جنت کو جہنم بنانے والے گدھ

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

سوچا تھا کہ اس موضوع کو صفحہ قرطاس پر لانے کی جرات نہیں کروں گا کہ اس سے بھی تشہیر کا عنصر نکلے گا۔ہو سکتا ہے میرے الفاظ مرہم کی بجائے اس ماں کے جذبات کو مزید تار تار کرنے میں اضافہ کا باعث نہ بن جائیں۔یقین جانئے ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ میں اپنے منتشر خیالات کو یکسو کرنے میں بالکل قاصر ہوں۔موضوع کی مناسبت سے لکھنے کے لئے الفاظ کو مجتمع کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو الفاظ جو کبھی باندی کی طرح ہاتھ باندھے ملتے تھے اب مختلف اقسام کے دائرے بناتے ہوئے میرا منہ چڑھا رہے ہیں ،سچ تو یہ ہے کہ یونہی میں نے یہ خبر ٹی وی سکرین پر دیکھی کانوں کو یقین نہ آیا ۔

آپ بھی ذرا میرے ساتھ چشم تصور میں دیکھئے کہ شب سیاہ،ایک خاتون جو اپنے تین کم سن بچوں کی ماں ہے،رات کے سناٹے میں اکیلی موٹر وے پر جا رہی ہے،اچانک سے گاڑی کا پٹرول ختم ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ اپنے گھر فون کر کے بتا دیتی ہے۔پولیس والوں سے رابطہ کیا جاتا ہے اور ان کی طرف سے وہی بے حس روائتی جواب کہ یہ جگہ ان کے علاقہ میں نہیں پڑتی،ایسے میں دو حیوان(ایسے جانوروں کوانسان کہنا انسانوں کی توہین ہے) گاڑی کا شیشہ توڑ کر بنت حوا کو ان لاڈلوں سمیت ایک کچے راستے پر لے جا کر عصمت دری کرتے ہیں کہ خدا پناہ۔

بنت حوا ہوس زدہ،بیمار گدھوں سے نوچے جانے کے بعد اپنے تینوں لاڈلوں کو مرغی کی طرح اپنی باہوں میں سمیٹ کر کسی مسیحا کی منتظر خود بھی سہم کر چھپ جاتی ہے کہ کہیں مسیحا کی بجائے وہی درندے پھر سے نہ لوٹ آئیں۔نہ جانے اس ماں نے کتنی بار چرخ ِ بریں کی طرف یہ سوچ کر دیکھا ہو گا ،نہ جانے کئی بار اپنے پاؤں کی ایڑھی سے زمین کو مار کر دیکھا ہوگا کہ یہ کب پھٹے کی اور مجھے میرے بچوں سمیت اپنی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سلا دے گی۔

لیکن ایسا نہ ہوا۔نہ زمین پھٹی اور نہ آسمان گرا۔ایسے میں اس ماں کے کانوں کی سماعت میں ایک ندا سنائی دیتی ہے کہ کوئی ہے،کوئی میری آواز سن رہا ہے ،میں پولیس مین ہوں۔اور ذرا سوچئے کہ اس خاتون کے منہ سے نکلنے والا پہلا لفظ کیا تھا؟”’بھائی“‘۔انہیں رشتوں کے احساس نے ہی تو اسے فرانس چھوڑنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ لبرل اور مادر پدر آزاد معاشرے سے دور اپنے بچوں کو ”اپنوں“میں لے جا کر بس جائے گی جہاں اس کے اپنے ہوں گے،بہن بھائی ،رشتہ دار اور سب سے بڑھ کر اپنا ملک جس کا نام ہے ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“یعنی ایسا ملک جو اسلامی تو ہے ہی ،ساتھ پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ بھی۔

لیکن اسے کیا خبر کہ اس پاک دھرتی میں بسنے والے کس قدر مکروہ اور ناپاک ہیں۔اسے کیاپتہ کہ جہاں انسان نہیں بھیڑئے نما انسان بستے ہیں بلکہ یہاں تو گدھوں کا بسیرا ہے۔اسے کیا علم تھا کہ عزت کی چادر کو اس کے اپنے ملک کے لوگ ہی تار تار کر کے اسے ظالم معاشرے میں لعن طعن کے لئے چھوڑ دیں گے۔ایسے میں وہ یہ نہ کہے کہ ”مجھے زندہ نہیں رہنا،مجھے گولی مار دی جائے“
ذرا سوچئے جب بے بس بچوں کی جنت کو ہوس کے پجاری جہنم بنا رہے ہوں گے تو وہ لاچار ماں کیا سوچ نہیں رہی ہوگی کہ جب یہ لوگ میرے ساتھ یہ کر رہے ہیں تو اپنی ماں جیسے دھرتی کے ساتھ کیا کرتے ہوں گے،وہ تو صرف بچوں کو لے کر اس لئے نکل پڑی تھی کہ یہ فرانس نہیں اس کا اپنا ملک ہے۔

اس کے اپنے لوگ ہیں۔اس کے ارد گرد بھائیوں کا سائبان ہوگا۔خیر میں نے شروع میں کہا تھا کہ مجھے آج کا کالم لکھنے کے لئے نہ الفاظ مل پا رہے تھے اور نہ ہی حوصلہ ہو رہا تھا،لیکن پھر سوچا کہ ”جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستین کا“۔ظلم سہنا بھی تو ظالم کی طرفداری ہے۔کیوں نہ اپنی آواز ابمطابق استطاعت بلند کی جائے۔
ریاست ِ مدینہ کی صدائیں بلند کرنے والو!آپ بھی اب ہوش کے ناخن لیں۔

معاملہ پکڑ دھکڑ کے بعد رفع دفع نہ کرنا۔معاملہ ٹھنڈا پڑنے پر اچکزئی کیس نہ بنا دینا۔زینب کے قاتلوں کی طرح انہیں بھی تختہ دار کا مزہ چکھانا،تاکہ واقعی ریاست مدینہ عملی طور پر دکھائی دے۔کیونکہ ریاست مدینہ کی جب بنیاد رکھ دی گئی تو پھر صنعا سے حجر موت تک عورت زیور سے لدھی ہوئی بھی جا رہی ہو تو کسی کی اتنی جرات نہیں ہوتی تھی کہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ لیا جائے کیونکہ انہیں خبر تھی کہ اگر آنکھ اٹھا کر دیکھا تو آنکھیں نکال لی جائیں گی۔

یہی وطیرہ خلفائے راشدین کے ادوار کا بھی رہا ہے۔کہ خواتین کو نہیں بلکہ مرد حضرات کو اتنی جرات نہیں ہو اکرتی تھی کہ وہ اپنی آنکھ اٹھا کر کسی نامحرم کی طرف دیکھیں گویا عورتوں کو نہیں بلکہ مردوں کو ایک طرف اور آنکھیں جھکا کرنے کا حکم تھا۔یہ سلسلہ ہر اس دور حکومت میں چلتا رہا جس کے حکمرانواں میں رائی بھر بھی عشق مصطفی زندہ ہوتا۔جس کی ایک مثال،شیر شاہ سوری ہیں۔

انہوں نے اپنے عہد حکومت میں اپنی ریاست میں اعلان کروا رکھا تھا کہ ”اگر اس کے دور حکومت میں سیاہ رات میں کوئی عورت اکیلی اپنا زیور اچھالتے ہوئے جا رہی ہو اور اسے ڈاکو لوٹ لے جائیں تو وہ اپنا زیور شیر شاہ سے آکر لے جائے“
وزیر اعظم صاحب یہ ہے ریاست مدینہ۔آپ بھی اسی طرز حکومت کے پیرو کار بنتے ہوئے،اس کیس میں ایسا فیصلہ کر جائیں کہ تاریخ کے صفحات ہمیشہ کے لئے آپ کے اس فیصلہ کو محفوظ کر لے اور آنے والے ایسے ہوس پرست اس سے ایسا سبق سیکھیں کہ کسی اور کی ایسی جرات نہ ہو۔

اس کے لئے آپ کو بڑا دل کرنا ہوگا۔ہو سکتا ہے ملزم طاقتور ہوں،ہو سکتا ہے ان کا تعلق کسی ادارے سے نکل آئے۔یہ بھی ممکن ہے سیاسی پشت پناہی نے انہیں ایسی جرات کرنے کی ہمت دی ہو،ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اثر ورسوخ رکھنے والے ہوں۔اس لئے خان صاحب ماضی کی طرح اس بار بھی دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملزموں کو قرار واقعی ایسی سزا دی جائے کہ ایک بار اس ماں کے چہرے کو سکون مل جائے جو اپنے تین بچوں کی جنت ہے جسے درندوں نے جہنم بنانے کی سفاک حرکت کی۔

پابلو نرادو جو کہ چلی کا ایک مشہور شاعر تھا اس کی ایک نظم یاد آگئی جو لگتا ہے ایسے ہی ہوس کے مارے گدھوں کے لئے لکھی گئی تھی کہ
کہو تم عدالت میں جانے سے پہلے
کہو تم وزارت میں جانے سے پہلے
کہو تم سفارت میں جانے سے پہلے
دکھاؤ ہمیں اپنے اعمال سارے
قیامت کے دن اور خدا پر نہ چھوڑو
قیامت سے یہ لوگ ڈرتے نہیں ہیں
اسی چوک پہ خون بہتا رہا ہے
اسی چوک میں قاتلوں کو پکڑ کر
سزا دو ،سزا دو،سزادو،سزا دو
سزا کیا ہونی چاہئے،میرے خیال میں حکومت کو اس سلسلہ میں روایت شکنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا اختیار متاثرہ عورت کو دے دینا چاہئے کہ وہ جو چاہے ،جیسی چاہے سزا دے حکومت اس کے ساتھ ہے۔

تاکہ اس دل کو اتنی راحت تو نصیب ہو کہ اسے انصاف مل گیا ہے،وگرنہ بروز قیامت اس کا ہاتھ اور ہم سب کا گریبان ہوگا۔اور ایسے بے رحم ہوس کے پچاری گدھ ہمیشہ ہمارے سروں پہ منڈلاتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :