"پی ٹی آئی کی حکومت سیاسی جھٹکوں کی لپیٹ میں"

جمعہ 14 جنوری 2022

Nadeem Basra

ندیم بسرا

نیا سال شروع ہوتے ہی پاکستان کی سیاست میں جس تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور جس طرح حکومتی وزراء کے اکھڑے اکھڑے اور غیر مدلل بیانات سامنے آ رہے ہیں اس نے ون پیج کے دعویداروں کو وقتی طور پر بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور کر دیا ہے ۔حکومت سانحہ مری میں لاکھ تاویلیں پیش کرے اور اسکے وزراء و ترجمان جتنی تقریریں اور بیانات دے لیں،پی ٹی آئی اور اس کی حکومت اس وقت شدید سیاسی جھٹکوں کی لپیٹ میں ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے 27فروری کو شروع کیے جانے والے لانگ مارچ کی ٹائمنگ کو تو انکے سیاسی مخالفین بھی سراہ رہے ہیں ۔مہنگائی اوربیروزگاری کے بعد اب منی بجٹ کا عفریت منہ پھاڑے اس ملک کے 22کروڑ عوام کو لقمہ اجل بنانے کو تیار کھڑا ہے۔اگر قومی اسمبلی۔

(جاری ہے)

میں متحدہ اپوزیشن عدم اعتماد اور لانگ مارچ پر متفقہ سٹینڈ لیکر چلتی ہے تو پھر پاکستانی قوم کو یہاں بلدیاتی الیکشن نہیں بلکہ عبوری حکومت کا انتظار کرنا چاہیے۔

پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت بڑی احتیاط اور خوبصورتی کیساتھ اپنے سیاسی پتے کھیل رہی ہے،قومی اسمبلی کا رواں سیشن اور اسلام آباد میں ہونیوالی ملاقاتیں نئی شروعات کی نوید دیتی دکھائی دیتی ہیں۔
تا دم تحریر پیپلز پارٹی نے اے این پی کو اپنے لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت دی ہے۔اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے وفد نے باچا خان مرکز میں ایمل ولی اور دیگر قائدین سے ملاقاتیں کی ہیں۔

عوامی۔نیشنل پارٹی نے پیپلز پارٹی سے جواب کی ۔مہلت مانگی ہے جبکہ پیپلز پارٹی۔کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی واپسی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے علامہ طاہر القادری اور اہل تشیعہ کے سربراہ علامہ ناصر سے رابطے کرنے کا عندیہ دیا ہے۔پیپلز پارٹی عوامی نبض شناس ہے اور اسی لیئے اس نے مارچ کے پہلے مرحلے میں ملک کی فوڈ سیکورٹی کے حامل بڑے طبقے کسانوں کی۔

مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہ رواں کے آخری ہفتے میں پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں ٹریکٹر ٹرالی مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس مارچ کو کامیاب بنانے کیلیے قائم کی گئی 5رکنی آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر پیپلز پارٹی کے پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر حسن مرتضی نے کسان تنظیموں کے نمائندوں سے رابطے شروع کر دئیے ہیں تاکہ عوامی ا یشوز پر پیپلز پارٹی کی تیاریوں کو اب جلا مل سکے۔

دوسری طرف مسلم لیگ ن کے اندر سے بھی اب پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کی تائید میں طاقتور آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں ،اگر قومی اسمبلی کی طرح اپوزیشن جماعتیں اسمبلی سے باہر بھی متحد ہو جاتی ہیں تو بحرانوں میں گھری حکومت کیلیے خطرے کی گھنٹی کو بجنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔اپوزیشن کی لیڈر شپ میں اس حوالے سے اگلے چند دنوں میں رابطوں اور ملاقاتوں میں تیزی آ سکتی ہے.کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوام نے اپنی توقعات حکومت سے ختم کرکے اپوزیشن سے لگا لی ہے ؟۔

کیا ان ہائوس تبدیلی سے ملک میں کوئی نئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے ؟:۔ان ہائوس تبدیلی کربھی دی جائے تو کیا عوام گزشتہ تین برسوں کے احتساب سے خوش ہو جائیں گے یا وہ ماضی کی حکومتوں کا بھی احتساب چاہئے گے؟ ۔ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو فوری جواب چاہتے ہیں ۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اب دوبارہ متحرک ہونے جارہی ہے ۔شہباز شریف کی سیاست کا دارومدار بھی مسلم لیگ ن کی واضح پالیسیوں پر منحصر ہے کہ انہیں پارٹی میں فیصلوں کا اختیار مکمل ملتا ہے کہ نہیں کیونکہ آئندہ دنوں میں صیح اور بروقت سیاسی فیصلے ہی عوام کی رائے کو متعین کریں گے ۔

اور وہ اپنا لیڈر اسی کو منتخب کریں گے جو فیصلہ اس کے منہ سے سنیں گے ۔اس وقت عوام درست سیاسی  فیصلوں کی امید لگائے بیٹھے ہیں اگر صیح سمت کو طے کر لیاگیا تو آئندہ سیٹ اپ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہی ملکی اقتدار میں  شراکت دار ہوگی ۔ورنہ "فانی بدیواانی " کا یہ شعر ہے کافی ہے
"اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا "

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :