گلگت بلتستان الیکشن، پی ڈی ایم کا امتحان

جمعہ 30 اکتوبر 2020

Nadeem Basra

ندیم بسرا

 حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی محاذوں پر جنگ جاری ہے اگر اپوزیشن کی جانب سے سیاسی گرما گرمی میں اسی شدت کے ساتھ اضافہ  جاری رہا تو حکومت کے پاس عوام کو’’ مہنگائی اور گڈ گورننس ‘‘کے مسائل حل کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا  کیونکہ اب جہاں بھی جائیں  لوگ مہنگائی پر قابو نہ پانے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور حکومت نے بھی اب فیصلہ کر لیا ہے کہ اپوزیشن سے نمٹنے کیلئے مہنگائی پر قابو پانا ہوگا۔

اسی پراب وفاقی کابینہ کی لمبی بیٹھکیں جاری ہیں جہاں پر وزیراعظم عمران خان جب وفاقی وزراء پر برستے ہیں تو وزراء اپنی جان چھڑانے کیلئے ساری ذمہ داری بیوروکریسی پر ڈال دیتے ہیں ۔وزیر اعظم  بخوبی سمجھتے ہیں کہ یہ کام جہاں انتظامیہ کی مدد سے حل ہوگا مگر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے وزرا کو خود میدان میں نکلنا ہوگا کیونکہ ’’بیوروکریسی‘‘ پر سب ملبہ ڈالنا درست نہیں بیوروکریسی عوام کے ’’منتخب نمائندے‘‘ نہیں ہیں ۔

(جاری ہے)

عوام نے ووٹ کے ذریعے ’’پی ٹی آئی ‘‘کو منتخب کیا ہے اور ان کو حکومت کی باگ دوڑ دی ہے اس لئے یہ ذمہ داری اب موجودہ حکومت کی ہے ۔ وفاقی کابینہ میں بعض وزراء مراد سعید،ندیم افضل چن،فیصل واڈا کا یہ کہہ دینا کہ بیوروکریسی مہنگائی کو کنٹرول نہیں کررہی یا اس پر قابو پانے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی یہ بات بھی قابل قبول نہیں کیونکہ جب تک حکومت کے منتخب نمائندے مہنگائی کی ’’نبض ‘‘پر ہاتھ نہیں رکھیں گے ،تب تک یہ ’’جنّ بوتل میں بند نہیںہوگا ‘‘۔

اسی وجہ سے جب وفاقی کابینہ میں جب مہنگائی پر بات ہوئی اور سارا ملبہ انتظامیہ پر ڈالا گیا تو ’’وفاقی سیکرٹری فوڈ سکیورٹی ‘‘ کو کہنا پڑا کہ ہم پر یہ الزام نہیں ڈالا جا سکتا اس کیلئے حکومت کو اقدامات اٹھانے ہونگے۔ اسی کو دیکھتے ہوئے عمران خان یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ اپوزیشن کو سیاسی محاذ پر شکست دینے کیلئے مہنگائی پر قابو پایا جائے ۔

دوسری جانب پی ڈی ایم کا مارچ  جاری  ہے  ’’کوئٹہ‘‘میں جہاں پی ڈی ایم کے رہنما ’’شاہ اویس نورانی ‘‘ کے آزاد بلوچستان کے جملے منہ سے ادا ہوئے اس کو بعد میں وضاحتی بیان سے صاف بھی کیا گیا مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ پی ڈی ایم اپنی سیاسی گاڑی کو تیز چلانے کی خاطر  ٹریک سے نیچے نہ اتر جائے اگر ایسا ہوا تو ’’چراغوں میں روشنی ‘‘نہ رہنے والی بات درست  ہوجائے گی ۔

ایک بات تو طے ہے کہ پی ڈی ایم کے رہنما یہ بات کہیں کسی’’ بیٹھک ‘‘میں طے کر چکے ہیں کہ  وہ کردار جو ’’اسٹیبلشمنٹ ‘‘ کے بارے میں سخت نقطہ نظر رکھتے ہیں ان ہی  سے ان کے خلاف بات کروائی جائے جیسے کہ نواز شریف ،مریم صٖفدر  اورمحمود اچکزئی ہیں ۔باقی جماعتیں پی پی ،جے یو آئی  ’’مہنگائی ،گڈ گورننس ‘‘پر بات کریں ۔ اب اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ پی ڈی ایم لوگوں کو گھروں سے جلسوں تک لانے میں کامیاب ہو گئی ہے تو کیا یہ اس بات کی ضامن ہوگی کہ ’’گلگت بلتستان ‘‘ کے  الیکشن جو15نومبر  2020 کو ہونے جارہے ہیں  وہاں اپوزیشن کامیاب ہو سکے گی ؟۔

ادھر اپوزیشن کے کامیاب ہونے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ صوبہ گلگت بلتستان کے دس اضلاع کی چوبیس نشستوں پر پی پی ،ن لیگ،جے یو آئی ف نے اپنے الگ الگ امیدوار کھڑے کئے ہیں ۔اس الیکشن میں جے یو آئی ف کا امیدوار ن لیگ کے خلاف ووٹ مانگے اور ن لیگ کا امیدوار  پی پی کے خلاف مہم چلا کر اپنا ووٹ مانگے تو مشترکہ اپوزیشن کا بیانیہ  کہاں رہ جاتا ہے پھر حکومت کو گرانے کا آپریشن کب کامیاب ہوسکے گا ؟۔

پی ڈی ایم کو چاہئے تھا کہ  ’’گلگت بلتستان ‘‘ کے الیکشن کیلئے مشترکہ امیدوار سامنے لے کر آتی مگر وہاں تو سب نے اپنے نمائندوں کو کھڑا کرکے یہ ثبوت دیا ہے کہ’’ دوڑ اپنی اپنی ‘‘ہے ۔پی ڈی ایم جلسوں کے محاذ پر اکھٹی اور گلگت بلتستان الیکشن کے محاز پر الگ الگ نظر آرہی ہے ۔ اس الیکشن میں’’ن ‘‘ لیگ سے وابستی ختم کرکے چار امیدوار حاجی فدا محمد شاد ،حاجی حیدر خان ،ابراہیم ثنائی اور ڈاکٹر محمد اقبال پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہوں وہاں اپوزیشن کے جیت کے امکانات  کم ہی ہونگے ۔

سیاسی ماحول میں شدت کے بعد عالمی ماحول میں بھی کافی ’’تناو‘‘ آگیا ہے ،فرانس  کی جانب سے خاکوں کی حمایت پر ہر مسلمان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں ۔ تمام مسلم ممالک میں ان کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں  وزیراعظم عمران خان نے عالمی فورم پر جب بھی بات کی چاہے وہ اقوام متحدہ ہو یا کوئی اور فورم  تو انہوں نے عالمی برادری کو باور کروایا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں (نعوذ با للہ)جب بھی منفی بات کی جاتی ہے  تو عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے ان کے اثطراب میں اضافہ ہوتا ہے ، اس لئے عالمی برادری ایسے اقدامات کرنا ہونگے  ایسے سخت قوانین بنانا ہونگے جس سے یہ منفی کام روکا جاسکے ،موجودہ صورت حال میں عمران خان نے ’’ فیس بک ‘‘کے مالک کو خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ  وہ ایسا کوئی مواد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہ ہونے دیں جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو۔

بطور مسلمان ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ اگر کسی نے رسول پاک  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں کوئی گستاخی کی تو ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے اس کے لئے ہمیں جو بھی قربانی دینا پڑی  دیں گے  مسلمان کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کریں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :