مارچ کا مہینہ جہاں موسم کی تبدیلی کی خبر دے رہا ہے وہیں اس مہینے کے حوالے سے سیاسی خبریں بھی زیرگردش ہیں کہ حکومت کیخلاف اپوزیشن جماعتوں کا متحدہ محاذ ایک بار پھر تیزہونے جارہا ہے۔ ملک کی طاقتور شخصیات کی تقرریاں تعیناتیوں کا وقت بھی اسی مارچ کے مہینے سے شروع ہوجاتا ہے۔ تو یہ کہا جائے کہ سیاسی موسم بھی انگڑائیاں لے رہا پے تو بے جا نہ ہوگا۔
دوسری جانب لاہور جو ثقافت ،سیاحت،تاریخی حوالوں سے دنیا میں الگ مقام رکھتا ہے اب ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن ،جے یو آئی ف ،ایم کیو ایم اور اب جے ڈی آئی کا مرکز بنا ہوا ہے۔آصف علی زرداری ،بلاول بھٹو ہوں یا مولانا فضل الرحمان یا شہبازشریف ہوں یا عامر خان ہوں ،سیاسی بیٹھکوں کا مرکز چودھری ظہور الہی روڈ ہی ہے۔
(جاری ہے)
جہاں ان لوگوں نے چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہی سے رسمی اور غیر رسمی ملاقاتوں کا لمبا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔اپوزیشن جماعتیں ان ملاقاتوں کو نہ ختم ہونے والا سلسلہ قرار دے رہی ہیں ، ان کے اندازوں اور پیشین گوئیوں سے یوں لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ق بھی آئندہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے گی اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے گی۔ مگر فی الحال ایسا نہیں ہورہا۔
چودھریوں نے واضح کیا ہے کہ ہم حکومت کے اتحادی ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔چودھری پرویز الہی ایسے سیاست دان ہیں جو ماضی حال کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔وہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں اور ان کی جماعت نے کیا کرنا ہے ویسے تو وہ کئی بار کہ چکے ہیں کہ وہ اتحادی ہیں حکومت کا ساتھ دیں گے۔اگرچہ انہیں حکومت پر کئی تحفظات موجود ہیں مگر وہ ان کو پس پشت ڈال کر جمہوریت کی مضبوطی کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔
مسلم لیگ ق کے اس بیانئے کے بعد لگ تو یہی رہا پے کہ عمران خان بطور وزیراعظم اپنے پانچ برس مدت پوری کرجائیں گے اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا کریڈٹ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہی کو جائے گا۔ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ پنجاب سے سینٹرز کے انتخاب کا معاملہ ہو یا کوئی اور سیاسی امتحان چودھری پرویز الہی ہمیشہ ہی اس میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
ویسے پی ٹی آئی کی بدقسمتی کہیں یا ناعقبت اندیشی کہیں یا کچھ اور۔انہیں مسلم لیگ ق جیسے اچھے اتحادی ملے وہ اتحادی جن کے پراجیکٹ چاہے وہ ریسکیو 1122 ہوں یا ٹریفک وارڈن، نیے ہسپتالوں کی تعمیر ہو یا سڑکوں کا جال بچھانا ہو یا پٹرولنگ پولیس کا قیام ہو یا مفت تعلیمی سہولتوں کا ذکر ہو یا وہ دیگر عوامی فلاحی منصوبے ہوں جن سے عوام اب تک مستعفید ہو رہی ہے۔
پی ٹی آئی یا عمران خان خود ان سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔اگر وہ چودھریوں کو تمام معاملات میں شراکت دار بناتے تو آج حالات مختلف ہوسکتے تھے ، اب بھی حکومت ان سے مستفید ہوسکتی ہے کیونکہ اگر حکومت پائوں پر کھڑی ہے تو بڑا سہارا مسلم لیگ ق ہی کا ہے۔اب دوسری جانب پیپلزپارٹی کا قافلہ بھی کراچء سے چلنے کی تیاریوں کے مراحل میں ہے اور لاہور پڑاو ہوگا۔
بتایا جارہا ہے کہ بلاول بھٹو جیالوں کا لہو گرمائیں گے پنجاب میں بھی تیاریوں کا سلسلہ تیز ہورہا ہے۔ لاہور بھی پیپلز پارٹی کے اس مارچ کی میزبانی کرے گا اور پھر قافلہ وہاں تک پہنچے گا جہاں سبھی جماعتیں اپنا مستقبل دیکھتی ہیں۔ایک طرف تو یہ معاملہ ہے دوسری طرف وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب وہ بھی لاہور میں کئی روز مصروف گزار کر گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ ایف آئی اے لاہور نے شہباز شریف کی گرفتاری کا مکمل منصوبہ بنا لیا ہے ہوسکتا ہے کہ 18 فروری کو اس کیس کا کلائمیکس ہوہی جائے، ویسے شہباز شریف کے قریبی ذرائع انہیں بتاچکے ہیں کہ انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کا پروگرام شیڈول ہوچکا ہے اس لئے وہ ذہنی طور پر تیار رہیں،اگر دیکھا جائے تو لاہور کئی ہفتوں سے سیاسی مرکز بنا ہوا ہے مگر پنجاب میں وزراء کی فوج ظفر موج میاں اسلم اقبال،میاں محمود الرشید،یاسمین راشد،راجہ بشارت سمیت ایک بڑی تعداد کے بڑے وزراء با لکل خاموشی سے حکومت کے خلاف محاذ کو برداشت کئے جارہے ہیں وہ حکومت کا کہیں دفاع کرتے نظر نہیں آتے اگر حکومت کا دفاع کیا جارہا ہے تو وہ ترجمان وزیر اعلی حسان خاور ہیں جو روزانہ اپوزیشن کے حملوں کو روکتے ہیں ،بلکہ حکومت کا دفاع بھی کرتے ہیں۔
حسان خاور ہر جگہ متحرک نظر آتے ہیں اور مختصر سے وقت میں حسان خاور نے بڑی جگہ بنائی ہے وہ انتخاب عمران خان کا ہیں یا عثمان بزدار کا ہیں وہ ایک اچھی چوائس ہیں،اس سے قبل فیاض چوہان ایک ایسے وزیر تھے جو مکمل متحرک تھے مگر اب حسان خاور ہیں جو صحیح دفاع کرتے نظر آتے ہیں اس پر حسان خاور واقعی داد کے مستحق ہیں وہ نہ صرف عوامی مقامات پر جاکر لوگوں سے مسائل بھی جان رہے ہیں بلکہ اس کے لئے اقدامات بھی کررہے ہیں مگرایک بات جو میرے لئے حیرانی کا باعث ہے کہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار ان خاموش وزراء کی باز پرس کیوں نہیں کرتے کیا وہ ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں کہ وزرا مراعات بھی لے رہے ہیں مگر حکومت کے خلاف محاذ جو بن رہے ہیں ان کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولتے وزیراعلی پنجاب کو چاہیے کہ وہ اپنے وزراء کو تھوڑا سا جگائیں تاکہ وہ بھی کوئی لب کشائی کریں۔