شہید پاکستانی

جمعہ 22 مارچ 2019

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

اریب ہمارا واحد کفیل تھا، اریب کے والد دل ، شوگر اور بلڈ پریشر کے عارضوں میں مبتلا ہیں، کرایے کے مکان میں رہ رہے ہیں،اریب چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے، فروری میں نیوزی لینڈ کی ایک کمپنی سے نوکری کی پیشکش ہوئی تو والدہ سے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا ،ممامیں جانا چاہتا ہوں، اچھی جاب ہے، ابو کا علاج، چھوٹی بہن کی شادی بھی تو کرنی ہے ، پیسے کہاں سے آئیں گے، لہذا اگر اجازت دیں تو میں اِس جاب کیلئے نیوزی لینڈ جاؤں ۔

والدہ نے اریب کو ہنسی خوشی جانے کی اجازت دے دی۔ یہ الفاظ نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر اسٹریلوی دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کی فائرنگ میں شہید ہونے والے 9پاکستانیوں میں سے ایک، شہید اریب کی والدہ تنظیم بی بی کے ہیں۔ ایک دکھی ماں کے یہ الفاظ سنتے ہوئے میری آنکھیں اشکبار ہوئیں اور میرے دل کو چیرتے ہوئے میری اندر کی دنیا میں ایک طوفان بپا کردیا،اب ان کے یہ الفاظ رقم کرتے وقت بھی آنکھیں بھیگی اور دل اداسی کے سیاہ سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

اریب کے بہت سارے خواب تھے جنکی تعبیر کیلئے وہ اپنا گھربار ، بوڑھے والدین اوروطن چھوڑ کر پردیس میں نوکری کرنے گیا تھا۔ والد کا اچھے ہسپتال میں علاج کرانا، چھوٹی بہن کی شادی ، کرایے کے مکان سے چھٹکارا پا کر گھر تعمیر کرنا۔۔۔، نہ جانے اور کون سے خواب اریب کے دل میں تھے جو دہشت گردی کے اندوہناک واقعہ میں چکنا چور ہوگئے اور اریب کے ساتھ ہی دفن ہوکر خاک میں مل گئے۔

اریب کی والدہ کا گلوگیر آواز میں کہنا تھا، اریب نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے مسجد گیے، فائرنگ ہوئی تو ایک گولی اریب کی ٹانگ پر لگی، وہ بھاگے نہیں بلکہ ایک معصوم بچی کو بچانے کیلئے اس کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے۔ بے رحم دہشت گرد نے چار گولیاں اریب کے سینے میں پیوست کردیں۔ اریب شہید ہوگیا ، شہید مرتا نہیں زندہ رہتا ہے۔ لیکن شہید اریب کے والدین اور چھوٹی بہن کے زخموں کا مرحم مشکل نہیں ناممکن ہے۔

شہید اریب کی چھوٹی بہن کی منگنی ہوچکی ہے اب اریب کے دورہ پاکستان پر اسکی شادی ہونی تھی۔
نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں دہشت گردی کے واقعہ میں شہید ہونے والے پاکستانیوں میں سے جس کی بھی سٹوری سنی جائے تو آنکھیں پرنم ہوجاتی ہیں۔ اسلام آباد کا رہائشی شہید ہارون محمود پی ایچ ڈی کرنے نیوزی لینڈ گیا، چند روز قبل ہی ڈگری مکمل کرلی۔ ڈاکٹر ہارون محمود کی اہلیہ ڈاکٹر کرن محمودذہنی کرب میں مبتلا ہے ، انکے دو بچے تیرہ سالہ احمد اور گیارہ سالہ عزا کیلئے یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ انکے پاپا اب شام کو ان کے ساتھ واک کرنے نہیں جایا کریں گے ۔


لاہور کے ڈاکٹر نعیم رشید اور ان کے اکیس سالہ بیٹے طلحہ دونوں نے دوسروں کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے حوالے کردی۔ ایثار کا ایسا جذبہ جسکی دنیا میں بہت کم مثال ملتی ہے کو ڈاکٹر نعیم اور ان کے فرزندنے عملی جامہ پہنایا۔ ڈاکٹر نعیم رشید جو نیوزی لینڈ میں ہی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ٹیچنگ کرتے تھے، نے نمازیوں پر فائرنگ کرنے والے دہشت گرد سے بندوق چھیننے کی کوشش کی لیکن دہشت گرد قابو نہ آیا اور کئی گولیاں کھاکر جام شہادت نوش کیا۔

ان کا بہادر بیٹا جو اسی مسجد میں نماز ادا کررہا تھا کو ایک گولی لگی جس کے بعد وہ ایک بچے کے اوپر گرا، بچے کو انگریزی میں کہا چپ ہوجاؤ ورنہ تمہیں بھی گولی لگے گی۔ طلحہ اِس بچے کے اوپر لیٹا رہا اور ساری گولیاں اپنے جسم پر لیں اور اپنی جان اﷲ کے سپرد کردی۔
شہید سہیل شاہد ، پیشے کے اعتبار سے کمیکل انجینئر ، 2017میں نیوزی لینڈ گئے۔ والدہ ہمیشہ نماز جمعہ نہ چھوڑنے کی تاکید کیا کرتی تھیں اور ہر بار پوچھتی بھی تھیں جمعہ کی نماز اد کی یا نہیں۔

سہیل 15مارچ کو جمعہ کی نماز کیلئے اپنے دوست کے ساتھ مسجد پہنچے، نمازکا وقت بالکل قریب تھا۔ سہیل وضو کرتے ہی صف میں کھڑے ہوگئے اور ساتھ ہی دہشت گرد نے فائرنگ کردی اور سہیل بھی دہشت گرد کی بندوق سے نکلنے والی گولیوں کا نشانہ بنے۔ سہیل کا دوست وضو ہی کررہا تھا لہذا وہ بچ گیا۔ سہیل نے چونکہ بہت تیزی سے وضو کیا کیونکہ والدہ کو بتانا تھا مما میں میں نے نماز جمعہ ادا کردی۔

شائد اس بار سہیل نے ہمیشہ کیلئے اﷲ تعالیٰ کے پاس پہنچنا تھا اور وہ باضونماز کے دوران اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون
دہشت گردی کے اِس سانحہ میں شہید ہونے والے پاکستانیوں نے اپنے وطن کا نام روشن کیا، پیٹھ پر نہیں بلکہ سینوں پر گولیاں کھانے کو ترجیح دی اور دوسرے لوگوں کی جانیں بچاتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :