چند موذی وائرسز اور ان کا پس منظر

پیر 6 اپریل 2020

Naveed Hussain Minhas Advocate

نوید حسین منہاس ایڈووکیٹ

انسان جب سے جدید دنیا کی رنگینیوں میں قدم رکھ رہا ہے تب سے بے شمار وائرسز کا سامنا کر رہا ہے۔یہ کہنا بالکل غلط نہ ہو گا کہ بہت سی ویکسین اور اینٹی وائرل ادویات نے ان وائرسز کو روکے کے لیے ممکنہ حد تک انسان کا ساتھ دیا ہے اور انسانوں کو کسی حد تک صحت مند ہونے میں مدد فراہم کی ہے لیکن اس ساری تگ و دو کے با وجود ان وائرسز کے حملوں اور خوفناک یلغاروں سے انسان لاچار اور بے بس ہی نظر آیا ہے لیکن چیچک ایک وائرس کی ایسی قسم ہے جس کو انسان نے مات دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اور اس میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھے ہیں۔


لیکن ہم ابھی بھی وائرس کے خلاف جنگ جیتنے سے کوسوں دور ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں متعدد وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئے اور ہزاروں جانوں کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے ان اچھوت اور جان لیوا امراض کو پوری دنیا میں پھیلانے میں کامیاب ہوئے۔

(جاری ہے)

مغربی افریقہ میں پھیلنے والے ایبولا وائرس نے 2014-2016 سے نوے فیصد ایبولا وائرس سے متاثر شدہ مریضوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جس کی وجہ سے آج مغربی افریقہ کو ایبولا وائرس کا مہلک ترین ملک قرار دیا جا چکا ہے۔

لیکن اس کے باوجود افریقہ میں اور بھی بہت سے دوسرے وائرسز موجود ہیں جو نہ صرف مہلک ہیں بلکہ جان لیوا بھی ہیں۔ اسی طرح کے ایک وائرس کی قسم نوول کورونا ہے جو آج کے دور میں تیزی سے پھیلتا ہوا وائرس ہے جس کی شرح اموات شروع میں تو کم تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس سے اموات کی شرح میں تیزی آتی گئی اور آج پوری دنیا کے لوگ اس وائرس کے خوف سے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ ہمارے پاس آج کے اس جدید دور میں بھی اس وباء سے مقابلہ کرنے کے وہ ذرائع اور وسائل نہیں ہیں جن سے اس موذی وائرس کو مات دی جا سکے۔


آج یہاں پہ چند ایسے ہی خطرناک وائرسز کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کے بارے میں کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر یہ وائرسز انسان کو لاحق ہو جائیں تو پھر ایسے انسان کے زندگی کو جیتنے کے امکان بہت زیادہ حد تک کم ہو جاتے ہیں تاوقتکہ ایسا متاثرہ شخص موت کو گلے نہ لگا لے کیونکہ یہ وائرسز ہمیشہ سے موت کی نمائندگی کرتے آئے ہیں۔ایسے چند وائرسز کا ذکر حسب ذیل ہے۔


سب سے پہلے ذکر آتا ہے مار برگ وائرس کا جس کا پتہ سائنسدانوں نے 1967ء میں اس وقت لگایا جب اس خطرناک وائرس نے لیبارٹری میں ریسرچ کرتے ہوئے سٹاف کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔یہ وائرس یوگنڈہ سے درآمد شدہ بندروں کی وجہ سے پھیلا جو پہلے ہی اس ماربرگ وائرس سے متاثر تھے۔ اصل میں ماربرگ وائرس ایبولا کی ہی ایک قسم ہے جو انسان میں ہیمریجک بخار کی وجہ بن سکتے ہیں دوسرے لفظوں میں انسان کو تیز بخار کے ساتھ ساتھ پورے جسم سے خون نکلنا شروع ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ دماغی توازن کا کھو جانا اور اعضاء کا غیر فعال ہو جانا ہے جو بعد میں موت کا سبب بنتا ہے۔


اس کے بعد ذکر آتا ہے ایبولا وائرس کا جس نے 1976ء میں سوڈان اور کانگومیں تباہی مچا دی ۔ یہ وائرس انسانوں میں سب سے پہلا معروف وائرس تھا جو خون یا جسم کی کسی دوسری رطوبت ، کسی متاثرہ افراد یا جانوروں کی باقیات کے ذریعے پھیلتا ہے۔ایبولا وائرس کے ماہر اور بوسٹن یونیورسٹی میں مائیکرو بائیولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ایلکے نے اس بات کی تحقیق کی ہے کہ یہ وائرس انسان کے مرتے وقت جسم میں تناؤ کا سبب بنتا ہے جس کا مشاہدہ بہت سارے افراد میں مرتے وقت کیا گیا۔


اس کے علاوہ ریبیز ایک ایسا وائرس ہے جو انسانوں اور ممالیہ جانوروں میں یکساں پایا جا سکتا ہے جو دماغی صلاحیت کو مکمل طور پہ مفلوج کر دیتا ہے اوراس وائرس سے انسان کی موت بہت ہی اذیت ناک اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔اگرچہ پالتو جانوروں کے لیے 1920ء میں اس وائرس سے نبردآزما ہونے کے لیے ویکسین تیار کر لی گئی تھی جس کے دوررس نتائج خاص طور پرترقی یافتہ ممالک میں پائے گئے لیکن ہندوستان اور افریقہ کے کچھ حصوں میں اس وائرس کی وجہ سے حالات سنگین ہی دیکھے جاتے ہیں۔


اس کے بعد ذکر آتا ہے ایچ آئی وی کا جس کا سائنسدانوں نے 1980ء کی دہائی میں چلا لیا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 32ملین افراد اس موذی مرض کا شکا ر ہو کر موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اب تک سب سے زیادہ اموات اسی وائرس سے ہوئی ہیں۔جہاں بہت ساری اینٹی وائرل ادویات نے اس مرض سے لڑنے کے ساتھ ساتھ مریض کی زندگی کی چند سانسیں بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا وہی یہ موذی وائرس دوسرے بہت سارے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں تیزی سے تباہی سے دوچار کر رہا ہے۔


2002ء میں جنوبی چین کے ایک صوبے گوانگ ڈونگ میں تباہی مچانے والا سارس ۔کووی نامی وائرس کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ وائرس سانس کے شدید مسائل کا سبب بنتا ہے ۔ یہ وائرس شاید چمگادڑوں سے شروع ہوا تھااور اس کے بعد یہ وائرس انسانوں میں منتقل ہو گیا اوردیکھتے ہی دیکھتے یہ وائرس دنیا کے 26ممالک میں پھیل گیا ۔ اس وائرس نے تمام دنیا میں 8000 سے زائد افراد کو متاثر کیا اور 770 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔


 اب اگر ڈینگی وائرس کا ذکر کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق ڈینگی ہر سال 50 سے 100ملین افراد کو بیمار کرتا ہے۔اگرچہ ڈینگی بخار کی وجہ سے اموات کی شرح دوسرے وائرسز سے بہت کم ہے لیکن پھر بھی یہ وائرس 2.5 فیصد تک ایبولا وائرس کی برابری کرتا ہے یعنی ڈینگی کی وجہ سے متاثرہ افراد میں سے 2.5 فیصد ہلاک ہو جاتے ہیں۔اس مرض میں بھی متاثرہ افراد ڈینگی ہیمریجک بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2.5 فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد ہو جائے جو کہ ایک خطرناک حد تصور کی جاتی ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں ڈینگی وائرس کے بارے میں مزید سنجیدگی سے سوچنا ہو گا ورنہ یہ آنے والے دور میں ہمارے لیے ایک حقیقی خطرہ بن سکتا ہے جس کے بہت ہی بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :