ہم اعتبار کر کے گنہگار ہو گئے

بدھ 10 مارچ 2021

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اعتماد کو ووٹ کر ی ثابت کردیا کہ انہیں ایوان کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔انہوں نے پہلے سے بھی دو ووٹ زیادہ حاصل کر کے پہلے سے دو اور ایم این ایز کا اعتماد پالیا۔اب وزیراعظم کو تو عوامی توقعات کو پورا کرنے کی پہلے سے بھی زیادہ اور بھرپور کوشش کرنا ہوگی جبکہ حزب اختلاف کو بھی اب چاہئے کہ جمہوریت کے تسلسل،مستقبل،استحکام اور بقا کے لئے باقی ماندہ اڑھائی سال ایوان میں مثبت تنقید کرتے ہوئے استحکام پاکستان کے عمل میں حصہ لینا چاہئے۔

نا کہ وہی پرانی سیاست کو دہراتے ہوئے کہ اس حکومت کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دیں۔اگر غور کریں تو یہ عمل اس حکومت کے ہیں بلکہ فلاح ِ پاکستان اور استحکام پاکستان کی نفی ہے۔دنیا میں وہ تمام ممالک جہاں جمہوریت یا جمہوری طرزِ حکومت کی حکمرانی ہے وہاں کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئے گا کہ ایک شخص یا جماعت کی حکومت جانے سے اداروں ،سیاست یا پالیسیوں کے تسلسل میں کوئی فرق پڑا ہو۔

(جاری ہے)

ان ممالک میں ادارے،نظام،سیاست،سسٹم ویسے کا ویسے ہی چلتا رہتا ہے جیسے کہ سابقہ حکومت چھوڑ کر جاتی ہے۔کیونکہ ان کا ماننا یہ ہوتا ہے کہ سیاسی رخنہ اندازیاں ملکی ترقی و سالمیت کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہونی چاہئے۔اسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے ممالک میں حکومت کسی بھی پارٹی کی آجائے ان کی پہلی ترجیح ملکی سالمیت و بقا ہوتی ہے نا کہ سیاسی جماعت اور شخصیات کی بقا۔

یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کچھ ملک ایسے بھی ہیں جو ہمارے بعد آزاد ہوئے ہیں۔یا ہمارے بعد انہوں نے اپنی معاشی منصوبہ بندیاں شروع کی اور آج ان کا معاشی گراف اور معاشی خوش حالی کہیں اوپر ہے۔لوگوں کا طرز زندگی اور فی کس آمدنی بھی ملک پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔اس ترقی و خوش حالی کی سب سے بڑی وجہ سیاسی استحکام ہے،جو کہ افسوس مجھے پچاس برسوں میں پاکستان مین دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔

اگر استحکام اور معاشی خوش حالی نظر آئی تو وہ ان سیاستدانوں کی زندگیوں میں۔بے چاری عوام تو دال چاول اور گھی کے نرخ سے باہر نہ آسکے۔
اب جبکہ وزیر اعظم صاحب نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے اور پہلے سے زیادہ اکثریت نے یہ ثابت بھی کردیا ہے کہ ان پر واقعی عوام کو اعتماد حاصل ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم اب پہلے سے زیادہ عوامی توقعات پر بھی پورا اتر پائیں گے؟کیونکہ سیاست تو خدمت کا نام ہے۔

اور خدمت سے مراد عوام کی فلاح و بہبود ہے۔اگر خان صاحب کی اڑھائی سالہ حکومت یا اقتدار کا جائزہ لیا جائے توعوامی فلاح و بہبود اور معیاری طرز زندگی کی فراہمی میں تو ناکام ہی رہے ہیں ۔اس لئے کہ ایک حکومت کا سب سے پہلا کام ہی یہ ہوتا ہے خاص کر فلاحی ریاست کا کہ وہ عوام کو بھوکا نہ سونے دے۔جیسے کہ مدینہ کی ریاست کے ایک خلیفہ حضرت عمر  کا بیان ہے کہ ”دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاس سے مرگیا تو عمر اس کا ذمہ دار ہے“۔


گویا اب پاکستان کے وزیر اعظم،جن کا خواب اور خیال ہے کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنائیں گے(ان شااللہ)تو ان پرذمہ داریاں اب پہلے سے بھی زیادہ آن پہنچی ہیں۔کیونکہ پاکستان کا تو سب سے بڑا مسئلہ ہی بھوک ہے۔اگرچہ اس مسئلہ کے حل کے لئے پناہ گاہیں ،سہولت کارڈ،صحت کارڈ جیسی سہولیات بہم پہنچائی جا رہی ہیں لیکن کیا ہے کہ اگر واقعی خان صاحب چاہتے ہیں کہ پاکستان مدینہ کی ریاست جیسی ریاست بن جائے تو پھر انہیں اپمی عوام کو ہاتھ پھیلانے والا نہیں بلکہ کمانے والا بنانا چاہئے۔

بالکل ویسے ہی جیسے کہ ایک بار آقا ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے اپنی غربت اور کسمپرسی کا اظہار فرما کر امداد کی درخواست کی۔جس کے جواب میں دو جہانوں کے آقا ﷺ نے اس صحابی سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو اس نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میرے پاس ایک کلہاڑی ہے اور وہ بھی دستہ کے بغیر،تو آنحضور ﷺ نے اپنے دست مبارک سے ایک لکڑی سے اس کلہاڑی کے لئے دستہ بنا کر،کلہاڑی تیار کر کے اسے نصیحت کی کہ اب تم جنگل میں جاؤ،لکڑیاں کاٹو اور اسے فروخت کر کے اپنا گزر بسر کرو۔

وہ شخص دربار رسالت ﷺ سے رخصت ہوگیا،چند ماہ بعد وہ شخص دوبارہ بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یارسول اللہ ﷺ آپ کے بتائے ہوئے راستہ پہ چل کر آج میں اس قابل ہو گیا ہوں کہ آج میرے پاس اتنی رقم ہے کہ میں کسی غریب کی امداد کر سکتا ہوں۔یہ عمل چائنہ کے لوگوں تک نہ جانے کیسے پہنچ گیا کہ اب چائنہ میں بھی ایسی ہی ایک کہاوت ہے کہ
”ہم لوگوں کو مچھلی نہیں دیتے بلکہ مچھلی پکڑنے کے لئے کانٹا دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی مچھلیاں پکڑ کر زندگی گزارے“
وزیر اعظم صاحب اگر واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستان کو ریاست مدینہ جیسا بنایا جائے تو لوگوں کے ذریعہ معاش کی فکر کریں،ان کی مدد اس طرح سے کریں کہ وہ اپنی مدد آپ کے قابل ہو جائیں۔

انہیں اس قابل کریں کہ وہ اپنا کاروبار یا کام کر سکیں ناکہ لائنوں میں کھڑے ہوکر روٹی کے حصول کے لئے اپنی عزت نفس تک مجروح کر لیں۔اور ونسٹن چرچل کی بات سچ ہو جائے کہ جب انہیں پتہ چلا کہ برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے،تو انہوں نے کہا کہ یہ ملک روٹی کے ایک نوالہ کے لئے آپس میں لڑیں گے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ غریب مزید غریب ہوتا جائے اور حقیقتا وہ روٹی کے ایک نوالہ اور پانی کے ایک گھونٹ کے لئے دست بستہ ہو جائیں۔


لہذا خان صاحب جن لوگوں نے آپ پر اعتماد کیا ہے بھلے وہ عامر لیاقت ہی کیوں نہ ہو،ان کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائیے گا۔بلکہ قدرت کی طرف سے ایک اور موقع سمجھتے ہوئے پہلے سے زیادہ شدت جذبات کے ساتھ عوام کی خدمت اور فلاح کے لئے عملی اقدامات کیجئے گا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ
دنیا فریب دے کر ہنر مند ہو گئی
ہم اعتبار کر کے گنہگار ہو گئے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :