ادھورے خواب

بدھ 5 جنوری 2022

Nadeem Iqbal Khakwani

ندیم اقبال خاکوانی

شاید  دسمبر کی یخ بستہ رات کا تیسرا پہر تھا، میں کچی پکی نیند میں تھا کہ اچانک کسی نے میرے داہنے پیر کا انگوٹھا آہستگی سے ہلایا، مجھے لگا  شاید کہ میرا وہم ہے، میں نے کروٹ بدلی پر ایک مرتبہ پھر کسی نے پیر کا انگوٹھا  دبا کے دھیرے سے ہلایا ، اس بار میں چونکا اور جھٹ سے اٹھ کے بیٹھ گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ پائنتی کی جانب میرے کچھ خواب کھڑے تھے، رنگ برنگے سنہری سونے کے خواب، جوں ہی میں اٹھ کے بیٹھا تو ان میں  سب سے  چمکیلا کانچ کا خواب مجھ پہ نظریں جماۓ کمرے سے باہر کی سمت بڑھنے لگا اور ساتھ  اپنی انگلیوں کو ہتھیلی کی جانب موڑتے ہوۓ  مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرنے لگا، باقی خواب بھی اسی کے ساتھ ہو لیے،  میں بھی غیر اختیاری طور پر ان کی پیچھے خوابیدہ حالت میں چلتا ہوئے باہر دالان تک جا پہنچا ۔

(جاری ہے)


  پورے چاند کی روشنی جامن کے پیڑ سے چھنتی ہوئی چہار سو بکھر رہی تھی اور وہاں  دالان کے بیچ و بیچ بنے خوبصورت حوض کے ساتھ ہی  میرے کئی خواب پہلے سے منتظر  سنگ مرمر کی فرش پہ گول دائرہ بنائے بیٹھے ہوۓ تھے، اس چمکیلے کانچ کےخواب نے میرا ہاتھ پکڑ کے ان خوابوں کے گول دائرے کے بیچ رکھی مخملی فرشی نشست پہ مجھے بٹھا دیا۔
میں نے غور سے اپنے آس پاس بیٹھے خوابوں کو دیکھا میرے بالکل سامنے ایک خواب گھٹنوں میں سر دیے اداس بیٹھا تھا، میں نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور اس کا مزاج پوچھنا چاہا کہ کہو کیا حال؟ کیسی گزر رہی ہے؟۔

۔ تب ہی اس نے دھیرے سے سر اٹھا کے میری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا کہ جیسے پوچھتا ہو کیوں؟۔۔۔۔ کیوں مجھے ادھورا چھوڑا؟۔۔۔۔کیوں مجھے مکمل نہ کیا؟۔۔۔اس کی استفہامیہ نگاہوں میں تیرتی نمی کی تپش مجھے اپنے گالوں پہ محسوس ہوئی کہ گویا کسی دہکتے الاؤ کے بےحد نزدیک آ بیٹھا ہوں میں _
عجیب کیفیت تھی، مجھے تو لگتا تھا کہ یہ سب خواب محض میرے ذہن کی اختراع ہیں، میری ہی تخلیق ہیں پر ناجانے کیوں ان کے درمیان بیٹھ کے یہ انکشاف ہوا  جیسے وہ سب یہ سمجھ بیٹھے ہوں  کہ  میرےوجودکی بُنت ان ہی کا کارنامہ ہے، میرے خال و خد ان ہی کی مرہون منت ہیں، کہ جیسے مجھے گُوند کے ایک شکل میں انہی نے ہی ڈھالا ہو، کہ جیسے میرے نقش اور زاویے انھی نے ہی ترتیب دیے ہوں،کتنے ہی ڈوبتے ابھرتے سوالوں کا ایک طوفان امڈ آیا تھا،   ان سوالوں کو بِینتے بِینتے ان کی جلن میری انگلیوں کے پوروں پہ صاف محسوس ہونے لگی تھی۔


 ابھی میں ان سوالوں کا جواب تلاش ہی رہا تھا کہ ایسے میں  دو رنگین اور سنہری خواب اٹھ کر میرے نزدیک آۓ سنہری خواب نے میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما اور شفیق سی مسکراہٹ لبوں پہ سجاۓ پوچھا کہ، "کہو کیوں مضطرب ہو؟ میں مدد کروں کچھ؟ دیکھو تم اپنا بالکل خیال نہیں رکھتے،لاؤ تمہارے بال سنوار دوں؟"۔۔۔۔مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس سنہری خواب کا لمس اکسیری تاثیر لیے ہو، جیسے کسی نے جسم پہ پڑے نیل پر برف کی ڈلی رکھ دی ہو۔

۔۔۔۔
تب ہی رنگین خواب جھکا اور اس نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ،" سنو! مجھ سے کہو میں کسی سے نہیں کہوں گا، چپکےسے مجھے بتا دو۔۔۔ بھروسہ کرو مجھ پہ"۔۔۔۔۔ میں  مسکرایا،  اچانک  میرے پیچھے سے آئی ایک  کرخت آواز نے  مجھے بری طرح چونکا دیا، دیکھا تو سرخ خواب بے حد خفا، کہنے لگا کہ،"  سنو کب تک یوں تمہارے درد بہلاؤ میں؟ بہت روتے ہیں یہ کم بخت ،انہیں تم کب لے جاؤ گے؟۔

۔۔۔۔۔اب مزید نہیں سنبھلتے مجھ سےیہ"۔۔۔۔اس خواب کا سرخ دہکتا روپ دیکھ مجھے ایک خوف کی لہر اپنے وجود  سے ٹکراتی  محسوس ہوئی، میں وہاں سے اٹھ کر بھاگ جانا چاہتا تھا کہ اس سرخ خواب کے سامنے مزید ٹھہرنامشکل ہو رہا تھا میرے لیے، میں اُٹھا،تب ہی ایک ننھے منے سے خواب نے آکے میرا دامن تھام لیا،  اسے ہلکا ساجھٹکا دیتے ہوۓ مجھے  اپنی جانب متوجہ کیا اور کہنے لگا، ارے اس کی بات کو دل سے نہ لگانا یہ تو پتہ نہیں کیوں ہر دم یوں ہی خفا رہتا ہے؟،دیکھو ڈرو مت۔

۔۔۔ تم یہ درد یہ خوف میرے بستے میں ڈال دو"، اس نے اپنی کمر پہ ٹنگے بستے کو میری جانب گھمایا اور کہا کہ "تم فکر نہ کرو تمہارا کچھ بوجھ تو میں بھی اٹھا لوں گا"، اس کی معصوم مسکراہٹ میں راحت چھپی تھی جس کی مہک سے میرا تمام خوف جاتا رہا ۔۔۔۔
وہیں اس کمرے میں  بہت دیر سے ایک  خواب  میری توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا، پیچھے ایک کونے میں بیٹھا وہ خواب مجھے ٹکٹکی باندھے  مسلسل دیکھے جا رہا تھا، بنا پلکیں جھپکائے، کچھ تو تھا اُن آنکھوں میں اُن کی چمک اُن کا رنگ۔

۔۔۔۔ارے یہ تو بالکل تمہاری آنکھوں جیسا تھا، وہی رنگ، وہی دودھیا سفید پانی میں تیرتا گہرا کتھئی کنول۔۔۔۔ پر نہ جانے  اب ان آنکھوں میں میرا عکس کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔۔کیوں؟۔۔۔۔۔۔
سینکڑوں خواب تعبیر کے منتظر ، ہر خواب دوسرے سے مختلف رنگ برنگا، اچھوتا، ہر خواب اپنا الگ وجود لیے اپنے ہونے کا احساس دلاتا، لیکن۔۔۔۔۔ وہ تمام خواب میری ہی آنکھوں میں ٹھہرے ویران شہر کے باسی ہی تو تھے، ان بےجان خشک ہوتی پُتلیوں کے پیچھے موجود بپھرے سمندرکے کنارے  پیروں سے لپٹتی نمی کی طرح۔

۔۔۔تب میں نے جانا کہ جن ساعتوں میں  حقیقت اور تصور کی وادیوں کے بیچ  میں ان کی تکمیل کی ناکام سعی کر رہا تھا عین اُسی لمحے  وہ بھی مجھے مکمل کرنے کی تگ ودو میں جُٹے تھے، لیکن۔۔۔۔۔افسوس۔۔۔۔۔کہ ہم سب ادھورے رہ گئے ۔۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :