تنِ تنہا سے کارواں تک‎‎

جمعہ 21 جنوری 2022

Nafeesa Ch

نفیسہ چوہدری

عزمِ مصمم اور نیک نیت ہونا انسانی زندگی کے وہ سرمایہ ہیں جنہیں اپنے دامن میں سمیٹ کر جب انسان چلنے کا عہد باندھ لیتا ہے تو زمیں و آسماں کی ہر چیز اسکے لیے معاون بن جاتی ہے۔
ایسے ہی خوبصورت سفر کی ایک کڑی سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ تنظیم ہے۔
اس تنظیم کے بانی کا تعارف یہ ہے کہ ایک ایسا طالبعلم جس کے خمیر میں نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان کا ولولہ گوندھا گیا گیا تھا۔

زمانہ طالبعلمی میں ہی یہ نوجوان اپنے نوجوان ساتھیوں کو اپنے تاریخی ہیروز کی زندگی سنایا کرتا،انکی زندگی کو سامنے رکھ کر ملک کے مستقبل کے خواب بنا کرتا،اپنی تعلیمی سرگرمیوں کیساتھ ساتھ نظریاتی سرگرمیوں میں مصروف رہتا،بس یہی ایک جذبہ،لگن،محنت اور خلوص تھا کہ دھیرے دھیرے 2016 میں اس نوجوان نے اپنی ایک نظریاتی تنظیم کا آغاز کردیا۔

(جاری ہے)


اور پھر جس خوش اسلوبی کیساتھ اس تنظیم کا منشور ترتیب دیا وہ محبِ اسلام اور محبِ پاکستان ہونے کا واضح ثبوت ہے۔
اس منشور میں طے پایا کہ عقیدہ ختمِ نبوت کا دفاع کیا جاٸے گا،ناموسِ رسالت پہ کوٸی سمجھوتہ نہ ہوگا،نظریہ اسلام و پاکستان کا ہر محاذ پہ دفاع کرینگے،کشمیر،فلسطین،برما اور اسکے علاوہ جہاں جہاں بلکتی انسانیت ظلم کی چکی میں پستی جارہی ہے اسکی آواز بنیں گے،تمام امتِ مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کیا جاٸے گا۔


یہی وہ عہد تھا،یہی وہ منشور جسے لیکر تن تنہا وہ ایک سفر پہ نکلا اور دیکھتے ہی  دیکھتے ایک کارواں بنتا گیا۔
٢٠١٦میں ٢٢ سال کی عمر میں نظریہ اسلام و پاکستان کا علم لیکر نکلنے والا یہ نوجوان کم عمری سے ہی ایک خواب لیے چل رہا تھا جیسے ہی اس نے ایک نٸے سفر کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا تو نوجوانوں کا ایک گروہ سینے پہ پاکستانی پرچم اور مہرِ نبوت کے بیجز سجاٸے ساتھ چل پڑے یوں"سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ"کے نام سے ایک تنظیم معرضِ وجود میں لاٸی گٸی جو کہ نوجوان طلبا پہ مشتمل ایک جماعت تھی جنہوں نے حق پہ لڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔


اس تنظیم نے ہر جگہ ظلم وزیادتی اور حق تلفی کے خلاف آواز اٹھاٸی،ہالینڈ پہ جب مسلمانوں کے جذبات مجروع کیے گٸے تو یہ نوجوان میدانِ عمل میں اترے،ادھر کشمیر میں ظلم و بربریت کےپہاڑ ٹوٹنے پر یہ نوجوان گلی کوچوں میں آزادی کا علم لیے نکلے،عقیدہ ختمِ نبوت پہ ڈاکا ڈالنے والوں کو جب اداروں میں اور اہم عہدوں پہ تعینات کیا گیا تو یہ تنظیم حرکت میں آٸی،عورت مارچ کے نام پہ جب میرے ملک میں فحاشی اور بے حیاٸی کو ہوا دینے کے لیے دشمنی سازشیں عروج پہ آٸیں تو یہ نوجوان اسے روکنے کے لیے میدانِ عمل میں اترے،اور یہ وہ منظر تھا جب میں نے دیکھا تو سوچ رہی تھی کہ ادھر ہزاروں کی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں عورت مارچ کے نام پہ نظریہ اسلام کو مسخ کرنے کے لیے سڑکوں پر موجود تھے ادھر یہ مٹھی بھر نوجوانوں کا ایک قافلہ انہیں روکنے کو مصروفِ عمل تھا تو وہ کیا چیز تھی،کونسی بات تھی جس نے انہیں یہ یقین دیا تھا کہ یہ چند لوگ حق و باطل کی یہ جنگ جیت سکتے ہیں تو اچانک میری نظر انکے سینوں پہ لگے ملک پاکستان اور مہر نبوت کے بیجز پہ گٸی تو سمجھ آیا کہ وہ عزمِ مصمم تھا جو انہیں یہ سب کرنے کی ہمت دیے ہوٸے تھا،وہ اسلام کی محبت تھی جس نے انہیں یہ یقین دے رکھا تھا کہ تم اپنے حصے کی شمع لیکر نکلو،فتح حق کی ہوگی۔


یہ چھوٹا سا قافلہ"شہیر حیدر سیالوی"کی قیادت میں چل رہا تھا۔
ایسا نوجوان جو کہ شعبہ تعلیم سے منسلک ہے،سافٹ وٸیر انجیرنگ کی ڈگری کا حامل نوجوان کسی کاروبار کی کرسی پہ بیٹھ کر سیاست کے خواب دیکھنے کی بجاٸے مختلف سکولز،کالجز میں پڑھاتا ہے،سارا دن بچوں کے سینوں میں اسلام اور پاکستان کی محبت کا جام انڈیلتا ہے اور فارغ اوقات میں اپنے ملک کی عزت و عظمت کی بقا کے خواب دیکھتے ہوٸے عملی طور پہ سرگرمِ عمل رہتا ہے۔


حق کی شمع لیے چند نوجوانوں کا یہ گروہ مختلف مراحل طے کرتا ہوا محوِ سفر رہا اور آج ہزاروں کی تعداد میں نظریے کا علم تھامے اپنی منزل کی طرف محوِ سفر ہیں۔
میں تو اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل
لوگ آتے گٸے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کارواں بنتا گیا
اب ٢٠٢٢ میں یعنی ٥ سال کی بے شمار جدوجہد کے بعد یہ تنظیم ایک بہت بڑے محاذ پر نظریہ اسلام و پاکستان کی نماٸندگی کرتے ہوٸے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے جارہی ہے،واضح رہے کہ تاریخِ عالم میں یہ پہلی جماعت ہے جو کہ نوجوانوں نے بناٸی،وہ بھی آج کے نوجوان نے اور اس سے بھی بڑھ کر پرلطف یہ کہ آج کے اس دور میں نوجوانوں نے یہ جماعت اسلام اور پاکستان کی بقا کے لیے نظریے کے نام پہ بناٸی، یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے ہر محاذ پہ باطل کے خلاف آواز اٹھا کر،مظلوم اور بلکتی انسانیت کی آواز بنکر دنیاٸے عالم کو یہ پیغام دیا کہ
فقط ایک پل کی تھی حکومت یزید کی
صدیاں حسین کی ہیں،زمانہ حسین کا
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب جب یہ تنظیم "پاکستان نظریاتی پارٹی" کے نام سے ایک سیاسی پارٹی کا اعلان کرنے جارہی ہے جو کہ موروثی،جاگیرداری اور وڈیروں کی سیاست سے بالکل پاک ہے تو آخر وہ کونسا لاٸحہ عمل ہے جس پہ یہ نوجوان کام کرینگے،وہ کیسا پاکستان ہے جسکا خواب یہ آنکھیں دیکھتی ہیں اور پھر اسکی تعبیر کے لیے میدان میں بھی نکل آٸیں ہیں۔


انکا منشور جیسے کہ اوپر بیان ہوچکا،اور انکا خواب پاکستان کو صحیح معنوں میں قاٸد کا پاکستان بنانے کا ہے۔
ایک ایسا نظام جسمیں اگر تعلیم کی بات کی جاٸے تو سرکاری سطح پہ ایسا نظام تعلیم ہو جہاں ایک مزدور کا بچہ اور ایک جاگیر دار کا بچہ برابر بیٹھ کر علم حاصل کرسکیں،دونوں کی منزل ایک ہو،خواب ایک ہوں،مستقبل ایک ہو۔
یونیورسٹی میں یونیفارم کلچر لایا جاٸے تاکہ وہاں پڑھنے والا ہر طالبعلم برابری کی سطح پہ بیٹھ کر اپنے اور ملک کے مستقبل کا خواب دیکھ سکے۔


ہر وہ بندہ جو کروڑوں کی جاٸیداد اور زمینوں کا مالک ہے وہ اپنی مالیت کے حساب سے دوسرا،تیسرا،یا پانچواں حصہ سرکاری خزانوں میں جمع کرواٸے،تاکہ ہم جب بھی اپنی مقبوضہ اسلامی ریاستوں کے حق میں آواز اٹھاٸیں ان پہ ہونے والے ستم کے خلاف سوال کریں تو ہمیں ہمارے قرضوں کا طعنہ دیکر خاموش نہ کروایا جاٸے،ہم صحیح معنوں میں ایک آزاد ریاست کی طرح سامنے آٸیں۔


ہمارا پاکستانی شہری جس ملک میں بھی ہو اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاسکے ۔مختصر یہ کہ پاکستان اپنے نظریاتی اور سیاسی فیصلے کرنے میں آزاد ملک ہو ۔
یہی وہ ایجنڈاہے جسے لیکر سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ کےنام سے اپنے نظریاتی سفرکا آغاز کرنے والی یہ نوجوانوں کی جماعت آج ٢٠٢٢ میں سیاست کی دنیا میں "پاکستان  نظریاتی پارٹی"کے نام سے قدم رکھنے جارہی ہے ۔
اس یقین کیساتھ کہ وہ نظام لاٸیں گے جو ہمارے ملک کے بچے بچے کو آٸینِ پاکستان اور آٸینِ اسلام سےروشناس کروا سکے۔
 ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب میرا ملک صلاح الدین ایوبی،محمد بن قاسم اور خالد بن ولید کے ان حقیقی وارثوں کی قیادت پہ فخر محسوس کریگا۔
میری دعاہے کہ محبت اور وفا پہ نکلے ان مسافروں کو سر خرو پاٶں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :