بلا فصل خلیفہ اول‎‎

جمعرات 27 جنوری 2022

Nafeesa Ch

نفیسہ چوہدری

ابو بکر صدیق :
آپکا نام عبد اللہ بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن مرہ بن کعب بن لوٸی بن غالب قرشی تیمی ہے۔
آپکا نسب نامہ مرّہ پر رسول اللہ ﷺ کیساتھ جا ملتا ہے۔
عتیق اور صدیق آپکا لقب ہے۔آپکو عتیق کا لقب جہنم کی آگ سے آزادی کی بنیاد پر دیا گیا۔
ایک روایت میں ہے کے چہرہ کے حُسن و جمال کی وجہ آپکا نام عتیق پڑا ۔


ایک قول یہ بھی ہے کہ آپکے نسب میں کوٸی ایسی چیز نہیں تھی جو معیوب ہوتی اس بنا پر آپکو عتیق کہا گیا۔
بہرحال عتیق کا لغوی معنی آزاد کیا گیا ہے۔
صدیق لقب کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ نے رسول کریم ﷺ کی تصدیق میں جلدی کی اور ہمیشہ اس تصدیق پر قاٸم رہے۔اسلام میں آپکے بہت سارے کارنامے ہیں۔

(جاری ہے)

جن میں سے ایک معراج کی رات سے متعلقہ آپکا واقعہ ہے اور اس سلسلہ میں ڈٹ جانا،ثابت قدمی اور کفار کو جواب دینا ہے۔


اسکے علاوہ رسول پاک ﷺ کیساتھ آپکی ہجرت، آپکا اپنے گھر والوں اور بچوں کو چھوڑنا،غار میں آپکے ساتھ رہنا اور پورا رستہ آپکی معیت میں رہنا،پھر غزوہ بدر کے موقع پر اور حدیبیہ کو موقع پر جبکہ کچھ لوگوں نے مکہ میں داخل نہ ہونے کیوجہ سے چہ میگوٸیاں کیں اور پھر آپکا اس وقت رونا جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ :
ایک بندے کو اللہ نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دنیا اور آخرت میں سے ایک چیز کواختیار کرے تو اس بندے نے آخرت کو اختیار کر لیا ہے“ پھر آپکا رسول ﷺ کی وفات پر ثابت قدم رہنا، لوگوں کے سامنے خطاب کرنا،انہیں تسلّی دینا،مسلمانوں کی مصلحت کے لیے بیعت کے سلسلہ میں آپکا اہتمام کرنا، پھرمرتدین کے خلاف جنگ میں آپکی ثابت قدمی اور صحابہ کیساتھ مناظرہ۔


المختصر آپ کے بے شمار خصاٸل ومناقب ہیں جنہیں احاطہ تحریر میں لانا ازحد دشوار ہے۔
آپکی صحبت اور معیت کےبارے میں۔:
حضرت ابو بکر اسلام قبول کرنے سے لیکر وصال تک آپ ﷺ کیساتھ رہے اور آپکو سفر و حضر میں بھی کبھی اکیلا نہیں چھوڑا سواٸے اسکے کہ آپﷺ نے آپکو اجازت دی ہو حج یا غزوہ میں جانے کی آپ نے تمام غزوات میں نبی کریم ﷺ کیساتھ شرکت کی اور آپ ہی کیساتھ ہجرت کی اپنے اہل و عیال کو چھوڑا محض اللہ اور اسکے رسول  ﷺ کی محبت میں۔


آپ رسول اللہ ﷺ کے یارِ غار ہیں۔اللہ کریم نے اس رفاقت کے بارے فرمایا:
دو میں سے دوسرا جب وہ دونوں غار میں تھے جب کہا نبی کریم ﷺ نے اپنے ساتھ سے غم نہ کیجیے بے شک اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے ۔سورة التوبہ آیت نمبر ٤٠
یہاں ایک نقطہ قابلِ غور اور توجہ طلب ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنے ساتھی سے۔کہاں فرمایا؟ غار میں ۔
آپ ہی بتاٸیے قران تاقیامت ہے بلکہ بعد از قیامت بھی ہے کیونکہ یہ کلام اللہ ہے جیسے اللہ کو دوام حاصل بلاشبہ اسکے کلام کو بھی دوام حاصل ہے۔


اللہ نے صدیقِ اکبر کو قران میں اپنے محبوب کا ساتھی پکارا یہ جبکہ یہ طے تھا کہ یہ کتاب قیامت تک لوگ پڑھتے رہیں گے اور یہ آیت بغیر کسی تغیر و تبدل کے ایسے ہی پڑھی جاتی رہے گی۔اور پھر اس میں ذرا برابر شک کی بھی گنجاٸش نہیں ہوگی کیونکہ اللہ نے سورة البقرہ کے آغاز میں ہی فرما دیا
ذلک الکتب لاریب فیہ
یہ وہ کتاب ہے جسمیں کوٸی شک نہیں ۔


میرا خیال ہے پڑھنے والوں کو سمجھ آچکی ہوگی کہ اس آیت کی دلیل سے اس کی وضاحت کرنے کا کیا مقصد ہے اور کیا نتیجہ اخذ ہوتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ پہ صدیقِ اکبر کا حق۔:
یار کا یار پہ حق تو ہوتا ہی ہے اور یار بھی وہ جو جانِ کاٸنات ہو، وجہ تخلیقِ کاٸنات ہو اسکا حق ادا کرنے کا نداز اور طریقہ کار کس قدر جدا ہو گا اسکا اندازہ ایک حدیثِ مبارکہ کے مفہوم سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔


آپ ﷺ کی حدیثِ مبارکہ کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ جس نے بھی مجھ پر ذرہ برابر بھی احسان کیا میں نے اسکا بدلہ اس جہاں میں ہی چکا دیا سواٸے صدیقِ اکبر کے آپ کا مجھ پہ قرض ہے اور یہ قرض میرا اللہ جیسے چاہے ادا کرے۔
قرض کی اداٸیگی کا آغاز یارِ مزار بنا کر دیا گیا۔مزید اللہ کو کیسے اور کسطرح ادا کرنا ہے یہ اللہ اور اسکے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔


محافظِ سُنَن و مصدرِ حمیّتِ دیں
نبیؐ کی دین ہے،اللہ کی عطا ، صدیق
حضرتِ صدیقِ اکبر نے اپنے دور خلافت پہ مسن نشیں ہونے سے پہلے خطبہ فرمایا جسمیں ارشاد فرمایا کہ میری تنخواہ ایک مزدور کے برابر رکھی جاٸے،اگر میرا گزارہ نہ ہوا تو میں مزدور کی تنخواہ بڑھا دونگا۔
یہی وہ لوگ تھے جن کے متعلق تاجدارِ کاٸنات ﷺ نے فرمایا کہ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ۔
اللہ کی ذات ہمیں ان ہستیوں کی زندگی سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرماٸے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :