اماں جی

جمعہ 16 اپریل 2021

Nadeem Iqbal Khakwani

ندیم اقبال خاکوانی

راقم الحروف چونکہ اماں جی کا سب سے چھوٹا بیٹا ہے اسی باعث وہ راقم الحروف کو میرا " ندیما" کہہ کر بلاتیں۔ گوکہ اماں جی کا ندیما خود ایک سفید ریش بزرگ کا روپ دھار چکا ہے، ہر اولاد کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ اس کی ماں اسے سب سے زیادہ چاہتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ماں کا پیار تمام اولاد کے لیے یکساں ہی ہوتا ہے ۔ البتہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ میری اماں جی سب سے زیادہ مجھے پیار کرتی تھیں۔

لفظ "تھیں" لکھنے کا حوصلہ بناتے بناتے نا معلوم کتنے صفحات ضائع کئے لیکن تقدیر سے کسی کو مفر نھیں ۔ اماں جی کے لیے جب لکھنے لگا تو پھلا سوال یہ ذھن  میں آیا کہ ماں کیسے بنی ؟ ایک دن آسمانوں کے فرشتوں نے رب سے کہا ۔۔۔ زمینی مخلوق سےکچھ ہمیں دکھلایے ۔۔۔ رب نے حجاب اُٹھایا ۔

(جاری ہے)

۔ فرشتوں کو بلایا ۔۔۔ رب نے ایک مجسمہ دکھایا ۔۔۔ ایک مجسمہ ۔۔

۔ خوبصورت روشن مجسمہ ۔۔۔ جسے کلیوں کی معصومیت ۔۔۔ چاندنی سے ٹھنڈک ۔۔۔گلاب سے رنگت ۔۔۔ قمری سے نغمہ ۔۔۔ غاروں سے خاموشی ۔۔۔ آبشاروں سے موسیقی ۔۔۔ پھول کی پتی سے نزاکت ۔۔۔ کوئل سے راگنی۔۔۔ بلبل سے چہچہاہٹ ۔۔۔ چکوری سے بے چینی ۔۔۔ لاجونتی سے حیا ۔۔۔ پہاڑوں سے استقامت ۔۔۔ آفتاب سے تمازت ۔۔۔ صحرا سے تشنگی ۔۔۔ شفق سے سرخی ۔۔۔ شہد سے حلاوت ۔

۔۔ شب سے گیسو کے لئے سیاہی ۔۔۔ سرو سے بلند قامتی لےکر بنایا ۔ اس کی آنکھوں میں دو دیئے روشن تھے ، اس کے قدموں تلے گھنے باغات تھے ، اس کے ہاتھوں میں دعائوں کی لکیریں تھیں ۔۔۔ اس کے جسم سے رحمت و برکت کی بو آتی تھی ۔۔۔ اس کے دم میں رحم کا دریا موجزن تھا ۔۔۔ اللہ تعالٰی نے اسے ایک گوشت کا لوتھڑا عطا کیا ( یعنی بچہ )‌اس مجسمے نے اسے غور سے دیکھا ۔

۔۔ اس کی آنکھوں میں محبت کے دیپ جلائے اور خود اندھا ہوگیا۔اپنی بہار کے سب پھول اسے دے دیے ۔
اپنے ہاتھوں کی دعائوں کو اس کے سر پر سایہ بنایا ۔
اپنے قدموں‌کے گھنے باغات اُٹھاکر اسے دے دیے ۔اپنا سکون اسے دے کر خود بے سکون ہوگیا۔اپنی ہنسی اس کے نام کردی ، خود خاموشی لے لی ۔سُکھ اسے دے دیا اور خود آنسو لے لئے ۔فرشتوں نے حیرانی سے پوچھا ۔

۔۔ یا اللہ یہ کیا ہے ؟اللہ نے فرمایا یہ ماں‌ ہے ۔اللہ نے فرمایا یہ ماں‌ ہے ۔قدرت کے اس حسین تحفے کی آج تعریف کرنے کی کوشش کر رھا  ھوں
مگر مجھے وہ الفاظ نہیں ملتے کہ جن میں اظہار کروں،جب راقم الحروف ابلاغیات کا طالب علم تھا تو پڑھتا تھا کہ اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کی رکاوٹوں میں  زبان و بیان بھی ایک رکاوٹ ہے اماں جی کے لیے لکھتے ہوئے آج کتابوں میں لکھا ھوا بخوبی سمجھ آ گیا ۔

ہر لفظ اسکی عظمت کے سامنے چھوٹا لگ رہا ہے ،رشتوں کو پیار کی ڈوری میں پروئے ہوئے ہر لحظہ خیرکی طلبگار وہ ہستی میری اماں جی  ہے جس کے احسانات کا بدلہ کبھی بھی نہ چکا سکوں گا اماں جی  اگر ایک طرف سچائی کے جذبے کا نام ہے تو دوسری طرف محبت کی باز گشت بھی یہیں سے آتی ھے ۔ اماں جی 7 اپریل بروز بدھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں اور انکا ندیما  بھری دنیا میں اکیلا رھا گیا کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ زخم مندمل ھو جاتے ہیں مگر یہ دکھ تو عمر کے ساتھ ہی ھے وقت گزر رھا ھے  اپنی جنت سے دور ھوۓاور  وہ پیارا حسین پرنور چہرہ اپنی پوری جزہیات کے ساتھ آنکھوں کے سامنے ھمیش  رھتا ھے۔


جاگتے سوتے میں بھی اور معمولی تکلیف پر بھی ہاۓ ماں جی ہی کیوں منہ سے نکالتا ھے ۔اماں جی کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ اماں جی شفقت ، خلوص ، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام تھیں۔ اماں جی کو سوچتے ہی ایک محبت ، ٹھنڈک ، پیار اور سکون کا احساس ہوتا ہے ۔ ان  کا سایہ ہمارے لئے ٹھنڈی چھاوں کی مانند تھا  ۔

چلچلاتی دھوپ میں اس کا دستِ شفقت شجرِسایہ دار کی طرح سائبان بن کر ھم سب اولاد  کو سکون کا احساس دلاتا تھا ۔ اس کی گرم گود سردی کااحساس نہیں ہونے دیتی تھی ۔ خود بے شک کانٹوں پر چلتی رہی ، مگر اولاد کو ہمیشہ پھولوں کے بستر پر سلایا  اور دُنیا جہاں کے دکھوں کو اپنے آنچل میں سمیٹے لبوں پر مسکراہٹ سجائے رواں دواں رہی۔  اِس سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی دُنیا میں پیدا نہیں ہوئی ،آندھی چلے یا طوفان آئے، اُس کی محبت میں کبھی کمی نہیں آئی  ۔

وہ نہ ہی کبھی احسان جتاتی اور نہ ہی اپنی محبتوں کا صلہ مانگتی تھی  بلکہ بے غرض ہو کر اپنی محبتیں  اولاد پر نچھاورکرتی رہتی تھی ۔ یہ حقیقت ہے کہ اماں جی  کی محبت ایک بحر بیکراں کی طرح ہے ۔ اماں جی کی بے پایاں محبت کو لفظوں میں نہیں پُرویا جا سکتا ۔خلوص و ایثار کے اس سمندر کی حدود کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔اماں جی ایک دُعا تھیں  جو ہر وقت ربّ رحیم کے آگے دامن پھیلائے رکھتی تھی ۔

ہر رشتے میں خود غرضی شامل ہو سکتی ہے مگرا ماں جی کے رشتے میں کوئی خود غرضی شامل نہیں تھی  ۔ ا ماں جی  کی زندگی کا محور صرف اور صرف اُس کی اولاد تھی  ۔ ھم دُنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جاتے اُس کی دُعائیں سائے کی طرح پیچھا کرتیں اور اُس کی دُعاوں  ںسے بڑی سے بڑی مصیبت ٹل جاتی  ۔اماں جی  علامہ اقبال ؒ کے اس شعر کے مصداق تھیں
میری ماں کا چہرہ بھی اتنا حسین ہے تسبیح کے دانوں کی طرح اقبال
میں پیار سے دیکھتا گیا اور عبادت ہوتی گئی ۔


اماں جی نے والد محترم کے بعد 23 سال تک بطور والد اور والدہ مرکز بن کر تمام اولاد کو اکھٹا رکھا اور تمام اولاد کی کامیابی کے لیے دعا گو رھیں بیشک میری تمام تر کامیابیاں میری اماں جی  کی تربیت اور اُن کی دُعاوں اور میرے والد بزرگوار کی شفقت پدری کی مرہون منت ہیں۔ میری زندگی کا ایک دن 7 اپریل 2021 جب اماں جی رخصت ہوئیں  اور میں یکلخت تنہا ھو گیا ۔

اماں جی اب کسی کا ہاتھ سر پہ ہو ،تو لگتا ہے تم آئی ہو۔
اماں جی کوئی تو ہو ، جو پوچھے ،کیوں میرے  اندر اداسی ہے مرے دل کے گھروندے کی صراحی کتنی پیاسی ہے۔  اماں جی   تمہاری قربتیں، تمہاری شفقتیں خوشبو کی طرح مجھ سے لپٹتی ہیں میں اب دل کی ہلچل میں تمہاری فرقتوں کا درد بھر لیتا ہوں
ا ماں جی  آسمانوں سے تجھے لاؤں یہاں کیسے
نجانے کون سی دنیا میں جا کے بس گئی ہو اماں جی
بڑا محروم موسم ہے تمہاری یاد کا،
اماں  جی ۔

۔۔!!
دکھ ھے ایسا کہ لگتا ھے دل پھٹ جائے گا غم ھے ایسا کہ سہا نہیں جا رہا زندگی سے دل اچاٹ ھو گیا ھے آپ کا  پرنور محبت سے بھرا شفیق مہربان چہرہ آنکھوں سے اوجھل ھو گیا ھےجس کی طرف میں دیکھتے ہی سارے دکھ درد بھول جایا کرتا تھا
جس کی طرف اک نگاہ کرنے سےدل خوشی سے کھل جایا کرتا تھا اماں جی میں تجھے کہاں سے ڈھونڈکے لاؤں میرے سر پہ جو تیری دعاؤں کی چادر تھی وہ چھن گی مجھ سے میں اکیلا رہ گیا  ھوں اماں جی ہر پل اداس رھتا ھوں  تیرے بغیر
زخم ابھی بالکل تازہ ھے۔دکھ کا ایک پہاڑ ھے ۔ اماں جی! آپ بھلا سوئی کہاں ہیں، کاش کوئی انہیں سمجھائے، مائیں سویا نہیں کرتیں، وہ اپنی دعائوں کے ساتھ اپنی اولاد پر ہمیشہ سایہ فگن رہتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :