نہیں ہوا جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ لاکھوں شہدا کے خون سے یہ امن نصیب ہوا۔لیکن مجھے ابھی بھی ڈر اور دھچکا سے لگا رہتا ہے کہ کہیں پھر سے دشمن اپنے ناپاک عزائم سے اس شہرِ پر امن کو تار تار نہ کردے۔دشمن سے زیادہ مجھے ہمیشہ اپنوں کی فکر رہتی ہے کیونکہ دشمن کا تو پتہ ہوتا ہے کہ وہ سامنے سے حملہ آور ہوگا لیکن اپنے آستینوں کے سانپوں کے ڈسنے کا پتہ جب چلتا ہے تو اس وقت تک بہت تاخیر ہو چکی ہوتی ہے۔
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
اب اگر عمران خان نے اعلان کردیا ہے تو اپنی لالچی نظریں اور حاسدی خیالات کو تھوڑی دیر کے لئے سلا کر ملک کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے حکومت کا ساتھ دیجئے کیونکہ ملک عمران خان کا نہیں ہم سب کا ہے،اگر اپنے حق کی اتنی ہی فکر تھی تو اپنے دورِ حکومت میں کراچی میں موجود چار سو نالوں کی صفائی کیوں نہ کروا سکے۔ہر سال چار ارب روپیہ صفائی کی مد کہاں جاتا رہا ہے۔ہر سال مون سون کے بارشوں میں ہونے والی جانی،جسمانی اور معاشی نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا۔کیونکہ عمران خان کی حکومت کو تو ابھی دو سال ہی ہوئے ہیں۔پچھلے تیس سالوں سے کون سے جماعت بر سراقتدار رہی ہے۔تب ان کے ضمیر کہاں سوئے ہوئے تھے۔اگر کراچی پورے ملک کو پال رہا ہے تو کراچی کو بھی مرکز ہی پالتا ہے۔اور پھر اس قسم کے متنازعہ بیانات دینے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ کراچی شہر علاقہ میں لگائی گئی انڈسٹری،ٹیکس اور دیگر ذرائع سے پیسہ جمع کر کے حکومت کو دیتا ہے متنازعہ بیانات دینے والے سیاستدان اپنی جیب سے یہ رقم ادا نہیں کرتے۔بلکہ وہ تو ملین ڈالرز اور سونا چاندی اپنے گھروں میں جمع کئے رکھتے ہیں۔اگر اتنے ہی ملک سے مخلص ہیں تو پھر آئیں میدان عمل میں اور دیں حکومت کا ساتھ تاکہ حکومت اورحزب اختلاف مل کر ملک کی خدمت کریں۔
حکومت نے تو گیارہ سو ارب کی تخصیص بھی بڑی وضاحت کے ساتھ عوام کے سامنے رکھ دی ہے کہ وفاقی حکومت گریٹر کراچی کی بحالی کے لئے کراچی کے سب سے بڑے مسئلے پانی کی سپلائی کے لئے 46 بلین،کراچی سرکلر ریلوے(جو کہ 2000ئسے بند پڑا ہوا ہے اور اس پر سپریم کورٹ بھی کتنا عرصہ چیختی رہی)لیکن حکومت نہ تو واٹر سپلائی اور ٹینکر مافیا کا خاتمہ کر سکی اور نہ ہی ناجائز تجاوزات کو سد باب کر پائی،اب اس حکومت نے ریلوے سرکلر کی بحالی کے لئے 300بلین مختص کئے ہیں۔اسی طرح ریلوے کاریڈور کے لئے اکتیس بلین جبکہ نالوں کی صفائی وغیرہ کے لئے 254بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔گویا 736بلین وفاقی حکومت کراچی کے گریٹر پراجیکٹ کے لئے لگائے گی جبکہ 375بلین صوبائی حکومت کو لگانا پڑیں گے۔اب دیکھتے ہیں کہ صوبوں کا حق رکھنے والے اپنے فرائض کی بجا آوری کے لئے کیا خرچ کرتے ہیں۔دن رات عمران خان حکومت ملک کھا گئی کا واویلا مچانے والے اپنے ہی صوبے پر کیا خرچ کرتے ہیں چند دنوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔مگر سچی بات تو یہ ہے کہ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو والے ہمت کہاں سے لا ئیں گے۔اسی لئے تو مراد علی شاہ سے لے کر لاول تک شور مچا رہے ہیں کہ صوبہ کا پیسہ خود صوبہ استعمال کرے گا۔وفاق کو اپنیی من مانی نہیں کرنے دیں گے۔جناب آپ اپنی اپنی نبیڑیں۔وفاق اپنا کام کرے اور صوبہ اپناتو کسی قسم کی تفاوت پیدا ہی نہیں ہوگی۔اسی لئے میرے خیال میں بات ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ شروع ہوئی ہے کیونکہ کل سے یہ بیانات بھی سننے میں آرہے ہیں کہ صوبائی حکومت خود یہ پیسہ مختلف پراجیکٹس پر خرچ کرے گی۔ وزیر اعلی سندھ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ کراچی ہمارا ہے کوئی ہم سے کراچی چھین نہیں سکتا۔کوئی اس سٹینفورڈ یونیورسٹی کے پڑھے سے یہ پوچھے کہ تم سے کراچی کون چھین رہا ہے اور پھر تمہیں کراچی کا حق ملکیت کس نے عطا کیاہے۔جبکہ حکومتی ایوان کا کہنا جو کہ میری دانست میں درست بھی ہے کہ وہ خود یہ پیسہ کراچی پر خرچ کرے گی تاکہ نظام کو صاف و شفاف رکھا جائے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ صوبہ سندھ میں اقتدار پر قابض لوگ اپنے حصہ کے بغیر کسی صورت مرکز کے ساتھ تعاون کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ جبکہ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان بھی جب کوئی ارادہ کر لیتے ہیں تو پھر نتائج کی پرواہ کئے بغیر اس پر گامزن ہو پڑتے ہیں۔غالبا سلیم کاشر کا شعر اس موقع پر مبنی برصداقت معلوم ہوتا ہے کہ
رکھو تیر کمان دے وچ
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.