حکومتی بیانیہ کہاں گیا؟

بدھ 26 فروری 2020

Nabya Shahid

نبیہ شاہد

اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کیلئے کل ایک بڑے ریلیف کا دن رہا۔
ن لیگ کےرہنما شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی اہم کیسس میں ضمانتیں منظور ہوگئی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو گزشتہ برس اٹھارہ جولائی کو نیب نے اس وقت اچانک گرفتار کیا جب وہ اسلام آباد سے لاہورپہنچے ۔۔اور اب وہ تقریبا سات ماہ بعد رہا ہوں گے ۔

۔
ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایل این جی کی درآمد اور تقسیم کا 220 ارب روپے کا ٹھیکہ دیا جس میں وہ خود حصہ دار تھے ۔۔
اسی طرح پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال گزشتہ برس انیس دسمبر کو اس وقت گرفتار ہوئے جب وہ راولپنڈی نیب میں بیان ریکارڈ کرانے پہنچنے اور اب تقریبا دوماہ بعد رہا ہوں گے ۔۔
ان پر نارووال میں اسپورٹس سٹی تعمیر کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے ۔

(جاری ہے)

۔۔
ان دونوں رہنماوں کے مقدمات سے متعلق کل اسلام آباد ہائیکورٹ کی سماعت انتہائی سنسنی خیز رہی ۔شاہد خاقان عباسی کو سات ماہ اور احسن اقبال کو دو ماہ قید رکھنے کے باوجود نیب تاحال نہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرسکا اور نہ ہی ان رہنماوں کو مزید گرفتار رکھنے کیلئے عدالت کو مطمئن کرسکا ۔۔۔
سماعت کے آغاز پر نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ کا کہنا تھا کہ نیب کسی شخص کو گرفتار کر کے اس پر ٹارچر نہیں کرسکتا ۔

ٹارچر سے عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔۔
جواب میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جب کوئی گرفتار ہوتا ہے اس کی عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے۔۔ گرفتاری معاشرے میں کلنک کا ٹیکا ہوتی ہے۔۔۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ نے صغریٰ بی بی کیس میں کہا ہے کہ شواہد کے بغیر گرفتاری نہیں کرنی، بہت سے کیسز میں نیب ملزمان کو گرفتار نہیں کرتی،آپ کی پالیسی کیا ہے کس کو گرفتار کرنا ہے کس کو نہیں کرنا۔


چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ بہت سے مقدمات میں نیب گرفتار کیے بغیر ریفرنس دائر کرتا ہے، کئی لوگوں کیخلاف ریفرنس آتے ہیں لیکن نیب انہیں گرفتار نہیں کرتا ۔۔
ایک شخص انکوائری میں پیش ہو ۔۔سوالات کے جواب بھی دے رہا ہے تو گرفتار کیوں کیا ؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کو ان سوالات پر ہمیں مطمئن کرنا ہوگا
جواب میں نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ کسی کے قابل گرفت جرم سے متعلق ٹھوس شواہد موجود ہوں تو گرفتاری ہو سکتی ہے ۔

۔۔ٹھوس معلومات اور کسی کے مشکوک ہونے پر بھی گرفتاری کی قانون اجازت   دیتا ہے۔ ضابطہ فوجداری اور نیب آرڈیننس دونوں ہی میں گرفتاری کی یہ گنجائش موجود ہے۔۔۔۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کو ابھی تک بے قصور تصور کر سکتے ہیں؟
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ جب تک کسی پر جرم ثابت نہیں ہوتا اسے بے قصور ہی تصور کیا جاتا ہے۔

۔۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شاہد خاقان اور احسن اقبال عوامی نمائندگی کیلئے نااہل نہیں ہوئے اورجرم ثابت کئے بغیر دونوں کو قید رکھنا حلقے کے ووٹرز کو نمائندگی سے محروم رکھنا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایسی کیا وجوہات تھیں جن پر گرفتاری ضروری تھی ؟ نیب آرڈیننس کی بات ہوگی تو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 54 لاگو نہیں ہو گی۔۔
اس پر پراسیکیوٹرجنرل نیب نے کہا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 54 میں پولیس افسر کو گرفتاری کے اختیارات دیے گئے، نیب آرڈینینس کی دفعہ 5 میں ملزم کی تعریف کی گئی ۔


چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کسی کے فرار ہونے کا خدشہ تھا کہ گرفتار کیا گیا ۔۔؟
جواب میں نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمیں خدشہ تھا احسن اقبال فرار بھی ہوجائیں گے اور ریکارڈ ٹمپرنگ بھی کریں گے۔۔۔
پراسیکیوٹرجنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تفتیشی افسر کیس کو انوسٹی گیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو گرفتاری کی ضرورت نہیں رہتی، نیب اس آئینی عدالت کو مطمئن کرے کہ تفتیشی افسر گرفتاری کے بعد تفتیش کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟
عدالت نے استفسار کیا کہ یہ ثابت کردیں کہ نیب ملزم کی گرفتاری کے بغیر کیوں تفتیش مکمل نہیں کرسکتا؟ نیب گرفتاری کے بعد پلی بارگین کی درخواست کیوں منظور کرتی ہے؟ کسی بھی ملزم کو دوسرے ملزمان کے خلاف وعدہ معاف گواہ کیوں بنایا جاتا ہے؟
 جس پر جواب دیا کہ پلی بارگین رقم کی رضاکارانہ واپسی سے متعلق ہے۔


تاہم اسی دوران احسن اقبال کے وکیل نے کہا کہ نیب گرفتار کرتا ہے، پلی بارگین کیلئے دس کروڑ روپے مانگتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے، بظاہر نیب اغوا برائے تاوان کیلئے اٹھاتا ہے اور پلی بارگین کے بعد چھوڑ دیتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پلی بارگین دنیا بھر میں ہے، ملک میں جو کرپشن ہے وہ تو ہے، نیب کا احتساب ہوگا جب شہریوں کا ادارے پر اعتماد ہوگا۔


انہوں نے مزید کہا کہ نیب عدالت نہیں، صرف تحقیقاتی ادارہ ہے،جو شواہد پر عدالت میں پروسیکیوٹ کرسکتا ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ گرفتاری کی ٹھوس وجوہات عدالت کو بتا کر ہی ریمانڈ لیا جاتا ہے۔۔گرفتاری کی وجوہات دیکھ کر ریمانڈ دینا نہ دینا عدالت کا اختیار ہوتا ہے۔۔۔
جبکہ نیب ریفرنس میں تمام شواہد عدالت میں پیش کئے جاتے ہیں،۔

۔۔شاہد خاقان کیخلاف ریفرنس بھی دائر ہوچکا ہے ۔۔۔
چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ نیب ریفرنس تو ایک قسم کا چالان ہی ہوتا ہے ، اور نیب انکوائری ایک ایف آئی آر۔۔
نیب پراسیکیوٹر نے وضاحت میں کہا کہ ایسا نہیں ہے، نیب ریفرنس اور چالان میں فرق ہے، نیب ریفرنس میں چالان کے علاوہ مکمل حساب ہوتا ہے کہ ملزم نے کتنا نقصان پہنچایا۔۔۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات تو طے ہے کہ آپ کسی کو غیر ضروری طور پر گرفتار نہیں کر سکتے، غیر ضروری گرفتاری اختیارات کا غلط استعمال ہے۔

۔۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ پہلے احسن اقبال کا بتائیں ان پر الزام کیا ہے؟
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ احسن اقبال نے نارووال اسپورٹس سٹی پراجیکٹ کیلئے اختیار کا غلط استعمال کیا ،سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی سے منظوری بھی نہیں لی، سپورٹس سٹی کے ڈیزائن کنسلٹنٹ کو کہہ کر منصوبے کا سکوپ بھی بڑھایا ۔۔یہ منصوبہ حکومت پنجاب کا تھا جس کو احسن اقبال نے ہائی جیک کیا ۔

۔۔اور منصبوے پراپنے مقاصد کےلئے وفاقی فنڈز خرچ کئے ۔۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا نیب یہ کیس بنانا چاہتا ہے کہ گرفتاری کیلئے صرف کسی غلطی کا شبہ کافی ہے؟ بے ضابطگی یا غلطی کبھی کسی نیک نیتی کا نتیجہ بھی تو ہو سکتی ہے، نیب اس کو بدنیتی کا کیس کیسے ثابت کر سکتا ہے۔۔۔
جواب میں نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ احسن اقبال نے خود جا کر منصوبے کی جگہ کا تعین بھی کیا۔

۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا منصبوے کی جگہ کی نشاندہی کرنے والے کو گرفتار کر لیا جائے گا؟کیا پاکستان سپورٹس بورڈ یا حکومت پنجاب سے کسی کو پکڑا گیا ؟ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں غلطی کسی اور کی تھی ، گرفتار کسی اور کو کیا گیا؟
عدالت نے مزید پوچھا کہ نیب بتا دے کہ جب تفتیش بھی ہو چکی تواحسن اقبال کو جیل میں کیوں رکھنا چاہتا ہے؟
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ انکوائری کر رہے ہیں اس لئے ضمانت نہیں دی جا سکتی
عدالت نے پوچھا کہ صرف اس لئے آپ کسی کو اڈیالہ رکھنا چاہتے ہیں کہ آپ انکوائری مکمل کر لیں؟
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ باہر نکل کر احسن اقبال سارا ریکارڈ تباہ کر دیں گے۔

۔ احسن اقبال کیخلاف اثاثوں کی انکوائری بھی چل رہی ہے۔۔
عدالت نے کہا کہ یہ توآپ کے تفتشیی کیلئے بھی مسئلہ ہو گا کہ روز اڈیالہ جا ئے ۔۔آپ کو خدشہ ہے کہ وہ بھاگ جائیں گے تو نام ای سی ایل میں ڈالیں ۔۔۔تفتشیی افسر چاہے تو احسن اقبال کا پاسپورٹ بھی پاس رکھ سکتا ہے۔۔
نیب پراسیکیوٹر نے جواب میں کہا کہ احسن اقبال کے باہر نکلنے سے تو تفتیشی کو بھی خطرات ہوں گے۔

۔
عدالت نے آخر میں ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی شرط پر احسن اقبال کی ضمانت منظورکرلی ۔۔۔
جس کے بعد شاہد خاقان عباسی کی درخواست ضمانت پر سماعت کتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ ایل این جی کیس میں پیپرا رولز کا تو اطلاق ہی نہیں ہوتا، اس میں تو پبلک فنڈ کا استعمال ہی نہیں ہوا۔۔ گرانٹ استعمال ہوئی۔۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ جو ایڈوائزری فرم ہے اس کو بھی فنڈز یو ایس ایڈ کے ذریعے دیے گئے، اس ایڈوائزری فرم کو کس نے ہائر کیا تھا۔

۔۔
جواب میں تفتیشی افسر ملک زبیر نے کہا کہ میورک فرم کو ہائر کرنے کا کوئی نوٹیفکیشن موجود نہیں۔۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تفتیش ہی نہیں کی اور اس کو گرفتاری کا گراونڈ بنا رہے ہیں۔۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یو ایس ایڈ کی جانب سے میورک فرم کو فیس دی جاتی رہی تو اسے ہائر بھی یو ایس ایڈ نے کیا، جب یو ایس ایڈ نے ہائر کیا تو نوٹیفیکیشن آپ کے پاس کیوں ہو گا۔

۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ آگ سے کھیل رہے ہیں، اور ایک اورالزام پر تفتیش شروع کردی۔ کیا آپ نے کوئی تفتیش کی کہ ٹرمینل کا ٹھیکہ سستے داموں کسی کمپنی کے ساتھ ممکن تھا؟
تفتیشی افسر نے کہا کہ ایک گیس کمپنی کا خط موجود ہے جو سستے داموں آفر کر رہی تھی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اس کمپنی نے بولی میں حصہ لیا تھا ؟
 تفتیشی افسر نے کہا کہ اس کمپنی نے بولی میں حصہ نہیں لیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ نہ کریں آپ، جو کمپنی بولی میں شامل نہیں ہوئی اس کا حوالہ کیسے دے رہے ہیں؟
تفتیشی افسر نے کہا کہ سابق سیکرٹری پٹرولیم عابد سعید نے بیان میں کہا تھا انہوں نے شاہد خاقان کی ہدایت پر سمری بنائی
جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ پانچ سال بعد سمری دینے والے کو آپ نے بیان لیکر معافی دے دی؟ یہی تو آپ لوگوں کے اختیارات ہیں جن پر ہم بات کر رہے ہیں۔

۔
 چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ نیب اس طرف جا رہا ہے جدھر اسے نہیں جانا چاہیے ، نیب ایک طرح سے یو ایس ایڈ کیخلاف کیس بن رہا ہے، کیا نیب کو پتہ ہے اس کے گورننس، پاکستان کے بیرونی دنیا سے تعلقات پر کیا اثرات ہوں گے؟
آخر میں چیف جسٹس نے شاہد خاقان عباسی کو بھی ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ضمانت دیدی ۔

۔۔
یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے اس کیس میں اپنے دفاع کیلئے کوئی وکیل بھی نہیں کیا تھا ۔۔اور وہ ضمانت کی درخواست دینے کو بھی تیار نہیں تھے ۔۔
وہ خود اپنے کیس کا دفاع کررہے تھے ۔۔اور رواں ماہ دو فروری کو پارٹی قائد نوازشریف کی ہدایت پر انہوں نے ضمانت کی درخواست دی تھی ۔۔۔
فل حال نیب نے ان فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے
تاہم آج عدالت کے ریمارکس اورضمانت کے فیصلوں نے ایک بار پھر نیب کی صلاحیت اور قابلیت پر سنجیدہ سوالات اٹھادیے ہیں ۔

۔عوام ایک یہ سوال پوچھتی ہے کدھر ہے حکومت کا بیانیہ تحریک انصاف کا ل این جی کیس کے حوالے سے یہ دعوا تھا کہ یہ بہت بڑا کرپشن کا کیس ہے ۔ شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کا امریکہ میں کریڈٹ لیا تھا۔
ایک کے بعد ایک اپوزیشن رہنماوں کی رہائی نے اس بیانیے کو بھی تقریبا کمزور ہی کردیا ہے جس کے تحت موجودہ حکومت نے اپوزیشن قائدین پر کرپشن کے الزامات لگائے ۔۔ان کو جیلوں میں ڈالا ۔۔۔تاہم تاحال نہ ہی یہ مقدمات ثابت ہوئے ۔۔ نہ کوئی سزا ہوئی ۔۔اور نہ ہی کسی قسم کی ریکوریاں ۔۔یہ ہی وہ زمینی حقائق ہیں جس کی بنیاد پر احتساب کا بیانیہ تقریبا تحلیل ہوچکا ہے جس کا ادراک حکومت کو بخوبی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :