انا مدینة العلم و علی بابھا

منگل 15 فروری 2022

Nafeesa Ch

نفیسہ چوہدری

ولایت کا وہ آفتاب جسے شہرِ علم کا در ہونے کا شرف حاصل ہے ، 13رجب المرجب کو کعبة اللہ میں طلوع ہوا، اور یمین و یسار میں نور کی خیرات بانٹنے لگا۔ آپ کے والد گرامی حضرت ابو طالب بن عبدالمطلب تھے ۔ آپ کی والدہ گرامی کا نام فاطمہ بنتِ اسد بن ہاشم بن عبد مناف تھا۔ اہلِ دانش پر پوشیدہ نہیں کہ حضرت علی کے فضائل و مناقب قالبِ بیان میں نہیں آسکتے ، بلکہ ملائکہء سمٰوات بھی آپ کے درجات کا ادراک نہیں کرسکتے ۔

حضرت ابنِ عباس راوی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “اگر تمام دریا سیاہی اور درخت قلم اور انسان کاتب اور جن محاسب بن جائیں تو اے ابوالحسن! تمہارے فضائل نہ شمار ہوسکیں
آپ کو "کرم اللہ وجہہ الکریم" جس کا مطلب ہے کہ (اللہ تعالٰی آپ کو کسی اور کے سامنے سر جھکانے کی ذلت سے محفوظ رکھے ) کے ہیں.
اور اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ آپ نے کبھی غیر اللہ کو سجدہ نہیں کیا اور یہ فضیلت "سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ" کو بھی حاصل ہے .
مگر چونکہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا بچپن آپ ﷺ کے ہاں زیادہ گزرا اور آپ کا بت پرستی سے بھی محفوظ ہونا بہت مشہور ہے . اس لئے یہ الفاظ آپ کے مبارک نام کے ساتھ زیادہ تر بولے جاتے ہیں.
 اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی لکھا :
 
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے نبی کریم ﷺ کے کنار اقدس میں پرورش پائی، نبی کریم ﷺ کی گود میں ہوش سنبھالا، آنکھ کھلتے ہی محمد رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک دیکھا، حضور ﷺ ہی کی باتیں سنیں، آپ ﷺ کی ہی مبارک عادتیں سیکھیں.
تو جب آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کو ہوش آیا تو قطعاً یقیناً رب عزوجل کو ایک ہی جانا، ایک ہی مانا.
آپ کا دامن بتوں کی نجاست سے بالکل بالکل بالکل پاک صاف تھا.
اسی لیئے آپ کا لقب مبارک "کرم اللہ وجہہ الکریم" تھا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی اورنسبی تعلق، ایک عمر کی رفاقت اور روز مرہ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کی وجہ سے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو آپ کے مزاج افتاد طبع سے اور ذات نبوی کی خاص صفات و کمالات سے گہری مناسبت ہوگئی تھی، جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا تھا، وہ آپ کے میلان طبع اور مزاج کے رخ کو بہت باریک بینی اور چھوٹی بڑی باتوں کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے ، جن کا آپ کے رجحان پر اثر پڑتا ہے ، یہی نہیں بلکہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو ان کے بیان کرنے اور ایک ایک گوشہ کواجاگر کرکے بتانے میں مہارت تھی
ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں فاقہ تھا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو معلوم ہوا تو وہ مزدوری کی تلاش میں نکل گئے ، تاکہ اتنی مزدوری مل جائے کہ رسول خدا کی ضرورت پوری ہوجائے ۔

(جاری ہے)

اس تلاش میں ایک یہودی کے باغ میں پہنچے اور اس کے باغ کی سینچائی کا کام اپنے ذمہ لیا، مزدوری یہ تھی کہ ایک ڈول پانی کھینچنے کی اجرت ایک کھجور، حضرت علی نے سترہ ڈول کھینچے ۔ یہودی نے انہیں اختیار دیا کہ جس نوع کی کھجور چاہیں لے لیں،حضرت علی نے سترہ عجوہ لیے اور رسول خدا کی خدمت میں پیش کردیا۔ فرمایا: یہ کہاں سے لائے ؟، عرض کیا: یا نبی اللہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آج گھر میں فاقہ ہے اس لیے مزدوری کے لیے نکل گیا تاکہ کچھ کھانے کا سامان کرسکوں۔

رسول نے فرمایا: تم کو اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے اس پر آمادہ کیا تھا۔ عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! رسول نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ایسا کوئی نہیں جس پر افلاس اس تیزی سے آیا ہو جیسے سیلاب کا پانی اپنے رخ پر تیزی سے بہتا ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے اس کو چاہیے کہ مصائب کے روک کیلئے ایک چھتری بنالے ، یعنی حفاظت کا سامان کرلے
خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے لڑنے ،جینے اور مرنے کا انداہ ایک بہت ہی مشہور واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں اس بات کی بھی واضح دلیل موجود ہے کہ ۔

۔۔۔۔۔!!!!
جو اپنا حق اور اپنی ذات کو پہنچنے والا درد یا تکلیف معاف کردے اسے علی کہتے ہیں۔
اور ایسا ہوتا بھی کیوں نہیں جس نے بچپن سے لیکر آخری سانس تک کا وقت کبھی تاجدارِ کانات کیساتھ گزارا ہو،کبھی
نبی کی صورت نبی کی سیرت نبی کا نقشہ جناب زہرا کیساتھ گزارا ہو اور کبھی باغِ مصطفیٰ ﷺ کے معطر پھولوں حسنینِ کریمین کا باپ بنکر گزارا ہو اسکے کردار کا،گفتار کا اور معاملات کا یہ انداز تو ہوگا۔


اور وہ واقعہ یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
غزوہ خندق میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمر وبن عبد ود کو جب آپ نے مغلوب کر لیااور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعاب دہن پھینک دیا۔ آپ کو غصہ آگیااور آپ اس کے سینے پر سے اتر ائے ۔ صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل محض خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ خواہش نفس کے مطابق ہوگا۔

کچھ دیر کے بعد آپ نے اس کو قتل کیا، اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش برہنہ کردیتے تھے مگر علی بن ابی طالب نے اس کی زرہ نہیں اُتاری اگرچہ وہ بہت قیمتی تھی۔ چنانچہ اس کی بہن جب اپنے بھائی کی لاش پر آئی تو اس نے کہا کہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی مگر مجھ یہ دیکھ کر صبر آگیا کہ اس کا قاتل علی بن ابی طالب سا شریف انسان ہے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔

آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نہیں کیا۔
اللہ اللہ یہ مقام و مرتبہ ہے کہ دشمن آپ کے ہاتھوں قتل ہونا بھی اعزاز و سعادت سمجھے ۔
سچ تو یہ کہ حضرت علی کے فضال و محاسن اور آپکی زندگی کے پہلو کو احاطہ تحریر میں لانا اس حقیر العباد کے لیے ناممکن ہے ۔مختصراً آپکی شہادت کو بیان کر کے اہنی تحریر سمیٹنا چاہونگی اور دعا ہے اللہ کی ذات ہمیں وہ زبان وہ قلب نصیب فرماے جو اللہ،اسکے محبوب اور ایلبیت کے ذکر سے تر رہے ۔


علی بن ابی طالب کو 19 رمضان 40ھ ( 660ء ) کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں فرزندوں حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمہارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا۔

اگر میں اچھا ہو گیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضرب لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے ، دو روز تک علی بن ابی طالب بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت ہوئی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تجہیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں دفن کیے گئے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :