عورت مارچ محض ایک تماشا؟

پیر 9 مارچ 2020

Nabya Shahid

نبیہ شاہد

ایک دن قبل خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے خواتین کے حقوق پر ہونے والا عورت مارچ، اس سے جڑے نعرے اور اس مارچ پر ہونے والی تنقید گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان میں زیر بحث ہے۔۔سوشل میڈیا اور ٹی وی سکرینز سے شروع ہونے والی۔بحث اب اقتدار کے ایوانوں تک جا پہنچی ہے سیاسی ر ہنما اپنی رائے کا ا ظہار کر رہے ہیں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے خواتین کے حقوق اور عورت مارچ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تو مولانا فضل الرحمان نے دوٹوک مخالفت کی۔

۔
ہرکسی کو اپنی رائے دینے کی آزادی ہے لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس بحث میں عورت مارچ کے مخالفین اب تک ایک محدود سوچ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس مارچ کے مقاصد کو تنگ نظری سے دیکھ رہے ہیں چند نعروں میں اپنی سوچ کے مطابق فحاشی ڈھونڈ رہے ہیں جو نا صرف میرا جسم میری مرضی جیسے نعروں کے پیچھے چھپے۔

(جاری ہے)

۔خواتین کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا رہے ہیں بلکہ پاکستان میں خواتین کو درپیش ایک بہت بڑے چیلنج سے نمٹنے میں رکاوٹ بننے والی ذہنیت کی عکاسی بھی کر رہے ہیں۔

۔آپ کو میرا جسم میری مرضی سے جو بھی اختلاف ہو آپ اس کا جو بھی مطلب نکالیں آپ اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے کہ آج بھی خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایسے واقعات میں سے ایک بڑا حصہ درس و تدریس جیسے مقدس پیشے سے جڑاہے۔
وہی مولانا فضل الرحمان ہیں جو عورت مارچ پر تو کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔

لیکن حال ہی میں گومل یونیورسٹی میں منظر عام پر آنے والے سکینڈل پرتاحال خاموش ہیں جس میں اسلامک ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کی جانب سے طالبات کو نوکری اور نمبروں کا جھانسہ دے کر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے انکشافات سامنے آئے تھے اور اب تک۔ان سمیت یونیورسٹی کے کئی اورلوگ نوکری سے نکالنے جا چکے ہیں۔۔
یہ واقعہ انوکھا نہیں بلوچستان یونیورسٹی میں حال ہی میں ایک منظم انداز میں طالبات کی خفیہ ویڈیوز بنانے والے گروہ کا انکشاف بھی ہوا اور اس سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایسے واقعات کی شکایات سامنے آنے پر سب سے پہلے کوشش کی جاتی ہے کہ معاملہ دبا دیا جائے۔

بلوچستان یونیورسٹی کے واقعے میں وی سی۔اس وقت تک مستعفی نہیں ہوئے جب تک عدالت نے نوٹس نہیں لیا لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ تمام تر تنقید اور بحث کے باوجود۔۔اب تک کسی ملزم کے خلاف کارروائی تو دور کی بات۔۔ملزمان کی نشان دہی تک نہیں کی جا سکی جب کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جنسی ہراسانی کی شکایات درست تھیں۔۔
یہ معاملہ صرف ایک یا دو یونیورسٹیز تک محدود نہیں دختر فاونڈیشن کے اعدادوشمار کے مطابق اس ایک ادارے کو ملک بھر کے تعلیمی اداروں سے۔

ہراسانی کی بیس ہزار سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں جن میں سے سولہ ہزار سے زیادہ شکایات اساتذہ کے خلاف تھیں اور یہ بات بھی اہم ہے کہ ان اساتذہ میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کو ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے بنائی جانے والی کمیٹیوں کا حصہ بنایا گیا تھا۔شاید یہی وجہہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بار بار یونیورسٹیزکو اس معاملے پر کاروائی کرنے کی یاد دہانی کے باوجود اب تک دو سو دس یونیورسٹیز میں سے صرف پچاسی کی جانب سے ایچ ای سی کی ہدایات پر عمل در آمد کیا گیا ہے۔

۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ملک بھر کی یونیورسٹیز میں جنسی ہراسانی کے بڑھتے واقعات کے خلاف۔گزشتہ چار ماہ میں کیی اجلاس ہوئے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔
ہر آئے دن ایک نیا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ جس معاشرے میں قبر کے مردوں کو اپنی ہوس کا شکار بنا لیا جاتا ۔کیا اس معاشرہ میں جوان لڑکی محفوظ ہے؟ہمارے ملک میں مردوں کا ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جو عورت کی خوبی، عورت کی طاقت، عورت کی بہادری، عورت کی کامیابی دیکھنے سے بلکل قاصر ہے۔

ہمارے معاشرے میں جب کسی کی توہین کرنی ہو تو اس کو عورت کہہ دیا جاتا ہے۔"لڑکیوں کو طرح نہ رو"لڑکیوں کی طرح ڈرامے نہ کرو اور مردوں کی طرح بات کرو"ہمارے معاشرے میں کسی کی تذلیل کرنے کے لیے عورت کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے۔جب عورت کمزور اور بزدل ثابت نہیں ہوتیں تو تنقید کے نشتر برسائے جاتے ہیں۔پاکستان میں روزانہ دس بچے ہوس کا شکار بنتے ہیں۔

ساٹھ فیصد عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور پندرہ ہزار دو سو بایس عزت کے نام پرقتل کردی جاتی ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟
ہمارے ملک میں عورت مارچ میں چند غلط پلے کارڈز کے خلاف محاذ توکھڑا کردیا جاتا ہے مگر بہادری کے بھی بہت قصے مشہور ہیں جیسے پنڈی میں دس سالا بچی کے ساتھ زیادتی اسی کے والد صاحب نے کی، فیصل آبادمیں پندرہ سال کی بچی پر تشدد۔ کوئٹہ میں تیرا سال کی بچی کو ہوس کاشکار انہی کے چچا نے بنا ڈالا۔آیسے واقعات سن کر کوئی کیسے خاموش بیٹھ جائے؟ ایک مرد کو جنم دینے والی عورت مرد کو باپ کا درجہ دینے والی عورت اسی طرح عورت کی عزت کا محافظ مرد ہے یہ عورت مارچ ان تمام لوگوں سے جنگ ہے جنہوں نے عورت کو ایک کھلونا سمجھا ہوا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :