
ہم اعتبار کر کے گنہگار ہو گئے
بدھ 10 مارچ 2021

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
اب جبکہ وزیر اعظم صاحب نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے اور پہلے سے زیادہ اکثریت نے یہ ثابت بھی کردیا ہے کہ ان پر واقعی عوام کو اعتماد حاصل ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم اب پہلے سے زیادہ عوامی توقعات پر بھی پورا اتر پائیں گے؟کیونکہ سیاست تو خدمت کا نام ہے۔اور خدمت سے مراد عوام کی فلاح و بہبود ہے۔اگر خان صاحب کی اڑھائی سالہ حکومت یا اقتدار کا جائزہ لیا جائے توعوامی فلاح و بہبود اور معیاری طرز زندگی کی فراہمی میں تو ناکام ہی رہے ہیں ۔اس لئے کہ ایک حکومت کا سب سے پہلا کام ہی یہ ہوتا ہے خاص کر فلاحی ریاست کا کہ وہ عوام کو بھوکا نہ سونے دے۔جیسے کہ مدینہ کی ریاست کے ایک خلیفہ حضرت عمر کا بیان ہے کہ ”دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاس سے مرگیا تو عمر اس کا ذمہ دار ہے“۔
گویا اب پاکستان کے وزیر اعظم،جن کا خواب اور خیال ہے کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنائیں گے(ان شااللہ)تو ان پرذمہ داریاں اب پہلے سے بھی زیادہ آن پہنچی ہیں۔کیونکہ پاکستان کا تو سب سے بڑا مسئلہ ہی بھوک ہے۔اگرچہ اس مسئلہ کے حل کے لئے پناہ گاہیں ،سہولت کارڈ،صحت کارڈ جیسی سہولیات بہم پہنچائی جا رہی ہیں لیکن کیا ہے کہ اگر واقعی خان صاحب چاہتے ہیں کہ پاکستان مدینہ کی ریاست جیسی ریاست بن جائے تو پھر انہیں اپمی عوام کو ہاتھ پھیلانے والا نہیں بلکہ کمانے والا بنانا چاہئے۔بالکل ویسے ہی جیسے کہ ایک بار آقا ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے اپنی غربت اور کسمپرسی کا اظہار فرما کر امداد کی درخواست کی۔جس کے جواب میں دو جہانوں کے آقا ﷺ نے اس صحابی سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو اس نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میرے پاس ایک کلہاڑی ہے اور وہ بھی دستہ کے بغیر،تو آنحضور ﷺ نے اپنے دست مبارک سے ایک لکڑی سے اس کلہاڑی کے لئے دستہ بنا کر،کلہاڑی تیار کر کے اسے نصیحت کی کہ اب تم جنگل میں جاؤ،لکڑیاں کاٹو اور اسے فروخت کر کے اپنا گزر بسر کرو۔وہ شخص دربار رسالت ﷺ سے رخصت ہوگیا،چند ماہ بعد وہ شخص دوبارہ بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یارسول اللہ ﷺ آپ کے بتائے ہوئے راستہ پہ چل کر آج میں اس قابل ہو گیا ہوں کہ آج میرے پاس اتنی رقم ہے کہ میں کسی غریب کی امداد کر سکتا ہوں۔یہ عمل چائنہ کے لوگوں تک نہ جانے کیسے پہنچ گیا کہ اب چائنہ میں بھی ایسی ہی ایک کہاوت ہے کہ
”ہم لوگوں کو مچھلی نہیں دیتے بلکہ مچھلی پکڑنے کے لئے کانٹا دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی مچھلیاں پکڑ کر زندگی گزارے“
وزیر اعظم صاحب اگر واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستان کو ریاست مدینہ جیسا بنایا جائے تو لوگوں کے ذریعہ معاش کی فکر کریں،ان کی مدد اس طرح سے کریں کہ وہ اپنی مدد آپ کے قابل ہو جائیں۔انہیں اس قابل کریں کہ وہ اپنا کاروبار یا کام کر سکیں ناکہ لائنوں میں کھڑے ہوکر روٹی کے حصول کے لئے اپنی عزت نفس تک مجروح کر لیں۔اور ونسٹن چرچل کی بات سچ ہو جائے کہ جب انہیں پتہ چلا کہ برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے،تو انہوں نے کہا کہ یہ ملک روٹی کے ایک نوالہ کے لئے آپس میں لڑیں گے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ غریب مزید غریب ہوتا جائے اور حقیقتا وہ روٹی کے ایک نوالہ اور پانی کے ایک گھونٹ کے لئے دست بستہ ہو جائیں۔
لہذا خان صاحب جن لوگوں نے آپ پر اعتماد کیا ہے بھلے وہ عامر لیاقت ہی کیوں نہ ہو،ان کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائیے گا۔بلکہ قدرت کی طرف سے ایک اور موقع سمجھتے ہوئے پہلے سے زیادہ شدت جذبات کے ساتھ عوام کی خدمت اور فلاح کے لئے عملی اقدامات کیجئے گا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ
ہم اعتبار کر کے گنہگار ہو گئے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.