
قندیل ِ ذات
بدھ 9 دسمبر 2020

مراد علی شاہد
مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے اپنی اردو یا انگریزی کی درسی کتب میں ایک کہانی بلبل اور جگنو ضرور پڑھ رکھی ہوگی۔کہانی کا مختصر یہ ہے کہ ایک بلبل سیاہ رات میں اپنے گھونسلے کا راستہ بھول جاتا ہے۔
(جاری ہے)
تھک ہار کر وہ ایک درخت کی شاخ پر اپنا ڈیرہ ڈال دیتا ہے۔
ایسے میں اس کے پاس ایک جگنو آتا ہے۔وہ بلبل کو اداس دیکھ کر اس سے پوچھتا ہے کہ اے بلبل تم اداس اداس اس شاخ پر کیوں بیٹھے ہو،جبکہ رات ہو چکی ہے تم اپنے گھر کیوں نہیں گئے۔اس پر بلبل جواب دیتا ہے کہ میں اپنے گھر یعنی گھونسلہ کا راستہ بھول گیا ہوں۔اس لئے اداس بیٹھا ہوں کہ گھر کیسے جاؤں گا۔جگنو نے بلبل کی اداسی محسوس کرتے ہوئے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اللہ نے مجھے روشنی سے نواز رکھا ہے۔میں آپ کے آگے آگے اڑتا ہوں اور تم میرے پیچھے پیچھے آجانا۔اس طرح آپ اپنے گھر پہنچ پاؤ گے۔دونوں نے درخت کی شاخ سے اڑان بھری اور بلبل کے گھونسلہ تک پہنچ گئے۔میں نے اس کہانی سے جو سبق حاصل کیا وہ یہ تھا کہ جگنو کی روشنی اگرچہ اس قدر نہیں ہو تی کہ وہ راہ چلتے بھولے ہوئے مسافروں کو راستہ دکھائے لیکن چونکہ وہ جگنو کے اندر کی روشنی ہوتی ہے اس لئے اماوس کی راتوں میں اس کی چمک دمک کہیں زیادہ دکھائی دینے لگتی ہے۔گویا ذات کے اندر سے پھوٹنے والی روشنی کی اہمیت سیاہ راتوں میں اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔بزرگ فرماتے ہیں کہ انسان کی ذات کے اندر سے پھوٹنے والی روشنی دراصل تقویٰ کو نور ہوتی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ تقویٰ کیا ہے۔تقویٰ اصل میں طہارت ،پاکیزگی،زہد و ہدایت کا نام ہے۔اور یہ ذات نفی سے پیدا ہوتا ہے۔گویا ذات نفی ،تقویٰ کا نام ہے۔لیکن تقویٰ کی سب سے بہتر تعریف صوفیا کرام کے ہاں ملتی ہے۔تصوف میں کہا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو سب سے کمتر خیال کرنے کا نام تقویٰ ہے۔تقویٰ کبھی بھی اس دل میں مسکن پذیر نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس میں علم اور عمل کی روشنی گھر نہ کر لے۔کیونکہ علم کی قدرومنزلت عمل کے بغیر صفر ہے۔اگر آپ کے پاس علم ہے لیکن اس پر عمل نہیں تو یوں سمجھیں کہ خالی ڈھول کے سوا کچھ بھی نہیں۔جس کی آواز چند ساعتوں کے لئے تو کانوں کو بھلی محسوس ہوتی ہے لیکن کچھ ہی دیر بعد یہی آواز شور محسوس ہونے لگتی ہے۔علم اور علم کے تعلق کو بایزید بسطامی سے بہتر کسی نے آج تک بیان نہیں کیا۔وہ فرماتے ہیں کہ
”میں نے تیس سال مجاہدہ کیا لیکن میں نے علم پر چلنے یعنی عمل سے زیادہ سخت چیز کوئی نہیں پائی،مجھ پر آگ پر چلنا آسان تھا لیکن علم پر چلنا مشکل“
اب دیکھنا یہ ہے کہ اعمال کی اہمیت کیا ہے،عبادات کا مغز کیا ہے اور اعما ل وعبادات کا آپس میں تعلق کیا ہے؟اہل علم قرآن و حدیث کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ عبادات سے افضل ہے اعمال کا انسانی شخصیت میں ہونا۔کیونکہ عبادات تو اعمال کا ہی نام ہے جیسے کہ اگر ہم غور کریں کہ قرآن میں کتنی بار نماز کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ نماز بھی اعمال کے بغیر ممکن نہیں ہے،وہ اس لئے کہ نماز تب تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک آپ معمول میں آنے والے نمازیوں کی غیر حاضری کے بارے میں ان کے گھر جا کر ان کی خیریت معلوم نہیں کر پاتے۔لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ نماز اور اس کی اہمیت نماز کی ادائیگی کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔اگر نماز کو محض عبادت کی حد تک ہی محدود کرنا ہوتا تو پھر یہ کبھی نہ کہا جاتا ہے جب نماز ادا کر چکو تو اپنے دائیں بائیں دیکھو کہ کون آج نماز میں نہیں آسکا اور اس کی وجہ دریافت کرو۔
گویا خدمت ایسی عبادت ہے جو انسانیت کے درجہ اولیٰ پر قائم ہے۔صوفیا تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اللہ کو ملنے کا مختصر راستہ جہاں نوافل کی ادائیگی ہے وہاں خدمت انسانیت بھی ہے۔یعنی
خدا کوش ہوگا عرشِ بریں پر
عمل صالح،،،،،شیریں گفتگو۔
بس ان دوباتوں پر عمل درآمد کر کے ہم سب اپنے ارد گرد کے ماحول کے لئے اپنی ذات کو قندیلِ نور بنا سکتے ہیں کہ جس کی روشنی سے علم والوں کے دل ایسے روشن ہو جائیں کہ ان کے لئے بھی اپنے علم پر چلنا یعنی عمل کرنا آسان ہو جائے۔۔تو پھر یہ عمل کل سے کیوں؟آئیے اپنے اپنے علم پر عمل کرنے کا آغاز آج سے ہی کرتے ہیں۔تاکہ ماحول میں ہر سُو روشنی ہی روشنی محسوس ہو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.