حامد میر سے شجاعت بخاری تک

منگل 19 جون 2018

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

اپریل 2014 میں معروف صحافی حامد میر پر کراچی میں نامعلوم بندوق برداروں نے حملہ کیا جس میں انہیں چھ گولیاں لگیں اور وہ شدید زخمی ہوگئے۔ واقعہ کے چند روز بعد جب میں میر صاحب کو کراچی کے آغا خان ہسپتال دیکھنے گیا تو وہ شیر جسکے کام کی رفتار 100 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی بے بسی کے عالم میں بستر پر پڑا تھا، پورے جسم پر پٹیاں لگی تھیں، میرے ہمراہ کیپٹل ٹاک کی ٹیم کے دیگر ساتھی بھی تھے۔

میر صاحب نے جونہی ہمیں دیکھا تو وہ مسکرائے۔ اُنکی حالت دیکھ کر میں جذبات پر قابو نہ رکھ پایا اور چیخ کر روپڑا۔میری حالت غیر ہوگئی۔ حامد میر صاحب کی اہلیہ جنہیں میں بھاجی کہتا ہوں، نے اپنے آنسو پونجتے ہوئے مجھے کمرے کی دوسری طرف صوفے پر بٹھاکر پانی پلایا اور دلاسہ دیا۔

(جاری ہے)

حامد میر صاحب نے مجھے آواز دی دیکھو میں تو مسکرا رہا ہوں، تم کیوں رورہے ہو، میں نے ہمت نہیں چھوڑی تم کیوں چھوڑ رہے ہو؟
حقیقت یہ ہےاگر انسان سچا ہو،حق پر کھڑا ہو وہ ہر حال میں مسکراتا ہے، سچائی، بے باکی، صاف گوئی اس کو بہادر اور نڈر بناتی ہے وہ ہر صورتحال اور اونچ نیچ میں اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجاتا ہے، وہ زخمی حالت میں بھی مسکراتا ہے، وہ زخموں کی تاب نہ لا کر مرکر بھی مسکراتا ہے۔

اُسکی مسکراہٹ اُس کے دشمنوں کیلئے پیغام ہوتی ہے کہ دیکھو میں کامیاب ہوں تم ناکام ہو، میں جرات مند اور بہادر ہوں تم بزدل اور کمزور ہو، میرااللہ مجھ سے راضی ہے تم سے نہ صرف اللہ بلکہ دنیا کے لوگ بھی ناراض ہیں۔ اسی لیے حامد میر زخمی حالت میں بھی مسکرارہے تھے اورسید شجاعت بخاری مرنے کے بعد بھی مسکراتے رہے۔ مرنے کے بعد بننے والی تصاویر میں بھی شجاعت بخاری کے چہرے پر تبسم بالکل عیاں تھی، یوں لگ رہا تھا جیسا کوئی دوست شرارت سے آنکھیں بند کرکے تاثردے رہا ہو کہ وہ سورہا ہے۔


2015 میں سید شجاعت بخاری کی قیادت میں مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے 12 صحافی 19 سے 24 اگست تک پاکستان کے دورے پر رہے۔ حامد میر صاحب نے مجھے 20 اگست کو کہا کہ ہم شجاعت بخاری اور افتخار گیلانی کو پروگرام کیپٹل ٹاک میں مدعو کریں گے۔ میں شام سات بجے کے قریب انہیں پِک کرنے اسلام آ باد کلب روڑ پر واقعہ ایک ہوٹل پہنچا، یہ میری دونوں حضرات سے پہلی ملاقات تھی۔

چونکہ ایک علاقہ، ایک زبان، ایک تہذیب ہونے کی وجہ سے ہم چند لمحات میں شیروشکرہو گئے اوربے تکلفانہ گفتگو کرتے رہے۔ اس طرح میں انہیں جیو آفس لیکر آیا۔ اسٹوڈیو میں شجاعت بخاری اور افتخار گیلانی کے علاوہ ن لیگ کے لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم بھی تھے جبکہ نامور بھارتی خاتون صحافی جیوتی ملہوترا نئی دہلی اور حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق سرینگر سے ٹیلی فون لائن پر تھے۔

اس پروگرام میں بھی شجاعت بخاری نے کشمیر میں ہونے والے مظالم اور کشمیریوں کے قتل عام پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے موثر اور سنجیدہ بات چیت پر زور دیا۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد میں انہیں رات سوا نو بجے پھر ہوٹل ڈراپ کرنے گیا۔ گاڑی میں ہم تنیوں پھر کھل کر گھپ شپ کرتے رہے۔ شجاعت بخاری نے مجھے کہا میں آپ سے تین سوال کروں گا امید ہے آپ مجھے کُھل کر جواب دیں گے۔

انہوں نے ایک ہی سانس میں مجھ سے تین سوالات کیے۔ میں نے تینوں سوالات کا جواب اِس شعر سے دیا:
یہ دستورزباں بندی کیسا ہے تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
پھر انہوں نے مجھ سےاستفسار کیا کہ آپ کشمیر پر کتاب کیوں نہیں لکھتے؟چونکہ آپ نے مقبوضہ کشمیر میں بچپن گزارا، بھارت کے خلاف کم عمری میں بندوق اٹھائی اور اب صحافتی میدان میں فرائض انجام دے رہے ہیں اِس لئے آپ کی کتاب کافی انفارمیٹو ہوگی" میں بیوقوف نہیں ہوں اِن حالات میں کتاب لکھوں" میں نے مذاق میں کہا۔

کیا مطلب آپ کا، کیا کتاب لکھنا بیوقوفی ہے؟ وہ ایک دم بولے؟ میں نے کہا شجاعت صاحب جب میں کتاب لکھوں گا تو سچ لکھوں گا، سچ لکھوں گا تو بہت سارے لوگ دشمن بن جائیں گے تو کسی کی گولی کا نشانہ بنوں گا، لہذا میں کتاب ضرور لکھوں گا لیکن بڑھاپے میں لکھوں گا تاکہ مارا بھی جاوں تو جوانی گزار کے مارا جاوں۔ اُن دونوں حضرات نے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے قہقہ لگایا اور کہا بالکل درست کہا، سچ بولنا اور سچ لکھنا بہت مشکل ہے۔


شجاعت بخاری صرف ایک اخبار کے سربراہ نہیں تھے۔ بلکہ وہ انگریزی روزنامہ رائزنگ کشمیر، اردو روزنامہ بلند کشمیر، کشمیری زبان کا ہفتہ روزہ سنگرمال اور اردو ہفتہ روزہ کشمیر پرچم کے ایڈیٹر اِن چیف (مدیر اعلیٰ) تھے۔ شجاعت سرینگر میں قدیم ترین اور اعلیٰ کلچرل اور لٹرری تنظیم ادبی مرکز کے صدربھی تھے۔ وہ سرینگر ہائی کورٹ بار سے بھی وابستہ تھے۔


شجاعت بخاری نے ایشین سینٹر فار جرنلزم سنگاپور میں فیلوکی حیثیت سے منیلا فلپائن کی ایک یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی اپنے نام کردی۔ وہ ایسٹ ویسٹ سینٹر ہوائی امریکہ کے فیلو بھی تھے۔ انہوں نے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور کمشیر کے منصفانہ اور پائیدار حل کیلئے حوصلہ افزا کام کیا۔


شجاعت بخاری پر حملہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ وہ اِس سے قبل تین مرتبہ حملوں میں بچ گئے تھے اِس لیے 2000ء سے انہیں پولیس کی حفاظت حاصل تھی۔ 1996 میں عسکری تنظیم اخوان جس کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی کے بندوق برداروں نے اسلام آباد اننت ناگ میں 19 صحافیوں کو اغوا کیا تو شجاعت بخاری بھی مغویوں میں شامل تھے۔ 2006 میں دو مسلح افراد نے شجاعت بخاری کو اغوا کیا۔

کافی دور لے جا کر جب انہوں نے شجاعت کو گولی مارنے کیلئے کلاشنکوف کو کاک کیا تو بندوق جام ہوگئی اور شجاعت بخاری جو نہ صرف چست بلکہ دراز قد رکھنے والے انسان تھے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔
شجاعت بخاری کا تعلق وادی کشمیر کے شمالی ضلع بارہ مولہ کے کریری علاقے سے تھا اور ایک نہایت پڑھے لکھے، معروف اوردیندارسید قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔

شجاعت بخاری کے بھائی بشارت بخاری سیاسی تنظیم پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ایم ایل اے اور موجودہ حکومت میں محکمہ ہاٹی کلچرکے وزیرہیں۔
14 جون 2018، انتیس رمضان المبارک کو شام سات بجے شجاعت نے گھر فون کر کے اپنی اہلیہ سے کہا میں افطاری گھرپر ہی کروں گا، کچھ لانا تو نہیں؟ اہلیہ نے جواب دیا خود ہی خیریت سے آو سب کچھ گھر میں موجود ہے۔

وہ سرینگر کے لال چوک میں واقعہ پریس کالونی میں قائم اپنے آفس سے نکل کر گاڑی میں سوار ہوئے تو موٹر سائیکل پر سوار تین مسلح افراد میں سے دو نے انکی گاڑی پر قریب سے اندھادھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں شجاعت اور ان کا ایک سیکورٹی اہلکار موقع پر ہی شہید جبکہ دوسرے سیکورٹی اہلکار نے ہسپتال میں دم توڑ دیا۔ شجاعت کے جسم پر ایک نہیں دو نہیں بلکہ سولہ گولیوں کے زخموں کے نشانات تھے۔

شجاعت کے ایک کزن 1991 میں بھارتی فوج اور مجاہدین کے درمیان فائرنگ میں اُس وقت شہید ہوگئے جب وہ آفس سے گھر واپس آرہے تھے۔ شجاعت نے پسماندگان میں والدین، اہلیہ اور دو بچوں (بیٹا اور بیٹی) کو چھوڑا جو کم سن ہیں۔
شجاعت ہمیشہ کہتے تھے کشمیر میں کوئی پتہ نہیں چلتا دوست کون اور دشمن کون ہے، یہاں قاتل کا سراغ بھی نہیں لگتا اور نامعلوم قاتل ہمیشہ نامعلوم ہی رہتا ہے۔

شجاعت نے کسی بھی مرحلے پر سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، انہوں نے سچ کو اپنا دوست بنایا تھا اور سچ بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ وہ سچ کو اپنا شعاراور فریضہ سمجھ کر کُھل کر بولتے تھے چاہیئے ان سے کوئی راضی ہو یا ناراض۔
شہادت سے کچھ گھنٹے قبل انہوں نے اقوام متحدہ کی کشمیر کے بارے میں رپورٹ بھی ٹویٹر کے ذریعے اپ لوڈ کردی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ حق خود ارادیت ہر کسی کا بنیادی حق ہے اور کشمیری عوام پر مظالم کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔

اس پر صحافی برادری سمیت بھارت کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ شجات بخاری نے اپنے سب نقاد کو اپنی آخری ٹویٹ میں پیغام دیا " ہم نے کشمیر میں بڑے فخر سے صحافت کی اور مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو مسلسل منظر عام پر لاتے رہیں گے"۔ شجاعت نے یہ ٹویٹ اپ لوڈ کردیا اور خود ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے۔

شجاعت ریزننگ اور لاجک کی ایک مؤثر آواز تھے، وہ مدلل طریقے سے اپنی آواز کے ذریعے کشمیر کاز کوجہاد سمجھ کر اجاگر کرتے رہے۔
سچے انسان کو زخمی کیا جاسکتا ہے، اس کو گولیاں مارکر قتل کیا جاسکتا ہے لیکن اُس کو ہرایا نہیں جاسکتا۔ سچا انسان حامد میر کی طرح چھ گولیاں کھاکر بھی مسکراتا ہے اور شجاعت بخاری کی طرح مرنے کے بعد بھی مسکراتا ہے اور بزدل گولیاں مارکر فرار ہوجاتا اور ہمیشہ نامعلوم رہتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :