ان الدین عنداللہ الاسلام‎‎

اتوار 19 ستمبر 2021

Nafeesa Ch

نفیسہ چوہدری

قران کریم میں اللہ کی ذات ارشاد فرماتی ہے"ان الدین عند اللہ الاسلام"
یعنی بے شک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے۔
اب ذرا قران کی متعدد آیات کا بغور مطالعہ کیا جاٸے تو سمجھ آتا ہے جسقدر انعام واکرام کا ذکر اہلِ ایمان کے لیے ہوا وہ احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔
اہلِ ایمان کے گناہوں کی توبہ قبول کرنے اور بخشش و مغفرت کو خوشنودی سناٸی گٸی ہے جبکہ دوسری جانب بغیر ایمان کے عمل جسقدر بھی حسین ہو قابلِ قبول نہیں نہ ہی اس پہ اجر۔


یعنی کہ ایمان کے بغیر عمل کی کوٸی وقعت نہیں۔
چودہ سو سال پیچھے جاٸیے اسلام قبول کرنے پہ جسقدر صحابہ نے تکالیف و اذیتیں برداشت کیں،تمام تکالیف کو اپنے لیے حرزِ جاں سمجھا نہ کہ انہیں یہ اختیار ملا کہ چاہیں تو داٸرہ اسلام میں رہیں وگرنہ ایمان سے مکرجاٸیں۔

(جاری ہے)

یہی نہیں تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے سلسلے میں کام کرنیوالے صحابہ اور صحابیات کو جس قدر اذیتوں کا سامنا کرنا پڑھا تاریخ کے اوراق اس درد،کرب اور اذیت سے بھرے پڑے ہیں۔


قران نے جابجا جہاد کا ذکر کیا،اب سوال یہ ہے کہ کفر کے خلاف جہاد کا حکم کیوں دیا گیا؟ پھر اہلِ ایمان کو کفار سے دوستی کرنے سے روک دیا گیا؟
سوال یہ ہے کہ کیا وجوہات ہیں۔ان تمام پہلوٶں کا جواب روزِ روشن کیطرح عیاں ہے۔
کہ جو بھی اللہ اور اسکے رسول سے کھلی دشمنی و عداوت کیساتھ فساد کا ارادہ رکھتا ہے۔اسلام اسکے ساتھ جہاد کا نہ صرف حکم دیتا ہے بلکہ فرض قرار دیتا ہے۔


مذکورہ بالا پہلو اسلام اور اسکی اہمیت و فضیلت کیساتھ ساتھ ضرورت و فرضیت کی بین دلیل ہیں۔
اب ذرا آتے ہیں دورِ حاضر کی جانب اسلام کہتا ہے کہ جو حالت کفر میں مارا گیا انکے لیے دعاٸے مغفرت کرنے کی اجازت نہیں۔یہاں ادھر کوٸی کافر خود کشی بھی کرے تو ادھر سوشل میڈیا پہ اظہارِ تعزیت،اظہارِ رنج و غم کی پوسٹس،ٹویٹس شٸیر ہونے لگتے ہیں۔

اور عالم یہ ہے کہ ہم منافقوں کی کسی اہل ایمان کیساتھ ذاتی دشمنی ہو تو ہم چاہتے کہ ہمارا رب بھی اس پہ انعامات کی بارش روک دے اس ذلیل و خوار کیساتھ نیست و نابود بھی کردے جبکہ قلندرِ لاہوری آیاتِ قرانی کا نچوڑ نکال کر لکھ دیتے ہیں ۔
ہو حلقہ یاراں تو ریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولادہے مومن
اس سے آگے چلیں تو ہمارا نام نہاد دین کا ٹھیکیدار طبقہ ڈنمارک کو انٹرویو دیتا ہے تو کہتا ہے کہ تم اگر ہمارے نبی رحمت ﷺ کی سرعام توہین بھی کرو تو تم آزاد ہو،کرسکتے ہو،یہ تمہاری آزادی راٸے پہ مبنی ہے۔


پھر وہ علماحق جنہیں اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا حکم دیا جاتا ہے وہ کفار کی دوستی ٹوٹ جانے کے ڈر سے ،اپنے غیر ملکی پاسپورٹ کینسل ہوجانے کے ڈر سے سرے سے اس پہلو کو چھیڑتے ہی نہیں ۔
پھر یہیں پہ بات ختم نہیں ہوتی اب ایک قانون پاس کرنے کی بات شروع ہوجاتی ہے۔۔جس کا خلاصہ یہ کہ اٹھارہ سال سے کم عمری میں اسلام قبول کرنے کی اجازت نہیں ۔


تو معاملہ یہ ہے بالجبر اسلام قبول کروانے پہ تو ہمارےقران و سنت نے بھی پابندی لگا دی واضح فرما دیا ۔
لااکراہ فی الدین
کہ دین میں کوٸی جبر نہیں مگر قبولِ اسلام سے بالجبر روک دینا یہ شریعت کا کونسا پہلو ہے؟
پھر تو بس یہی کہا جاسکتا ہے
آپ اپنے احوال پہ غور کیجیے
ہم عرض کریں تو شکایت ہوگی
دوسری جانب شریعت کہتی ہے کہ اگر کوٸی برضا ورغبت اسلام قبول کرنا چاہے تو اسے موقع پر کلمہ شہادت پڑھوا کرداٸرہ اسلام میں خوش آمدید کہہ دیجیے ،ایسا نہ ہو کہ کسی عالم،مولوی یا مفتی کی تلاش میں اس کی قضا کا وقت آجاٸے اگر ایسا ہوگیا تو اسکاوبال اس مومن پر بھی ہوگا جس نے فوراً اسکی مدد نہ کی ۔


اب ذرا دیکھ لیتے ہیں کہ اس بل کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟
جبکہ یہ قانون یورپ میں بھی نہیں وہاں بھی اگر کوٸی بخوشی داٸرہ اسلام میں آنا چاہے یا پھرکوٸی کسی اہلِ ایمان ہستی سے متاثر ہوکر اسکی جستجو کرے تو انکی حکومت دونوں پہ کسی قسم کا کوٸی جبر نہیں کرتی۔
پھر سوچنا یہ ہے کہ یہ قانون آیا کہاں سے؟لایا کون؟اسے لانے کے وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟
اب ان تمام سوالات کاجواب تلاش کرنا ہر اہلِ ایمان پہ لازم ہےبلکہ ان قوتوں کو روکنا بھی لازم ہے اس نظریے کے تحت کہ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام جس طرح یہ گوارا نہیں کرتا کہ کسی کو جبراً مسلمان بنایا جائے اسی طرح وہ یہ بھی برداشت نہیں کرتا کہ کوئی اس کے ماننے والوں کو تشدد کر کے انہیں اسلام سے برگشتہ کرے یا جو بخوشی اسلام کی برادری میں شامل ہونا چاہے اسے ایسا کرنے سے زبردستی روکے اور اگر کہیں ایسی صورتِ حال پیدا ہو جائے تو اسلام اس وقت اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان ظالم قوتوں کا مقابلہ کریں اور یہی اسلام کا نظریہ جہاد ہے۔


اب ذرا اس موضوع پہ بات کر لی جاٸے کہ کم عمری میں اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں ہمارے پاس کیا دلاٸل موجود ہیں۔
تو پھر تاریخ میں ملاحظہ کیجیے۔
کم عمری میں اسلام قبول کرنے والے چند حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے اسم گرامی پیشِ خدمت ہیں۔امیرالمؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔

حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ آٹھ سال کی عمر میں رسول کریمﷺ کے خادمِ خاص ٹھہرے۔حضرت سیدنا عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے دس سال سے کم عمر بھی حضور نبی کریمﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت فرمائی۔حضرت سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے گیارہ سال کی عمر میں ہجرت فرمائی ۔حضرت سیدنا معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہ بارہ یا تیرا سال کی عمر میں غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور ابوجہل کو جھنم رسید کیا۔

حضرت سیدنا معاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور ابوجہل کو جھنم رسید کیا۔حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ تیرہ سال کی عمر میں غزوہ احد میں شرکت کیلئے پیش ہوئے۔ حضرت سیدنا عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سولہ سال کی عمر میں غزوہ بدر میں شہید ہوئے
یہی نہیں اسلام میں تو اس بات کے بھی شواہد ملتے ہیں کہ کم عمر صحابہ کو مختلف علاقوں کا والی بھی مقرر کیا گیا۔


ان میں سے ایک شخصیت کا مختصراً ذکرکیا جاتا ہے ۔
حضرت عتاب بن اسید عہد رسالت میں والی مکہ رہے۔ انھیں رسول اللہﷺنے دو چادریں مرحمت فرمائی تھی اور ان کے گزارہ کے لئے دو درہم یومیہ کا وظیفہ مقرر فرما دیا تھا۔ حضرت عتاب بن اسیدؓ حضرت صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں بھی والی مکہ کے منصب پر برقرار رہے اور جس دن حضرت ابو بکرؓ کی وفات شریف ہوئی اسی دن حضرت عتابؓ نے بھی اس دار فانی کو کوچ کیا۔ عمر شریف 25 یا 26سال ہوئی۔ اتنی کم عمری میں حضرت عتابؓ نے اپنے تقویٰ و پرہیزگاری، محبت خدا و رسولﷺ اور اپنے فرائض منصبی کا کما حقہ ذمہ داریوں کو پورا کرکے ایسے گہرے نقش قائم کئے جس کی مثال نہیں ملتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :