تیری میری کہانی

منگل 6 اپریل 2021

Nadeem Iqbal Khakwani

ندیم اقبال خاکوانی

آج کی گفتگو کا آغاز ھم ایک کہانی  سے کرتے ہیں اور کہانی ھے ایک  مچھیرے کی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مچھیرا اور اسکی بیوی عام سی زندگی گزار رہے تھے مچھیرا روزانہ مچھلیاں پکڑتا اور انھیں بیچ کر دونوں میاں بیوی اپنی گزر بسر کرتے ۔ ایک دفعہ مچھیرا کی  بیوی اپنے شوہر کی شکار کردہ مچھلیاں چھیل رہی تھی کہ اس نے ایک حیرت ناک منظر دیکھا۔

ایک چمکتادمکتا موتی مچھلی کے پیٹ میں سے نکلا۔ بیوی چلائی سرتاج، سرتاج، آۂ دیکھو تو، مجھے کیا ملا ہے۔ کیا ملا ہے، بتا تو سہی۔ مچھیرا نے پوچھا۔ یہ دیکھو اتنا خوبصورت موتی مچھلی کے پیٹ سے ملا ھے بیوی گویا ھوئی۔ لا مجھے دو لگتا ہے آج ہماری خوش قسمتی ہے جو اس مچھلی کے علاوہ اچھا کھانا کھانے کو ملے گا۔

(جاری ہے)

مچھیرے نے بیوی سے موتی لیا اور محلے کے سنارکے پاس پہنچا اور کہا کہ قصہ یہ ہے کہ مجھے مچھلی کے پیٹ سے موتی ملا ہے۔

سنار نے موتی دیکھ کر کہا کہ یہ تو بہت عظیم الشان ہے۔ میرے پاس تو ایسی قیمتی چیز خریدنے کی استطاعت نہیں ہے۔۔۔ چاہے اپنا گھراور سارا مال و اسباب ہی یوں نہ بیچ ڈالوں، اس موتی کی قیمت پھر بھی ادا نہیں کر سکتا۔ تم ایساکر و ساتھ والے شہر کے سب سے بڑے سنار کے پاس چلے جاو۔ ہو سکتا ہے  وہ اسکی قیمت اداکرسکے۔  مچھیرا وہا ں بھی پہنچ گیا لیکن قیمت طے نہیں ہو پائی اور  مچھیرا آخرکار  شہر کے سب سے بڑے سنار اور امیر شھر  کے پاس پہنچ گیا اور اسے موتی کا واقعہ سنایا ۔

عدیم المثال چیز ملی ہے تمہیں، میں تو گویا ایسی چیز دیکھنے کی حسرت میں ہی تھا ۔ امیر  شھر نے مچھیرا کو پیشکش کی کہ تم میرے خزانے میں چلے جاو۔ ادھر تمہیں 6گھنٹے گزارنے کی اجازت ہوگی۔ جس قدر مال و متاع لے سکتے ہو لے لینا، شاید اس طرح موتی کی کچھ قیمت مجھ سے ادا ہو پائے گی۔ آقا، 6گھنٹے۔ مجھ جیسے مفلوک الحال مچھیرے کے لئے تو 2گھنٹے بھی کافی ہیں۔

نہیں، 6گھنٹے، جو چاہو اس دوران خزانے سے لے سکتے ہو، اجازت ہے تمہیں۔
مچھیرا امیر  شہرکے خزانے میں داخل ہو کر دنگ ہی رہ گیا، بہت بڑا اور عظیم الشان ہال ، سلیقے سے تین اقسام اور حصوں میں بٹا ہوا، ایک قسم ہیرے، جواہرات اور سونے کے زیورات سے بھری ہوئی۔ ایک قسم ریشمی پردوں سے مزین اور نرم و نازک راحت بخش مخملیں بستروں سے آراستہ۔

اور آخری قسم کھانے پینے کی ہر اس شے سے آراستہ جس کو دیکھ کر منہ میں پانی آجائے۔ مچھیرے نے اپنے آپ سے کہا 6گھنٹے؟ مجھ جیسے غریب مچھیرے کے لئے تو بہت ہی زیادہ مہلت ہے یہ۔ کیاکروں گا میں ان 6گھنٹوں میں آخر؟خیر کیوں نا ابتدا کچھ کھانے پینے سے کی جائے؟ آج تو پیٹ بھر کر کھالوں گا ایسے کھانے تو پہلے کبھی  دیکھے بھی نہیں۔ اور اس طرح مجھے ایسی توانائی بھی ملے گی جو ہیرے، جواہرات اور زیور سمیٹنے میں مدد دے اور مچھیرا خزانے کی تیسری قسم میں داخل ہوا۔

اور ادھر اس نے امیر  شہر کی عطا کردہ مہلت میں سے دو گھنٹے گزار دیئے۔ اور وہ بھی محض کھاتے، کھاتے اور کھاتے ۔ اس دوران اسکی نظر ہیرے جواہرات کی طرف جاتے ہوئے، مخملیں بستروں پر پڑی، اس نے اپنے آپ سے کہا ۔ آج تو پیٹ بھر کر کھایا ہے۔ کیا بگڑ جائے گا اگر تھوڑا آرام کر لیا جائے تو اس طرح مال و متاع بھی جمع کرنے میں بھی مزا آئے گا۔ ایسے پر تعیش بستروں پر سونے کاا موقع بھی تو بار بار نہیں ملے گا اور موقع کیوں گنوایا جائے۔

مچھیرے نے بستر پر سر رکھا اور بس پھر وہ گہری سے گہری نیند میں ڈوبتا چلا گیا۔
اٹھ ۔ اٹھ اے احمق مچھیرے، تجھے دی ہوئی مہلت ختم ہو چکی ہے۔ ہائیں، وہ کیسے؟ جی، تو نے ٹھیک سنا ہے، نکل ادھر سے باہر کو۔ مجھ پر مہربانی کرو ، مجھے کا فی وقت نہیں ملا، تھوڑی مہلت اور دو۔ آہ۔ آہ۔ تجھے اس خزانے میں آئے  6 گھنٹے گزر چکے ہیں، اور تو اپنی غفلت سے اب جاگنا چاہتا ہے اور ہیرے جواہرات اکٹھے کرنا چاہتا ہے کیا؟ تجھے تو یہ سارا خزانہ سمیٹ لینے کے لئے کافی وقت دیا گیا تھاکہ جب ادھر سے باہر نکل جاتے تو ایسا بلکہ اس سے بھی بہتر کھانا خرید لیتا اور اس جیسے بلکہ اس سے بھی بہتر آسائش والے بستر بنواتا لیکن تو احمق نکلا۔

تو غفلت میں پڑ گیا۔  نہیں، نہیں، مجھے ایک مہلت اور دو، مجھ پر رحم کھا ؤ لیکن ایک نہ سنی گئی اور  مچھیرے کو وہاں سے باہر نکال دیا گیا اور وہ وہی پر رہ جاتا ہے جہاں سے وہ گیا تھا ۔
تو خواتین و حضرات آج کی  کہانی کا یہ اختتام ھے   اب ھم  اس کہانی کو اپنے روزمرہ کی زندگی میں لے کر  آتے ہیں یہ کہانی صرف ایک مچھیرے کی کہانی نہیں یہ ہم سب کی کہانی ہے خواہ وہ امیر ہے غریب ہے، مرد ہے یا عورت یہ   ھم سب کی کہانی ہے اور ہم اس کہانی کے جیتے جاگتے زندہ کردار ھیں اور جو قیمتی موتی ہے۔

یہ قیمتی موتی تمہا ری اور ہماری روح ہے یہ سب ابن آدم کی روح ہے  یہ وہ قیمتی چیز ہے جس کی کوئی قیمت ادا نہیں کرسکتا، اگر ارب پتی ہوں دنیا جہاں کے خزانے ہوں مگر جب روح ساتھ چھوڑ جائے تو کچھ بھی نہیں رہتا مثالوں سے دنیا بھری پڑی ہے قارون ، فرعون ، شداد، موجودہ دور میں بڑے بڑے رئیس اُن کے پاس دنیا جہاں کی نعمتیں تھیں مگر جب اس قیمتی چیز نے ساتھ چھوڑا تو وہ مٹی کے ہوگئے کہانی میں جو خزانے کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ حرص بھری دنیا ہے جس کے بارے میں ہم سب یہی سوچتے ہیں کہ ہم اس میں ابدی رہیں گے اور دنیا کے لئے سب کچھ کرتے ہیں، رشتے ناطے توڑتے ہیں، ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، پرآسائش زندگی کے لئے کوششوں میں دن رات ایک کرتے ہیں، اپنے مستقبل کو شاندار بنانے کے لئے دھوکہ دہی اور فریب کا راستہ اپناتے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اپنی پوری سعی کرتے ہیں۔

اپنے خزانے کو بھرنے کے لئے سب وہ کرتے ہیں جو ہمیں زیب نہیں دیتا۔ یعنی دنیا کے لئے ہم سب بہت کچھ کرتے ہیں جس کو ہم نے ایک دن چھوڑ کر جانا ہے اور یہ سب کچھ اس قیمتی چیز کے جاتے ہی سے  بے معنی رہ جائے گا جب روح ساتھ چھوڑ جائے گی تو یہ دنیا بے وقعت رہ جائے گی،کیا کبھی اس جانب نگاہ کی ہے کہ جو کہانی میں ہیرے جواہرات کا ذکر کیا گیا ہے وہ کیا ہے یہ وہ ہیرے جواہرات ہیں جو تمہارے کام آئیں گے اس کی وجہ سے ہم سب کی ابدی زندگیوں کا فیصلہ کیا جائے گا کہ جو زندگی ہمیں عنایت اور عطا کی گئی تھی اس میں ہمارے اعمال کیسے تھے یہ ہیرے جواہرات ہمارے اعمال صالحہ ہیں جو ہم اس دنیا میں کرتے ہیں جو راستے ہمارے لئے متعین کئے ہیں اچھا راستہ اور برا راستہ اب ہم کس راستے کا تعین کرتے ہیں کون سے اعمال اپناتے ہیں وہ اعمال جو ہمیں اچھائی کی طرف بلاتی ہے یا وہ اعمال جو ہمیں برے کاموں پر اکساتی ہے دنیا جہاں کی نعمتیں ایک طرف اور اچھے اعمال دوسری طرف ، یہ ابدی زندگی کا فیصلہ کرتے ہیں اور جو کہانی میں پرتعیش و پر آسائش بستر کی جانب اشارہ کیا گیا ہے یہ وہ غفلت ہے جس میں انسان پڑا رہتا ہے اور جب وقت نزع آتی ہے تو وہ بیدار ہوجاتا ہے اسی طرح کھانا اور پینا جو مچھیرے نے کیا وہ کھاتا ہی رہا اور کھاتا ہی رہا وہ ہماری وہ شہوات ہیں جس کو ہم نے اپنے سروں پر سوار کیا ہوا ہے امید ہے اب سب کچھ اور  آج کی  کہانی کا مطلب آپ کے  ذہن میں آچکا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :