کرم یافتہ لوگ

پیر 3 جنوری 2022

Nadeem Iqbal Khakwani

ندیم اقبال خاکوانی

سال 2021 ء بھی گزر گیا‘ ہر سال کی طرح یہ بھی کسی کے لئے خوشیوں کا سال تھا اور کچھ کے لئے مصائب و مشکلات کا دور۔ حاصل و موجود سے بیزاری اور لاحاصل کی تمناّ وبے قراری انسان کی سرشت میں ہے ۔تاھم ہر حال میں خوش اور مطمئن رہنے والے بندگان کچھ ھی ھوتے ھیں پر جو ھوتے ھیں وہ خاص لوگ اور  کرم یافتہ لوگ ھوتے ھیں۔ سال گزرنے پر عموماً ہم کیا کھویا‘ کیا پایا پر غور کرتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ جو کھویا وہ اپنی ہی غلطیوں‘ کمزوریوں اور بے تدبیریوں کا صلہ تھا اور یہ مقام شکر ہے کہ زندگی ابھی بھی  اپنی غلطیوں کو سدھارنے اور کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے موجود ہے‘ چاہیں تو نئے سال کو اپنے اور دوسرے کے لئے قابل رشک بنا سکتے ہیں۔

  دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے اور معاشرے کو جنت بنانے کا خواب‘ بہت سے اللہ کے بندے خلوص نیت سے یہ خواب دیکھتے اور موقع ملے تو کر گزرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

دوسروں کی آسودگی کے حقیقی خواہش مندوں کو دولت کے انبار درکار ہوتے ہیں نہ اقتدار و اختیار کے جھمیلوں میں پڑنا گوارا ھوتا ھے ۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ‘ حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخشؒ‘ حضرت معین الدین اجمیریؒ اور سینکڑوں دوسرے ایثار پیشہ بندگان خدا‘صدیوں سے انسانوں میں آسانیاں بانٹ رہے ہیں ۔

مزارات پر حاضری دینے والوں کو ذہنی سکون کے علاوہ تین وقت کا کھانا بھی دستیاب ہے اور ان سے کوئی یہ بھی نہیں پوچھتا کہ آپ کون ہیں؟ کہاں سے آئے؟ مستحق ہیں یا نہیں؟حضرت ابوالحسن خرقانیؒ نے اپنی درگاہ کے دروازے پر جلی الفاظ میں لکھوایا تھا’’ہر کہ دریں جا‘ مے آیدازنانش بہ پُر سید و از ایمانش مپرسید‘‘(جو بھی یہاں آئے اس سے کھانے کا پوچھو مسلک و عقیدے کی تفتیش نہ کرو) یہ اقتدار‘ دولت اور وسائل مانگنے والے نہیں‘ احسان کرنے والے لوگ ہیں جو گزرے سال کا ماتم کرتے ہیں نہ آئندہ سال سے بے جا امُیدیں وابستہ‘ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ چند برس کی ریاضت ‘ بے غرضی‘ بے نیازی اور عوام دوستی مرنے کے بعد ان کے مزارات کو بھی فیض رساں بنا دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ ایسوں پر کرم کرتا ہے تو پھر حدو حساب سے معاملہ آگے نکل جاتا ہے۔

یہی آسانیاں بانٹنے والے لوگ آج بھی زندگی میں اور بعداز مرگ آسانیاں بانٹ رہے ہیں‘ لاکھوں نہیں کروڑوں انسان ان کے طفیل آسانیاں بانٹنے کی جدوجہد میں مشغول ۔ ہم مگر اہل غرض اور اہل ہوس سال گزرنے پر بیٹھ کر اس ادھیڑ بن میں لگے رہتے ہیں کہ بقول شاعر احسان دانش
 یہ کیا نہیں ‘ وہ ہوا نہیں
یہ ملا نہیں‘ وہ رہا نہیں
واصف علی واصف ایک جگہ کرم یافتہ لوگوں کے بارے کچھ یوں لکھتے ہیں کہ ’’ جہاں تک میرا مشاھدہ ہے کہ میں نے جب بھی کوئی ایسا شخص دیکھا جس پر رب کا کرم تھا۔

اُسے عاجز پایا۔ پوری عقل کے باوجود بس سیدھا سا بندہ۔بہت تیزی نہیں دکھائے گا۔اُلجھائے گا نہیں۔ رستہ دے دیگا۔ بہت زیادہ غصّہ نہیں کریگا۔ سادہ بات کریگا۔میں نے کرم ہوئے شخص کومخلص دیکھا۔ اخلاص سے بھرا ہوا غلطی کو مان جاتا ہے معذرت کر لیتا ہے۔سرنڈر کر دیتا ہے جس پر بھی کرم ہوا ہے میں نے اُسے دوسروں کیلئے فائدہ مند دیکھا۔ اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپکی ذات سے کسی کو نفع ہو رہا ہو اور اللہ آپ کیلئے کشادگی کو روک دے۔

وہ اور زیادہ کرم کریگا۔میں نے ہر صاحبِ کرم کو احسان کرتے دیکھا ہے۔ حق سے زیادہ دیتا ہے۔ اُس کا درجن 13 کا ہوتا ھے، 12 کا نہیں۔ اللہ کے کرم کے پہیے کو چلانے کیلئے آپ بھی درجن 13 کا کرو اپنی زندگی میں اپنی کمٹمنٹ سے تھوڑا زیادہ احسان کر دیا کرو۔نہیں تو کیا ہو گا؟حساب پہ چلو گے تو حساب ہی چلے گا. دِل کے کنجُوس کیلئے کائنات بھی کنجوس ہو جاتی ہے۔

دل کے سخی کیلئے کائنات خزانہ ہے۔جب بھی کوئی ایسا شخص دیکھا جس پر ربّ کا کرم تھا، اُسے عاجز پایا۔ پوری عقل کے باوجود بس سیدھا سا بندہ۔ بہت تیزی نہیں دکھائے گا۔ اُلجھائے گا نہیں۔ رستہ دے دیگا۔ بہت زیادہ غصّہ نہیں کریگا۔ سادہ بات کریگا۔ میں نے ہر کرم ہوئے شخص کو مخلص دیکھا غلطی کو مان جاتا ہے۔ معذرت کر لیتا ہے۔ سرنڈر کر دیتا ہے۔آسانیاں دو، آسانیاں ملیں گی‘‘.واصف علی واصف صاحب ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جس پہ کرم ہے، اُس سے کبھی پنگا نہ لینا۔

وہ تو کرم پہ چل رہا ہے۔ تم چلتی مشین میں ہاتھ دو گے، اُڑ جاؤ گے۔ کرم کا فارمولا تو کوئی نہیں۔اُس کرم کی وجہ ڈھونڈو۔ جہاں تک میرا مشاہدہ ہے، جس پر کرم ہوا ہے نا، میں نے اُسے دوسروں کیلئے فائدہ مند دیکھا۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کی ذات سے نفع ہو رہا ہو، اور اللہ آپ کیلئے کشادگی کو روک دے۔ وہ اور کرم کریگا۔میں نے ہر صاحبِ کرم کو احسان کرتے دیکھا ہے۔

حق سے زیادہ دیتا ہے۔ اللہ کے کرم کے پہیے کو چلانے کیلئے آپ بھی اپنی کمٹمنٹ سے تھوڑا زیادہ احسان کر دیا کرو۔ نہیں تو کیا ہو گا؟ حساب پہ چلو گے تو حساب ہی چلے گا! دل کے کنجوس کیلئے کائنات بھی کنجوس ہے۔دل کے سخی کیلئے کائنات خزانہ ہے۔جب زندگی کے معاملات اڑ جائیں سمجھ جاؤ تم نے دوسروں کے معاملات اڑائے ہیں۔ ''آسانیاں دو آسانیاں ملیں گی''آج بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ تصوف کیا ہے؟صوفی ازم کیا ہے؟ ہمارے معاشرے میں اولیا اللہ ,بزرگانِ دین یا صوفیا کے بارے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ والا وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں تسبیح ہو ,کندھے پر جائے نماز ہو, کپڑے پرانے سے ہوں ,بال بڑھے ہوں لیکن حقیقت میں یہ تصوف کی پہچان نہیں ہے ۔

اسلامی تصوف سے مراد صوفی وہ بندہ ہوتا ہے جو قرب الٰہی کے بعد وہ مقام پالیتا ہے جس کے بعد وہ لوگوں کیلئے آسانیاں بانٹنے کا کام شروع کردیتا ہے اسکے اندر کی روشنی اس کے اردگرد بیٹھنے والوں کے دلوں پر بھی اثر کرنے لگتی ہے ۔تزکیہ نفس کرتا ہے تو اُ سکی روح انوار الہی سے منور ہوتی ہے دنیا اور دنیا کی آسائشوں سے دور رہتا ہے ۔رب کے بندوں کو رب کے قریب کرنے کی کوشش کرتا ھے ۔

ایسے کرم یافتہ لوگ ھی اصل میں زندگی کا حسن ھیں اور کرم ان پہ ھوتا ھے جو سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات کے معیار پر پورا اترتا ھیں۔ ارشاد باری تعالٰی ھے
جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں  اور نماز کو قائم رکھتے ہیں  اور ہمارے دیئے ہوئے ( مال  ) میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا  اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں ۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی ھم سب کو آسانیاں تقسیم کرنے والوں میں شامل رکھے اور ھم سب پہ اپنا خاص کرم فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :