مشاہدہ کیا ہے؟ تجربہ کیا ہے؟

بدھ 2 جون 2021

Nafeesa Ch

نفیسہ چوہدری

اپنی استطاعت اور ذہنی سطح کے لیول کیمطابق پوری کوشش کروں گی کہ آپ کو اُلجھائے بغیر اس نقطے کو پایہ تکمیل تک پہنچاؤں لیکن یہ بتاتی چلوں کہ آپ کو تھوڑا گھماؤ گی ضرور اور گھمانا صرف اسلیے ہے کہ آپ سمندر کی سطح کو دیکھ کر یہ نہ کہیں کہ بہت گہرا ہے حدِ نگاہ تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے جبکہ آپ تھوڑی دیر ٹھہریں ساحل پر رکیں ،غور کریں اور ریت کو محسوس کریں پھر تھوڑا اور غور کریں اس کے ذروں کو محسوس کریں پھر مزید غور کیجیے ان ذروں میں کسی کو چمکتا ہوا دیکھیں اور کسی کو انتہائی بے روپ محسوس کریں پھر اپنی رائے کا اظہار کریں ہ سمندر میں پانی نہیں بلکہ اس کی تہہ میں بہت سے قیمتی ہیرے موتی اور آبی جانور ہیں جس سے سمجھ آئے گی کہ سمندر کو بنانے کا ، وسیع زمین پر پھیلانے کا ایک نہیں کئی مقاصد ہیں اور یہ کئی مقاصد صرف ایک بندے کو بھی نہیں بتلائے گئے یا پھر ہر ایک کو ہر مقصد نہیں بتلایا گیا کسی کو پانی کا بتایا گیا ، کسی پر ریت کی حقیقت کا انکشاف ہوا ، کسی پر ریت کے ذروں کا فرق عیاں کیا گیا اور کسی کو ذروں کے نیچے کے حقائق بتا دئیے گئے اب بات ہے مشاہدے اور تجربے کی لفظ "مشاہدہ" وہ چیز ہے جس میں مختلف چیزوں ، مختلف واقعات اور مختلف لوگوں کی زندگی کو دیکھا جاتا ہے اور پھر اس سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے،  کبھی سبق سیکھا جاتا ہے کبھی رائے قائم کی جاتی ہے یعنی "Observation" اب آپ کو ایسا کرنے کا اختیار دیا گیا ہے پھر بھی اسکی حقیقت آپ سے پوشیدہ رکھی گئی کیونکہ اسے دیکھنے کیلیے ایک آنکھ کیساتھ ایک اور آنکھ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور آنکھ اس وقت ودیعت کی جاتی ہے جب آپ اسکے طالب ہوتے ہیں ،
اب دوسری چیز ہے "تجربہ" ،  تجربہ آپ خود نہیں کرتے بلکہ آپ سے کروایا جا رہا ہوتا ہے اب جو تجربہ کررہا ہے وہ بڑا ہے ، جو مشاہدہ کر رہا ہے وہ نہیں اسلیےکہ اللّٰہ کا اصول ہے وہ آزمائش ، امتحان انہی پہ ڈالتا ہے جو اسے سہہ سکتےہیں، تجربہ ہمیشہ خوشگوار نہیں ہوتا ، کبھی آپ سے چوری کا تجربہ کروایا جاتا ہے، کبھی بدکاری کرنے کا ، کبھی شراب پینے کا ،کبھی ظلم کرنے کا، کبھی جھوٹ ، کبھی حق تلفی کا ، کبھی پتھریلے رستے سے گزرنے کا.

اب ایسے لوگوں کیلیے عذاب بھی ہے ثواب بھی ہے، چونکئیے نہیں کہ ثواب کیسے؟ بتاتی ہوں..
اللّٰہ کی ذات فرماتی ہے کہ اُسے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب کوئی بندہ جُرم کرنے کے بعد توبہ کرتا ہے اُسکی طرف واپس پلٹتا ہے اب مشاہداتی آنکھ رکھنے والے نے تجربے سے گزرنے والے کو دیکھا اپنی رائے قائم کر لی اس کیمطابق کسی نے دیکھکر نفرت کر لی ، کسی نے کردار پر سنگ پاشی کر لی ، کسی نے معاملہ اللّٰہ پہ چھوڑ دیا، کسی نے اس سیاور سے بھی محبت کر لی۔

(جاری ہے)

اب یی سب تو ہو گیا تجربہ بھی مکمل ہو گیا اُدھر تجربے سے گزرنے والے کو احساسِ جُرم ہوا توبہ کی ، سجدہ میں گیا اللّٰہ سے پوچھنے لگا یہ سب کیا ہے؟ پھر وہ تجربہ اگر گناہ کی شامت تھی تو اسکا معاملہ دنیا میں رفع دفع ہو گیا اس صورت میں باعثِ ثواب اور اس کے برعکس اگر آزمائش تھی تو اس کے سجدہ کرنے کیوجہ سےاور شکر کرنے کیوجہ سے راز و نیاز کی باتیں کرنے کی وجہ سے تجربہ برا تھا یا اچھا، ایک عبادت بن گیا یہاں تک آپکو لفظ سمجھ آگیا ہو گا کہ..

دلِ بینا بھی خدا سے کر طلب
آنکھ کا نور ، دل کا نور نہیں
اب مشاہدہ کرنے والے کو تجربہ کرنے والے کا مشکور ہونا چاہیے کیونکہ اس نے اس متجرب کی وجہ سے سبق سیکھا اور متجرب کو اللّٰہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللّٰہ نے تجربہ اگر بطورآزمائش دیا تو اسے اپنی آزمائش کے قابل سمجھا اور اگر بطور گناہ کی سزا دیا تو اسکا معاملہ دنیا ہی میں ختم کردیا ، پکڑ کر لی مطلب وہ پکا مومن ہے.
ہمارے آنے سے محفل میں کیسا رنگ آیا
پھول آیا کہیں سے تو کہیں سے سنگ آیا
اب ایک واقعہ پیش کرتی ہوں جس میں آپ دیکھیں گے راز سبھی اللّٰہ کے ہوتے ہیں اس نے دنیا میں کسی کو خاکروب بنایا ہے، کسی کو جوتے گانٹھنے کا کام دیا ہے، کوئی کپڑے استری کرتا ہے ، کوئی دھو رہا ہے اور کسی کو گھر کی ملازمت دے رکھی ہے ، کسی کو علم دین دے کر عزت دے رکھی ہے تو کسی کو دنیاوی معاملات میں وڈھیرا بنا رکھا ہے
ؓطلب ہرگز یہ نہیں کہ تم اپنے معاملات سے اوقات گننے لگو ، اوقات یاد دلانے لگو، ایک دوسرے کو آوازیں کسنے لگو ، مسند نشین ہو تو باقی دنیا کو خاک نشین جاننے لگو یہ وہ اسلیے کر رہا ہے کسی کا شکر پسند ہے اُسے تو کسی کے تکبّر کی آخری حد دیکھ کر یہ بتانا چاہتا ہے کہ تکبر صرف میری چادر ہے.

کوئی اسے زمین پر بیٹھا اچھا لگتا ہے تو کسی کو مسند پہ بٹھا کر کبھی اپنے دین کا کام لینا چاہتا ہے اور کہیں اپنے نام کا راگ الاپنے کا منظر دیکھنا چاہتا ہے وہ اک "گورکھ دھندہ" ہے یعنی ایک جادو ہے ، ایک راز ہے ، ایک بھید ہے جو فقط اُنہی پہ کھلا جنہوں نے یا تو راتوں کو سجدے کیے یا سراپا شکر بنے رہے اور یا پھر گناہ کر کے پتھر کھائے اس منظر کا مزہ لیا اور مرہم کیلیے صفائیاں دلیلیں دینے کی بجائے اُسکے سامنے سجدہ ریز ہو گئے
حضرت سفیان ثوری اللّٰہ کے ایک متقی بزرگ گزرے ہیں ایک ایسے بزرگ کہ جن کے تقوی کا یہ عالم ہے کہ سانس بھی اللّٰہ سے پوچھ کر لیتے ہیں انکے دور میں ایک شخص تھا جو کہ بہت گناہگار ، بدکار کوئی گناہ ایسا نہیں جو اس نے نہیں کیا ہر لمحہ گناہ میں گزر رہا ہے پھر اسکی موت کا وقت آجاتا ہے مرتا ہے تو لوگ اسکا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیتے ہیں سفیان ثوری کی خدمت میں جنازہ لایا جاتا ہے گزارش کی جاتی ہے کہ جنازہ پڑھائیں اب سفیان ثوری کا جواب یہ ہے کی میں کیوں جنازہ پڑھاؤں؟ میں نے تو اللّٰہ کے ڈر میں ہر رات اور ہر دن گزارا اور ابھی بھی ایسے گزار رہا ہوں اور یہ اللّٰہ کا نافرمان ، بدکار شخص لے جاؤ یہ اسکے قابل نہیں کہ میں اسکا جنازہ پڑھا سکوں اب جی لوگ مایوس اسکی بیوی بھی مایوس لوٹ جاتی ہے لیکن وہ جو عرش بریں پر بیٹھا ہے ناں جسے نہ نیند آتی ہے اور نہ ہی اُونگھ جسکی شان ہے ستر ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہونے کے اس نے صرف نیکوکاروں کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا اس نے اسکے جنازے کا، تدفین کا انتظام کر دیا یہ رسومات ہو گئیں وہ زیرِزمین چلا گیا اب رات کا وقت ہوتا ہے چونکہ سفیان ثوری قیام اللیل ہیں عبادت کی نیت سے کھڑے ہوئے ہیں  اور اللّٰہ اکبر کہتے ہیں آواز آتی ہے کہ جاؤ چلے جاؤ میری بارگاہ سے اگر وہ سہرابندہ آپ کے جنازہ ہڑھانے کے قابل نہیں تو سفیان ثوری میں رب ہوں زیادہ حق رکھتا ہوں جسے چاہوں واپس لوٹا دوں ، جسے چاہوں پاس بیٹھا لوں جاؤ اس آدمی کی قبر پر جا کر معافی مانگو پھر آنا میری بارگا میں.

سفیان ثوری پریشان ہوجاتے ہیں کانپتی ٹانگوں کیساتھ قبر پہ چلے جاتے ہیں معافی مانگتے ہیں معافی مانگنے کے بعد گھر جانے کی بجائے سیدھا اسکی بیوی کے پاس چلے جاتے ہیں پوچھتے ہیں کہ بتا اسکا ایسا کیا عمل تھا کہ اللّٰہ نے مجھے دھتکار دیا کہتی ہے کہ کوئی ایسا عمل نہیں ہے سب لوگ جانتے ہیں وہ ایک گناہگار ، نافرمان شخص تھا
آپ فرماتے ہیں پھر بھی یاد کر ہو سکتا ہے کوئی عمل ہو اسنے کچھ دیر سوچا پھر کہتی ہے ہاں ایک بات یاد ہے جب اُسکا آخری وقت تھا جان اٹکی ہوئی تھی تو آسمان پر نگاہیں جما کر کہتا ہے کہ یا اللّٰہ! یہ جہاں بھی تیرا ، وہ جہان بھی تیرا بتا میرا کیا کرنا ہے جسکا نہ رہا یہ جہاں نہ رہا وہ جہان، بس آنکھیں نم تھی اور پھر ساتھ ہی ہمیشہ کیلیے بند ہو گئیں سفیان ثوری رونے لگے اور کہنے لگے کہ بس یہی بات ہے اللّٰہ نے اسے پاک کر کے اُٹھایا ہے.
قارئین!
وہ شخص اس واقعہ میں متجرب ہے اسکے ہاتھوں تجربہ ہو رہا ہے باقی لوگ شاہد ہیں اور مشاہدہ کر رہے ہیں اب متجرب کا معاملہ اللّٰہ کیساتھ ہے اللّٰہ نے دنیا میں ایسے رکھا اُسے اور پھر ایک بہانہ بنایا اور قبول کر لیا اور مشاہدہ کرنے والے نے کیا کیا، کچھ سیکھا نہیں ، اللّٰہ کا شکر ادا نہیں کیا ، متجرب سے ہمدردی نہیں کی بلکہ تکبر کی چادر اوڑھ لی پھر اللّٰہ کو بتانا پڑا کہ یہ صرف میری چادر ہے اور مجھے ہی زیب دیتی ہے تم سب بس میری تقدیر اور میرے حکم کے پابند ہو.
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ اِسرار نظرآتے ہیں
پیرسید نصیر الدین فرماتے ہیں کہ ہم وہ نہیں جو بات لکھی دیکھی پڑھی اور جو سنی سنائی سامنے آئی اسے لیکر فقیر بن گئے ہم پڑھتے ہیں ، سنتے ہیں اور پھر اپنے دل و دماغ سے رائے لیتے ہیں اللّٰہ سے جو ہمیں اوپر کی سطح کی بجائے نچلی سطح پر جھانکنے میں مدد دیتی ہے پھر بولتے ہیں پھر لکھتے ہیں.
جسے دیکھو ، وہ دیوانہ جسے سنو وہ دیوانہ
جسے کہتے ہیں دیوانہ بڑی مشکل سے ملتا ہے
اللّٰہ نے ہمیں انسانیت سےپیار کرنے اور برائی سے نفرت کرنےکو کہا یعنی بیماری سے بچنے کو کہا اور پھر ہوا یوں ہم انسانیت چھوڑ کر کردار سے محبت کرنے لگے اور بیماری چھوڑ کر مریض سے بچنے لگے.
سب اپنے نظریے پاس رکھو
ہم اپنا نظریہ رکھتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :