اللہ سے تعلق

بدھ 2 فروری 2022

Nafeesa Ch

نفیسہ چوہدری

للہ سے تعلق کیا ہے؟ کیسے ہوتا ہے؟ کس نوعیت کا ہوتا ہے؟ کیسے پتا چلتا ہے کہ آپکا اللہ سے تعلق ہے
آپ نے ہاتھ اٹھاۓ آسمان کی طرف دیکھا موسلا دھار بارش برسنے لگی ثابت ہوا آپکا اللہ سے تعلق ہے ایسا نہیں ہوا تو نہیں ہے
ایسی ہی بہت سی کرامات آپکے ہاتھوں وقوع پذیر ہوٸیں تو آپکا تعلق ہے علاوہ ازیں تعلق نہیں
یہ سارے مقامات اور یہ سارے امور اپنی جگہ۔

۔۔۔۔آپکا اللہ سے تعلق ہے یہ آپکو خود سے پوچھنا ہے
یہ اصطلاح زبان زدِ عام ہے
من عرفَ نفسہٗ فقد عرف ربہٗ
یعنی جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا
یہ بات ١٠٠ فیصد ہے
تو پھر چلیے دیکھتے ہیں ہمارا اللہ سے تعلق کتنا ہے؟ کہاں ہے؟ کیسا ہے؟
اپنی پہچان یہ نہیں کہ آپ مکمل طور پرہر نقطہ جان گۓ ہر راز سمجھ گۓ
نہیں
بلکہ کسی ایک پہلوکو پہچان لینا بھی پہچاننا ہی ہے
آپ نے جھوٹ بولا
ہم عام اور سادہ سے نقطے سے آغاز کرینگے
آپ نے جھوٹ بولا اگلے نے سچ مان لیا اب آپ اس سے الگ ہوۓ تو ایک عجب سی بے چینی نے آپکو گھیر لیا آپ میں ایک ہلچل سی بپاہوٸ آپ کو اپنے جھوٹ پہ ندامت ہے
اب آپ نے اس ندامت کے پسِ پردہ وجوہات کوexplore کرنا ہے کہ ایسا کیوں ہوا کس وجہ سے یہ احساس ندامت ہے
آپکو ڈر ہے یار اگر میراپول کُھل گیا تو کیا ہوگا
میری شخصیت damage ہوگی میری شہرت کونقصان ہوگا
لوگوں میں وقار مانند پڑ سکتا ہے
ان تمام صورتوں میں آپکا اللہ سے link انتہاٸ کمزور ہے
کیونکہ آپکو تو لوگ ہی کارساز دِکھ رہے ہیں
لیکن اسکے برعکس اچانک آپکو خیال آیا کہ میں نے جھوٹ بولا میرے اللہ کو دکھ ہوااسے بُرا لگا وہ ناراض ہوگا آپ نے چُپکے سے غیر محسوس انداز سے ہاتھ اٹھاۓ اسکے سامنے جوڑے اور آنکھیں موند لیں
تو مان لیجیے نا۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔!!!!کہ کہیں نہ کہیں آپ اس سے رابطے میں ہیں اب اس رابطے کے پیچھے پڑ جاٸیے اور اس تعلق تک پہنچ جاٸیے
آپ نے کسی انسان کی دلآزاری کی ایک وقت گزرا آپکو اس احساس نے نڈھال کر دیا سوچا یار اسکا دل دکھا میں نے اللہ کے بندے کو اذیّت دی اب آپ اس چند وجوہات کی بنا پہ اس سے اپنی کیفیت نہیں بیان کرسکے مگر آپ نے آسمان کی طرف دیکھا اللہ سے معافی مانگی اس کے سامنے اپنی بے بسی کی پوٹلی رکھ دی
مبارک ہو۔

۔۔۔۔۔!!!!
آپکا اللہ سے تعلق بلاشبہ قاٸم ہے آپ بھی اللہ والے ہو
رات کے کسی پہر آپکی آنکھ کُھلی آپکو خیال آیا کہ چلو ٢ نفل ادا کر لوں اسکے سامنے اپنے پراگندہ حال پہ رولوں آپ اٹھے جاۓ نماز پہ گۓ اچانک کیفیت ایسی ہوٸ کہ ہچکی بندھ گٸ یہ سب اسلیے نہیں ہوا کہ آپ ایک ریگولر نمازی پرہیزگار ہیں بلکہ یہ سب ایک by chance طاری ہونے والی کیفیت تھی جسکا دورانیہ بے شک ٢٠ منٹ تھا
لیکن آپ جان لجییے آپکا اللہ سے ایک عجیب تعلق ہے اور وہ تعلق اُستوار ہونے کے لیے بے تاب ہے
آگے چلیے ۔

۔۔۔۔۔!!!!!
اب آپ بڑے پیمانے پہ آجاٸیے
آپ ایک بزنس مین ہیں کاروباری آدمی ہیں انتہاٸ شہرت کے حامل ہیں
آپ ایک بہت ضروری میٹنگ میں بیٹھے ہیں لاکھوں کی ڈیلنگ اس ایک میٹنگ کی مرہونِ مِنّت ہے
اچانک ایک پیغام ملتا ہے ایک عام سا غریب سا آدمی جس سے آپکو کوٸ فاٸدہ نہیں آپ کے دروازے پہ آیا ہے اسے آپ سے فی الفور مِلنا ہے
آپ نے سب کچھ پسِ پُشت ڈالا اللہ کی خاطر باہر نکل کر اس آدمی سے ملے محبت دی اپناٸیت کا احساس دلایا
تو لکھ کر رکھ لیں آپ اللہ سے تعلق کے اعلیٰ درجے پہ ہیں بس آپکی اپنے آپ سے آخری مُلاقات باقی ہے
آپکی تذلیل کی جارہی ہے مگر آپ خاموش ہیں  آپ غلط ہیں لیکن کسی کے سامنے روۓ نہیں اسکا مستحق خالقِ حقیقی کو جان کر رات کے وقت اپنے کمرے میں اندھیرا کیے اسے سے اپنے رازو نیاز Share کیے جارہے ہیں
سجدہ شکر ادا کیجٕیے آپکا اللہ سے لاجواب تعلق ہے
آپ غلط نہیں مگر اپنی صفاٸ میں دلیل میں ایک لفظ نہیں بولے بس یہ بات بھی اپنے رب سے پوچھنا اور بتانا چاہتے ہیں
تو
That's the contact with Allah
یہی اللہ سے تعلق ہے
کوہِ طور شرط نہیں ہے
شاعر لکھتا ہے
میرے شوق کی یہیں لاج رکھ
وہ جو طور ہے بہت دور ہے
اللہ سے تعلق ایک کیفیت ہے ایک خاموش احساس ہے جو نظر نہیں آتا سرچ کرنا پڑتی ہے
جب آپ خود سے پوچھیں گے آپکو لگے کہ ان وجوہات کی بنا پر آپ اسے رابطے میں ہیں تو پھر مزید قریب ہوجاٸیے اس خاموش رابطے سے نکل کر اسکے گھر جانا شروع کیجیے اس سے Meetings arrange کیجیے بہت جلد آپکو appointmnt مل جاۓ گی
پھر اس تعلق سے ہر وقت لُطف ااندوز ہوں ہر وقت اس نشے میں سرشار رہیے۔


دیکھیے !
جب کبھی شدت سے مانگنے کو دل کرے یعنی کبھی دستِ طلب اُٹھ جاۓ دامن طلب غیراردای طور پر بے تاب ہو جاۓ چشمِ طلب،طلب کا تخیل کیے بند ہوجاۓ قلبِ اضطرار عجیب سی کیفیت میں تڑپنے اور بِلکنے لگے تو ایک کام کیجیے گا ضرور باالضرورکیجیے گا "نگاہ" مانگ لیجیے گا گڑگڑا کے مانگ لیجیے گا
"نگاہ" کیا ہے؟
عُمر پہ نگاہ ہوٸی
ابوبکر نگاہ کاسرچشمہ ہے
بلال ایک نگاہ پہ تصدق ہے
علی ایک نگاہ کی بدولت ہے
اس سے نیچے آٸیے تاریخ کی اوراق گردانی کیجیے ہر صاحبِ فضل و کمال ایک نگاہ کا نتیجہ ہے
حمیدہ بانو ایک نگاہ کی حمیدہ ہے جو کتابوں کے سینوں میں اسطرح محفوظ ہے کہ لاشعوری طور پر حمیدہ کا روپ دھار لینے کی خواہش انگڑاٸیاں لینے لگتی ہے
بہت سادہ سے اندا میں سادہ سے پیرایے میں مُدعا بیان کرنے کا مقصد اسے قارٸین کی افہام و تفہیم کی زینت بنانا ہے
اب چلیےموضوع کی جانب تو بات ہورہی تھی کہ اللہ سے تعلق کیا ہے؟
ایک رقمطراز لکھتا ہےکہ آنسوٶں کی بذاتِ خود کوٸ Value نہیں ہوتی بے اُس نے تو بس اتنا ہی لکھا
یہ جُملہ بھی وضاحت طلب ہے
کہ بھٸ آنسوٶں کی کیوں قیمت نہیں ہوتی ؟
آپ "قیمت نہیں ہوتی"اس بات کو چھوڑٸیے
"بذاتِ خود" پہ آجاٸیے
یعنی یہ قیمت موقع محل سے بنتی ہے آنسو در حقیقت قیمتی اسوقت ہوتے ہیں احساسِ ندامت،احساس انسانیت یا ہجرِ یار میں رواں ہوتے ہیں اسوقت انھیں آنسو نہیں موتی کہیے
وہ موتی جنہیں کوٸ جوہری نہیں بلکہ خود آپکا اللہ خریدتا ہے
اسوقت اللہ customer بن جاتا ہے یہ گوہرِ نایاب اسی بارگاہ میں بِکتے ہیں
تو پھر سوچیے !!!!!!
وہ جو مالکِ کُل ہے ہر چیز جسکے قبضہ قدرت میں ہے وہ کیا قیمت لگاۓ گا ان موتیوں کی ؟
ممکن قیمت تو انسان لگاتے ہیں
بِلاشُبہ وہ ناممکنات میں سے قیمت ادا کریگا
اب اس ساری بحث کو سمجھنا اور اسکا دل میں اُتر جانا بھی اللہ سے تعلق ہے
کسی کو تکلیف پہنچاٸ پھر ہر روز اس سے غاٸبانہ معافی مانگنے لگے دل بیقرار سا ہوگیا
تو یہ بھی اللہ سے تعلق ہے
کسی حاجت مند کو دیکھ کر دل بھر آیا اور پھر اگر اسکی ضرورت پوری کرنے کو پاس کچھ نہیں تھا تو فقط اسے گلے لگایا تسلّی دی پیار کیا
تو بِلاشبہ یہ اللہ سے تعلق ہی ہے
لوگوں کے سبھی معاملات سمجھ میں آتے ہوۓ بھی درگزر کردینا یہ بھی اللہ سے تعلق ہے
ایک مشہور واقعہ ہے
کہ ایک آدمی کی بہت بڑی کمپنی تھی اسمیں بہت سارے مزدور کام کرتے تھے اس آدمی نے اپنی کمپنی کا ایک قانون بنا رکھا تھا جس میں نہ وہ خود تحریف کرتا تھا اور نہ ہی اس نے اپنے بچوں کو اس بات کی اجازت دے رکھی تھی اور وہ یہ تھا کہ
کچھ بھی ہو کوٸی مزدور ہیر پھیر کرے،سُستی کرے، غفلت کرے اسے کام سے فارغ نہیں کیا جاۓ گا
اس کا یہ عقیدہ تھا کہ مںں اللہ کے دیے ہوۓ میں سے تنخواہ دے رہا ہوں اور اللہ نے انکارزق میرے در پہ وسیلہ بنا کر لکھ دیا ہے
کہیں ایسا نہ ہومیں رزق منقطع کرکے رازق عملاً رازق ہونے کا دعویٰ کر بیٹھوں
یہ چیز کیا ہے؟
اللہ سے تعلق

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :