حکومتی چیلنجز کی دلدل! عمران خان اور جہانگیرترین میں صلح ہوسکتی ہے؟

جمعہ 28 جنوری 2022

Nadeem Basra

ندیم بسرا

کرپشن کے ناسور کو معاشرے سے ختم کرنے کیلئے عمران خان کی جدوجہد سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک انصاف کی ابتداء سے لیکر ایوانوں تک پہنچنے کی داستان یا محنت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ،عالمی سطح پرکورونا وباء کے خاتمے کے لئے اقدامات ہوں،افغانستان میں پائیدار حل، پرامن اقتدار انتقال کی بات ہو  یاطاقتور اسلامی ممالک کے سربراہان کا پاکستان کی موجودہ قیادت کو تسلیم کرنے کی بات ہو تمام دنیا میں عمران خان کی پذیرائی ہوئی۔

پھر کیا وجہ بنی کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل انڈکس میں مسلسل تیسرے برس بھی پاکستان کی 16درجے تنزلی پر جاکر 124 سے 140 ممالک تک آجانا یہ بات سمجھ نہیں  آتی۔ کیا وزارتوں کی کارکردگی میں بہتری نہیں آئی یا عمران خان کی حکومت میں قانون کی حکمرانی اور ریاستی گرفت کی کمزوری وجہ بن گئی اور احتساب کانعرہ صرف کتابوں تک محدود ہو کررہ گیا ۔

(جاری ہے)

یا احتساب کے نام پر مخصوص لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا ۔

اور اس کے نتیجے میں نکلا کچھ بھی  نہیں ۔شہباز شریف بھی پابند سلاسل نہیں ہوئے اور عمران خان کے جگری دوست جہانگیر ترین بھی اس وجہ سے ان سے دور ہوگئے ۔پیپلز پارٹی کے رہنما اور پارٹی لیڈر پنجاب اسمبلی ان کا یہ کہنا ہے کہ عمران خان نے کرکٹ ورلڈ کپ کے بعد کرپشن کا ورلڈ کپ بھی جیت لیا ہے ۔موجودہ صورت حال میں یہ بیان بھی بڑا اہم اور دلچسپ  ہے۔

دوسری جانب سمجھدار لوگوں کے کہنے پراس رپورٹ کے آنے سے قبل مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر سے استعفی لیکر انہیں گھر بھیج دیا اور وہ مشیر سے سابق مشیر احتساب بن گئے ۔اس طرح کے کئی سولات ہیں کہ عمران خان کی حکومت میں ملک کرپشن پر قابو پانے کے لئے واضح اقدمات نہیںکرسکیں تو شہزاد ملک سے اس کے دور کا حساب کون لے گا ؟،ان کے بلندوبانگ دعوے اور بیانات کے فروری کا ماہ شہباز شریف کی گرفتار ہو جائیں گے ؟ ۔

وہ تو گرفتار نہیں ہوئے بلکہ اس سے قبل شہزاد اکبر کی اپنی وکٹ گر گئی ۔عمران خان شہزاد اکبر سے واقعی ناراض تھے ؟۔ذرائع تو یہ بھی بتارہے ہیں کہ عمران خان کو اس قسم کے مشورے دئے جارہے تھے اوہ وہ ان کو من و عن مان بھی رہے تھے ۔شہزاد اکبر کے ساتھ وزیراعظم کے ایک ان کے پرنسپل سیکرٹری کا نام بھی لیا جاررہا ہے کہ وہ بھی بہت زیادہ مشورے دیتے رہیں ہیں۔

کیا اب شہزاد اکبر کے بعد وہ بھی تبدیل ہونگے؟ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان صلح ہو جائے گی؟میرے قریبی دوست اور سینئر صحافی گوہر بٹ جو اپنے تبصروں کے حوالے سے مشہور ہیں ان کا وی لاگ آدھا اردو اور آدھا پنجابی میں ہوتا ہے ان کا کہنا ہے کہ عمران خان سیاسی تہنائی کا شکار ہورہے ہیں اور  سیاسی حلقوں میں یہ باتیں زورشور سے ہورہی ہیں اور عمران خان کے قریبی حلقے بھی دعوی کررہے ہیں کہ عمران خان کوسیاسی سپورٹ جہانگیرترین دلوا سکتے ہیں۔

اب عمران خان اپنا نیا مشیر کس کو منتخب کرتے ہیں یہ بات اہم ہے ۔اس کا فیصلہ بھی جلد ہوجائے گا ۔اب ایک طرف ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر باتیں ہورہی ہیں اور دوسری جانب تحریک انصاف کی تشکیل نو بھی کی گئی ہے تشکیل نو سے اب کئی امیدیں وابستہ کی گئیں ہیں کیا واقعی نئی تحریک انصاف کی تنظیم کوئی معرکہ سر کرسکے گی یا نہیں یہ بھی وقت پر منحصر ہے کیونکہ ملک میں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آگیا ہے اور لوگ تقریروں سے تنگ آکر عملی اقدامات چاہتے ہیں لوگوں کی آواز پر اپوزیشن 23 مارچ کو دھرنے یا احتجاج  کی صورت لبیک کہنے جارہی ہے۔

اسلام آباد میں پنڈال سجنے جارہا ہے اور وزیرداخلہ جو پہلے اپوزیشن کو تاریخ کی تبدیلی کی درخواست کرچکے تھے اب تنگ آکر یہ کہہ دیا ہے کہ آپ نے ماننا تو نہیں، لہذا آپ اسی روز آئیں اور قانون کو ہاتھ میں لیا تو کاروائی ہوگی ۔ان کا کہنا تھا کہ تئیس مارچ کو اسلام آباد پریڈ میں دنیا کے بڑے وزراء خارجہ آرہے ہیں اس روز کو اپوزیشن اسلام آباد نہ ائے ۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ تاریخ تبدیل نہیں کرے گی ۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ حکومت کو گھر بھیجنا آئینی اور شرعی فریضہ ہے لہذا وہ اسی روز ہی آئیں گے ۔اب جہاں حکومت کے لئے اپوزیشن ،ٹرانسرپرنسی انٹریشنل کی رپورٹ ہی درد سر نہیں وہیں اپوزیشن خصوصا پنجاب میں مسلم لیگ ق چودھری پرویز الہی بھی حکومت تو متنبہ کر چکے ہیں کہ حکومت ٹھنڈے دماغ سے فیصلے کرے حکومت میں رہتے ہوئے اپوزیشن جیسے بیانات دینے کی ضرورت نہیں،اتحادیوں کو اپوزیشن کی جانب نہ دھکیلے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کو اگر صحیح معنوں میں کسی نے سپورٹ کیا ہے تو وہ مسلم لیگ ق ہی ہے ۔سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی ایک زیرک سیاستدان ہیں ۔ان کی سیاسی حکمت عملی ہمیشہ مثبت اور عوام کی بھلائی کے لئے ہوتی ہے ۔  اسی وجہ سے مسلم لیگ ق کو ملکی سیاست میں ایک علیحدہ مقام حاصل ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ عمران خان کو چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہی کو ساتھ لیکر چلنا چاہئے کیونکہ 2018 کے بعد سے اب تک مسلم لیگ ق کا گراف خصوصا پنجاب میں بڑھا ہی ہے اور مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کی ہے اس کے مقابلے میں مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں سیاسی لوگوں کی شمولیت انتہائی کم رہی ہے اور سیاسی پنڈت یہ بھی دعوی کررہے کہ 2023 کے الیکشن میں اگر کسی سیاسی پارٹی میں سیاسی لوگوں نے شمولیت کی تو وہ مسلم لیگ ق ہی ہوگی کیونکہ مسلم لیگ ق ماضی میں اپنے عوامی پراجیکٹ سے ہمیشہ مقبول جماعت  رہی ہے اس کی بڑی مثال پنجاب اسمبلی کی نئی بلڈنگ کا قائم ہونا ہے جو سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی کی شب وروز محنت کا نتیجہ ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :