دائرے کا سفر

منگل 25 مئی 2021

Nadeem Iqbal Khakwani

ندیم اقبال خاکوانی

وہ سردیوں کی ایک یخ بستہ شام تھی۔  ایک بوڑھا شخص جس کا دھندلا سا خاکہ آج بھی ذہن کے گوشہ میں موجود ھے چس نے پہلی بار مجھے دائروں کے قیدی کی اصطلاح سے متعارف کرایا تھا ۔ وہی بو ڑھا شخص جس نے ایک خنک شام میں بتایا کہ ہم سب دائروں کے قیدی ہیں۔   بابا جی کی اس بات نے مجھے ایک دم کے لیے چونکا دیا تھا ۔ میری وضاحت طلب نظروں کو دیکھتے ہوئے بابا جی نے فرمایا کہ بیٹا  ھم  سب نے خود ساختہ دائرے بنائے ہوئے ہیں اور ہم زندگی بھر انہی دائروں میں گھومتے رہتے ہیں۔

“انا, ضد, اور مجبوریوں کی زنجیریں آپ کو ان دائروں سے نکلنے نہیں دیتیں "بیٹا "۔ با با جی اپنی مستی میں بولتے جا رھے تھے اور میں دم بخود ان کے چہرے پر ٹکٹکی باندھے دیکھ رھا تھا۔ وہ بول رھے تھے کہ
“دائروں کے اس سفر میں اڑنے والی گرد کبھی خوابوں کو حسرتوں کی چادر پہناتی ہے تو کبھی خواہشات کو اپنے گرداب میں لے لیتی ہے۔

(جاری ہے)

سفر پھر بھی چلتا رہتا ہے۔

دائروں کے مسافر بھی تھک ہار کے سود و زیاں, حاصل و لا حاصل کا حساب کرتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کو لا حاصل کا احساس وقت و عمر کے نکل جانے پر ہوتا ہے۔ ایک عمر کے سفر کے بعد علم ہوتا ہے کہ جسے منزل سمجھے تھے, وہ تو وہی مقام آغاز مقام ہے جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔”
بوڑھا شخص اب خاموش ہو چکا تھا۔“ان دائروں سے آزاد کیسے ہوتے ہیں بابا جی؟” میں نے اس بوڑھے شخص سے سوال کیا ۔


“ان زنجیروں کو تھوڑا سا ڈھیلا چھوڑے رکھنا بیٹا۔ دائروں سے آزاد رہو گے۔”
با با جی تو چلے گئے اور میں دائروں کے سفر کو محسوس کر رھا تھا۔ نا مکمل محبتوں کے دائرے, بھٹکتی یادوں کے دائرے, ان کہی باتوں کے دائرے, رسم و رواج اور اصول دنیا کے دائرے, مجبوریوں میں بندھے رشتوں کے دائرے, نسلوں سے چلتی نفرتوں کے دائرے۔
شاید بوڑھا ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔

دائروں کے مسافر!
دائروں کا سفر۔ جب ذرا اور سوچا تو علم ہوا کہ دائروں کا سفر محض انسان کی انفرادی زندگی تک ھی محیط نھیں ھے بلکہ کچھ ممالک اور اقوام بھی اسی سفر کے گرد گھومتے رھتے ھیں منیر نیازی  فرماتے ہیں:
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
اب زرا غور کیجیے کہ بنگلہ دیش جسے بنگلہ دیش لکھتے ھوئے کلیجہ منہ کو آتا ھے اور میری نسل کے لوگ شاید مرتے دم تک اسے مشرقی پاکستان ھی کہتے رھیں گے۔

جو ہم سے 24 سال بعد آزاد ہوا۔ ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آج کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور ہم ابھی تک دائروں میں سفر کر رہے ہیں۔ پائیدار ترقی کیلئے نظام کا تسلسل ضروری ہوتا ہے لیکن ہم ہر چند سال بعد نیا تجربہ کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور یوں ہم وہیں کے وہیں کھڑے رہتے ہیں جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا ہوتا ہے۔ ھماری مٹال اس مالی کی سی ھے جو ھر 15 دن بعد پودے کو اکھاڑ کر دیکھتا ہے کہ پودے نے جڑ پکڑ لی ھے یا نھیں ۔


ھمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی اپنا کام نہیں کرتا البتہ دوسرے کے کاموں میں دخل دینا فیشن بن گیا ہے۔ ڈاکٹر حضرات طب کا پیشہ چھوڑ کر ٹی وی اینکر بن بیٹھے ہیں۔ کرکٹ کے ریٹائرڈ کھلاڑی کو کھیل کی بہتری کیلئے کرکٹ بورڈ میں لگانے کے بجائے ملک کا وزیراعظم بنا دیا جاتا ہے۔ ججز موومنٹ کے بعد وکلا کسی قانون کے تابع نہیں رہے، وہ اب ججز کو احکامات جاری کرتے ہیں اور تعمیل نہ ہونے پر عدالتوں کو تالے لگا دیتے ہیں۔

ہسپتال، یونیورسٹی اور ذرائع مواصلات درست کرنے کیساتھ ساتھ ڈیم بنانے کا فریضہ بھی وہ لوگ اپنے  سر لے لیتے ہیں جن کا یہ کام نھیں ھوتا اور ظاہر ہے اتنے کام کرنے کے بعد ان بیچاروں کے پاس وقت کہاں بچتا ہے جو وہ اپنا اصل  کام کریں۔مختصرا آپکو نظام انصاف کے ایک شعبہ پراسیکوشن کی مٹال دیتا ہوں قیام پاکستان سے لیکر آج تک تجربات کی آماجگاہ بنا ھوا ھے کبھی پولیس کے پاس تو کبھی محکمہ قانون کے ماتحت پھر پولیس کے پاس پھر آزاد لیکن وھی دائرے کا سفر وھیں پر موجود ھے جہاں سے شروعات ھوئی تھیں۔

اندھی نفرت اور عقیدت نے ھم سے سب کچھ جھین لیا ہے سیاسی نا پختگی مذھبی ، عدم برداشت ، تقلیدی انداز فکر، دانشورانہ بد دیانتی وغیرہ نے وطن عزیز پاکستان کو بھی دائروں کے سفر تک محدود کر رکھا ھے۔
 یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی عقل کل نہیں۔ ہم پہلے ہی قومی زندگی کے 74 قیمتی سال ضائع کر چکے ہیں اور ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ادارے مل کر بیٹھیں کھلے دل سے ماضی میں کی گئی غلطیوں کا اعتراف کریں، اپنی حدود کا تعین کریں، ایک میثاق پر دستخط کریں اور پھر صدق دل سے اس پر کاربند رہیں ورنہ دائروں کا یہ سفر یونہی جاری رہے گا اور ہم عالمی برادی میں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :