میرا سفر حیات

ہفتہ 24 اپریل 2021

Nadeem Iqbal Khakwani

ندیم اقبال خاکوانی

 گھڑی کی ”ٹک ٹک“ وقت کے گزرنے کا احساس دلاتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے ، گزرے وقت کے پچھتاوے کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وقت کے کھو جانے کا غم ہمیشہ ستاتا ہے۔  کتنے ہی بلند مقام و مرتبے پر پہنچ جائیں ، کتنی ہی عمر ہوجائے ، کبھی نہ کبھی لاشعور میں مٹی میں کھیلتے ، بے پروا، معصوم شرارتوں سے مزین بے شمار یادیں کبھی چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں تو کبھی آنسو بن کر بہہ نکلتی ہیں۔

ساری عمر دل و دماغ کے نہاں خانوں میں کہیں نہ کہیں بچپن کاد ور جگمگاتا رہتا ہے جس میں چھوٹی چھوٹی معصومیت، نادانیاں، اٹکھیلیاں، حماقتیں اور والدین سے بے وجہ ضد اور پھر بے شمار دلکش اور دلچسپ باتیں، دلربا یادیں وغیرہ ایسے لمحات ہیں جو زندگی کا قیمتی اثاثہ کہلاتے ہیں جو سینے میں یادوں کی شکل میں دفن ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

جب زندگی کے اوراق پلٹتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کب زندگی کی اتنی ساری سڑھیاں پھلانگ ڈالیں، خبر تک نہیں ہوئی۔

  یہ کوئی نصف صدی قبل کا واقعہ ہے کہ راقم الحروف کی پیدائش ایک متوسط،  نظم و ضبط کے حامل ،دیندار  گھرانےمیں ھوئی۔ راقم الحروف اپنے والدین کا سب سے آخری اور چھوٹا چشم و چراغ ھے۔ اور آج تک چھوٹا ھی ھے  بڑوں کے سائے میں رھنے میں ھی عافیت جانتا ھے۔ میرا بچپن،لڑکپن اور جوانی والدین کے سائے میں  انکی تابعداری اور رعب میں گزری اور اب جب انکی ضرورت زیادہ شدید ھے تو انکا سایہ میسر نھیں اور میں کڑی دھوپ میں اکیلا بے یارومددگار کھڑا ھوں ایک بے چینی ھے ایک درد ھے جس کو سنانے کے لئے کاغذ قلم کا سہارا لیا ھے یہ انتظام بنیادی طور پر خود کلامی کے زمرے میں سمجھا جائے ۔

کوئی تو ہو ، جو پوچھے ،کیوں میرے  اندر اداسی ہے مرے دل کے گھروندے کی صراحی کتنی پیاسی ہے۔  والدین  کی  قربتیں،  شفقتیں خوشبو کی طرح مجھ سے لپٹی ھوئی ہیں میں اب دل کی ہلچل میں والدین کی  فرقتوں کا درد بھر لیتا ہوں  والدین کے چلے جانے کا دکھ  ایسا کہ لگتا ھے دل پھٹ جائے گا غم ھے ایسا کہ سہا نہیں جا رہا زندگی سے دل اچاٹ ھو گیا ھے ان کے  پرنور محبت سے بھرے شفیق مہربان چہرے آنکھوں سے اوجھل ھو گئے  ھےجن کی طرف میں دیکھتے ہی سارے دکھ درد بھول جایا کرتا تھا جن کی طرف اک نگاہ کرنے سےدل خوشی سے کھل جایا کرتا تھا ۔

اب  میں ان کو  کہاں سے ڈھونڈکے لاؤں میرے سر پہ جو انکی  دعاؤں کی چادر تھی وہ چھن گی مجھ سے میں اکیلا رہ گیا  ھوں  ۔ انکے بغیر ہر پل اداس رھتا ھوں ۔ والد محترم کی وفات کے23 سال بعد جب اماں جی رخصت ہوئیں تو  زندگی کی گرھیں اب آہستہ آہستہ آشکارا ھونی شروع ھوئی ھیں ۔ معروف ادیب و افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کہتے ہیں ’’زندگی کیا ہے؟ … یہ میری سمجھ میں نہیں آتا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ اونی جراب ہے، جس کے دھاگے کا ایک سرا ہمارے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔

ہم اس جراب کو ادھیڑتے رہتے ہیں، جب ادھیڑتے ادھیڑتے دھاگے کا دوسرا سرا ہمارے ہاتھ میں آ جائے گا تو یہ طلسم جسے زندگی کہا جاتا ہے ٹوٹ جائے گا۔ زندگی کو تم استعارہ کہو، تیرگی کا اک نظارہ کہو یا شبنم کا وہ قطرہ جو سورج نکلنے تک باقی رہا یا پھر وصل و فراق کے بیچ الجھتا لمحہ، افلاس سے لڑتا ہوا سکہ، تمہارے قانون کی ایک حد یا مردہ تہذیبوں کی لحد، تم اسے جو بھی کہو، کوئی بھی نام دو، مگر میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ ’’زندگی‘‘ صرف موت تک پہنچنے کا ایک راستہ ہے اور مجھے اس سے انتہا کا پیار ہے۔

‘‘ تو بس منٹو کی پیروی میں مجھے بھی زندگی سے پیار ھے لیکن والدین کے بنا زندگی بے کیف ھے بے رونق ھے نامکمل ہے ۔ ایک معمولی متوسط ذہانت رکھنے والا عام متوسط گھرانے کی سوچ کے مطابق پڑھتا ھوا ابلاغیات کی ماسٹر ڈگری مکمل کر نے کے بعد والد محترم کی شدید خواہش پر قانون کی تعلیم بھی مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں آنے کے لیے کمر بستہ ھے۔

راقم کی خواہش ابلاغیات کے میدان میں قسمت آزمائی کی ھے لیکن اللہ سبحانہ تعالی کے اپنے فیصلے ھیں اور ان فیصلوں پر کسی کا بس نہیں چلتا ۔ اور یوں قانون کی تعلیم کی بنیاد پر سرکار کی نوکری مل جاتی ھے 1998 سے لیکر آج تک سرکار کی نوکری کر رھے ھیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اللہ سبحانہ تعالی نے سرکار کی نوکری کے ذریعہ رزق حلال کا وسیلہ بنایا ھوا ھے۔

رب العزت نے مجھے میری اوقات سے ذیادہ عطا کیا ھے اور الحمداللہ میں  اپنے رب کی طرف سے سب سے زیادہ نوازا گیا ھوں ۔ زندگی کی تمام ضروریات اور خواہشات بحسن پوری ھو رھی ھیں بس ایک قلق ہے تو والدین کی جدائی کا جو  اماں جی کے بعد شدید ھو گیا ھے۔ایام گزارنے تو ھوں گے  ایک اطالوی شاعر کہتا ہے:
اے میرے بچے
زندگی کرسٹل کی سیڑھیاں تو نہیں
یہ تو بہت سخت ہے
مانند لوہے کی میز کے
مانند بغیر قالین کے فرش کے
مگر اے میرے بچے
تو نے رکنا نہیں
کہ رکنا زیادہ اذیت ناک ہو گا
تجھے آگے بڑھنا ہے
تجھے زندہ رہنا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :