
"پی ٹی آئی کی حکومت سیاسی جھٹکوں کی لپیٹ میں"
جمعہ 14 جنوری 2022

ندیم بسرا
(جاری ہے)
میں متحدہ اپوزیشن عدم اعتماد اور لانگ مارچ پر متفقہ سٹینڈ لیکر چلتی ہے تو پھر پاکستانی قوم کو یہاں بلدیاتی الیکشن نہیں بلکہ عبوری حکومت کا انتظار کرنا چاہیے۔
پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت بڑی احتیاط اور خوبصورتی کیساتھ اپنے سیاسی پتے کھیل رہی ہے،قومی اسمبلی کا رواں سیشن اور اسلام آباد میں ہونیوالی ملاقاتیں نئی شروعات کی نوید دیتی دکھائی دیتی ہیں۔تا دم تحریر پیپلز پارٹی نے اے این پی کو اپنے لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت دی ہے۔اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے وفد نے باچا خان مرکز میں ایمل ولی اور دیگر قائدین سے ملاقاتیں کی ہیں۔عوامی۔نیشنل پارٹی نے پیپلز پارٹی سے جواب کی ۔مہلت مانگی ہے جبکہ پیپلز پارٹی۔کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی واپسی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے علامہ طاہر القادری اور اہل تشیعہ کے سربراہ علامہ ناصر سے رابطے کرنے کا عندیہ دیا ہے۔پیپلز پارٹی عوامی نبض شناس ہے اور اسی لیئے اس نے مارچ کے پہلے مرحلے میں ملک کی فوڈ سیکورٹی کے حامل بڑے طبقے کسانوں کی۔مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہ رواں کے آخری ہفتے میں پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں ٹریکٹر ٹرالی مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس مارچ کو کامیاب بنانے کیلیے قائم کی گئی 5رکنی آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر پیپلز پارٹی کے پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر حسن مرتضی نے کسان تنظیموں کے نمائندوں سے رابطے شروع کر دئیے ہیں تاکہ عوامی ا یشوز پر پیپلز پارٹی کی تیاریوں کو اب جلا مل سکے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کے اندر سے بھی اب پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کی تائید میں طاقتور آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں ،اگر قومی اسمبلی کی طرح اپوزیشن جماعتیں اسمبلی سے باہر بھی متحد ہو جاتی ہیں تو بحرانوں میں گھری حکومت کیلیے خطرے کی گھنٹی کو بجنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔اپوزیشن کی لیڈر شپ میں اس حوالے سے اگلے چند دنوں میں رابطوں اور ملاقاتوں میں تیزی آ سکتی ہے.کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوام نے اپنی توقعات حکومت سے ختم کرکے اپوزیشن سے لگا لی ہے ؟۔ کیا ان ہائوس تبدیلی سے ملک میں کوئی نئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے ؟:۔ان ہائوس تبدیلی کربھی دی جائے تو کیا عوام گزشتہ تین برسوں کے احتساب سے خوش ہو جائیں گے یا وہ ماضی کی حکومتوں کا بھی احتساب چاہئے گے؟ ۔ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو فوری جواب چاہتے ہیں ۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اب دوبارہ متحرک ہونے جارہی ہے ۔شہباز شریف کی سیاست کا دارومدار بھی مسلم لیگ ن کی واضح پالیسیوں پر منحصر ہے کہ انہیں پارٹی میں فیصلوں کا اختیار مکمل ملتا ہے کہ نہیں کیونکہ آئندہ دنوں میں صیح اور بروقت سیاسی فیصلے ہی عوام کی رائے کو متعین کریں گے ۔اور وہ اپنا لیڈر اسی کو منتخب کریں گے جو فیصلہ اس کے منہ سے سنیں گے ۔اس وقت عوام درست سیاسی فیصلوں کی امید لگائے بیٹھے ہیں اگر صیح سمت کو طے کر لیاگیا تو آئندہ سیٹ اپ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہی ملکی اقتدار میں شراکت دار ہوگی ۔ورنہ "فانی بدیواانی " کا یہ شعر ہے کافی ہے
زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا "
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ندیم بسرا کے کالمز
-
’’موسمی تبدیلی کے مہینے مارچ میں سیاسی انگڑائیاں‘‘
ہفتہ 19 فروری 2022
-
عمران خان کو الیکٹیبلز کا داغ دھونے کیلئے موزوں امیدواروں کی تلاش
ہفتہ 5 فروری 2022
-
حکومتی چیلنجز کی دلدل! عمران خان اور جہانگیرترین میں صلح ہوسکتی ہے؟
جمعہ 28 جنوری 2022
-
"پی ٹی آئی کی حکومت سیاسی جھٹکوں کی لپیٹ میں"
جمعہ 14 جنوری 2022
-
ملکی سیاست کے رنگ بڑے ہی نرالے
ہفتہ 4 ستمبر 2021
-
’’اپوزیشن کی چالیں! حکومت سیاسی قلعہ فتح کرنے میں کامیاب‘‘
جمعرات 26 اگست 2021
-
’’سیاسی درجہ حرات حکمران جماعت کیلئے کتنا فائدہ مند ہوگا‘‘
جمعہ 13 اگست 2021
-
بیانیہ کی جنگ کون جیتے گا
جمعہ 21 مئی 2021
ندیم بسرا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.