’’سیاسی درجہ حرات حکمران جماعت کیلئے کتنا فائدہ مند ہوگا‘‘

جمعہ 13 اگست 2021

Nadeem Basra

ندیم بسرا

ملک میں سیاسی پارہ گزشتہ کئی ماہ سے عروج پر ہے۔ سیاسی درجہ حرارت میں فائدہ اٹھانے والی حکمران جماعت ہے۔ آزاد کشمیر الیکشن میں کامیابی اور سیالکوٹ میں ضمنی انتخابات میں کامیابی یقینا پی ٹی آئی کو ملک کی بڑی سیاسی جماعت  کے دعوے کو سچ کررہی ہے۔وزیراعظم عمران خان کے مثبت اقدامات عوام پر کہیں نہ کہیں تو اثر انداز ہورہے ہیں اگر ایسانہ ہوتا تو کشمیر میں کامیابی نہ ملتی۔

اب سوچنے کی بات ہے کہ باقی ماندہ دنوں میں حکومت کیا اقدامات کرسکتی ہے جس کا فائدہ عوام کو ملے۔مہنگائی کم ہوسکے اور عوام کامعیار زندگی بہتر ہو سکے کیونکہ ایسے اقدامات کرنے کی پی ٹی آئی کو خود بھی ضرورت پے اس لئے کہ آئندہ انتخابات میں ان کے منشور میں کچھ نہ کچھ تو ضرور ہو۔

(جاری ہے)

مگر یہاں کچھ حتمی نہیں کہا جاسکتا اس لئے کہ پاکستانی سیاست بھی ہماری کرکٹ ٹیم کی طرح غیر یقینی کی صورتحال سے دو چار رہتی ہے کل تک حکمران جماعت اور اسکے درجنوں ترجمانوں کی فورس اپوزیشن جماعتوں پر تبرے برسانے میں 24گھنٹے مصروف رہتی تھی مگر گزشتہ دو تین روز  کے دوران پیدا ہونیوالے تبدیلیوں بالخصوص پنجاب میں استحقاق بل پر تمام تر حکومتی مخالفت کے باوجود سپیکر پرویز الٰہی نے اپنی جماعت ،پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے82ارکان کی مدد سے استحقاق بل منظور کروا کے مرکز والے اتحادی کو پیغام دیا ہے کہ پنجاب میں اگر چودھری چاہیں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

ویسے اس کا اظہار چودھری کئی بار کرچکے ہیں اور یہ پیغام بھی دے چکے ہیں کہ اتحادیوں کی وجہ سے خصوصاً پنجاب کی رونق قائم ہے۔دوسری طرف حکومتی جماعت آزاد کشمیر اسمبلی اور سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد کسی بد مست ہاتھی کی طرح  ترین گروپ کو نشانے پر لے چکی ہے۔یہ بات واضح ہے کہ ترین گروپ موجودہ حکومت کے لئے کوئی بھی خطرہ نہیں ہے اور نہ وزیراعظم کو ان سے کوئی خطرہ ہے۔

پاپولر رہنے کے لئے ترین گروپ بنایا گیا جو اپنے مقاصد پورا کرکے وہاں دوبارہ چلا جائے گا جہاں سے وہ شروع ہوا تھا۔اب نذیر چوہان کی "اپ گریڈیشن" کے بعد  وزیر اعظم عمران خان کے پرانے ساتھی عون چودھری کو انکے عہدے سے فارغ کر کے اور مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق کی پنجاب اسمبلی کی دہلیز پر عزت افزائی کر کے اپنے جماعتی منحرفین اور سیاسی مخالفین کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اب عمران خان کے بیانیے سے ہٹنے والوں کی خیر نہیں۔

واقفان سیاست کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کو اس لیے فارغ کیا گیا ہے کہ وہ جس طرح ن لیگ کو ٹریٹ کرتی تھیں ویسی فصاحت و بلاغت کا مظاہرہ وہ ترین گروپ کیخلاف بوجوہ نہیں کر سکیں۔ چنانچہ اب یہ ذمہ داری صرف اس اہل زبان کو تفویض کی جائیگی جو اس منصب کے تقاضے پورے کرنے کا اہل ہو گا۔ ترین گروپ اس پر خاموشی سے مشورہ سازی میں مصروف ہے،ویسے بھی اس کے ارکان وہ لوگ ہیں جو آزاد ایئرپورٹ سے ترین طیارے میں سوار ہو کر حکومتی ایئرپورٹ پر اترے تھے لہذا ان کیلئے عہدوں پر رہنا یا نہ رہنا ایک برابر ہے کیونکہ اگلا الیکشن انہوں نے پھر آزادانہ حیثیت سے لڑنا ہے۔


اس صورتحال کا ن لیگ کو تو بخوبی ادراک ہے مگر وہ ابھی تک اپنے بیانیوں اور انتخابی نتائج کے اثرات سے نہیں نکل پا رہی جس کا فائدہ حکومت کو پہنچ رہا ہے۔مسلم لیگ ن کے مین سٹریم کے رہنما اس صورتحال کی لاکھ وضاحت کریں مگر اب تو یہ ن لیگ کا عام ووٹر اور سپورٹر بھی سمجھنے لگا ہے کہ انہیں اور انکی جماعت کو دو کشتیوں کی سواری مہنگی پڑ رہی ہے۔

کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشنوں میں بمشکل ایک ماہ رہ گیا ہے۔ن لیگ میں بیانیے کی جنگ یونہی جاری و ساری رہی اور پارٹی کے قائد نے کوئی واضح لائن آف ایکشن نہ لیا تو اس کا اثر نہ صرف کنٹونمنٹ بورڈ اور اگلے سال کی پہلی سہ ماہی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر پڑے گا بلکہ انہیں آ ئندہ عام انتخابات میں اس بیانیاتی نظریئے کے باعث خدانخواستہ اسی پشیمانی سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے جس کا مزہ 1985ء  کے غیر جماعتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے حصہ نہ لیکر چکھا تھا۔


اس پس منظر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف مسلم ن کو موجودہ حکومت کو چلتا کرنے کیلئے پنجاب اور مرکز میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کی پیشکش پر میاں برادران  اگر پارٹی کی کور کمیٹی سے صلاح مشورہ کر لیں تو شاید انہیں پارٹی کی نبض شناسی سے فیصلہ کرنے میں مدد مل سکے۔سیاسی محاذ پر اس وقت ن لیگ کی طرف سےعملاً میدان سیاست میں رہنے والے چہروں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔

شہباز شریف اور حمزہ شہباز کبھی کبھار ہی خبروں میں دکھائی دیتے ہیں،مریم نواز فی الحال چپ سادھے ہوئے ہیں ،مریم اورنگزیب، شاہد خاقان عباسی،احسن اقبال،رانا ثنا اللہ،عطاتارڑ اور عظمی بخاری کے علاوہ کوئی قابل ذکر نام سامنے نہیں آ تا۔کہاں ہیں خود کو لوہے کے چنے کہنے والے خواجہ سعد رفیق،خواجہ آ صف ،رانا تنویر،طلال چودھری،عابد شیر علی، تہمینہ دولتانہ؟ پتہ نہیں ملک کی اس بڑی سیاسی جماعت کو کس کی نظر کھا گئی ہے یا وہ کسی کے بیانیے کی نذر ہو گئی ہے۔اگر مسلم لیگ ن نے بر وقت ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر تاریخ کا صفحہ پلٹتے دیر نہیں لگے گی، بہتر ہے وقت پر فیصلہ سازی کر لیں کیونکہ سیاست میں ٹائمنگ ہی اہم ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :