سنگدل مالکن یا والدین کی غفلت

جمعرات 13 فروری 2014

Nayyar Sadaf

نیئر صدف

کہا جاتا ہے کہ غربا اپنے بچوں کو جب اچھے سکولوں میں نہیں بھیج پاتے یا انہیں مناسب تعلیم نہیں دلوا پاتے تو پھر وہ اپنے بچوں سے کام لینے لگ جاتے ہیں ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر سب سے زیادہ ہے کم و بیش 2کروڑ بچے محنت مشقت کرتے ہیں سکول جانے کی عمر کے بچے دکانوں ہوٹلوں ورکشاپوں چمڑے کے کاروبار میں اور دیگر متعدد جگہوں پر ملازمت کرنے کے علاوہ مزدوری کرنے پر بھی مجبور ہیں مگر میرے نزدیک خاندان کی کفالت کے ساتھ ساتھ کسی بھی شعبے میں مہارت حاصل کرنا مجبوری نہیں ہو سکتا بلکہ اصل مسئلہ اُن پر تشدد کیا جانا ہے جس کے لیے معاشرے کا ہر فرد تشدد کرنے والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ملاحظہ کریں ہمارے معاشرے میں نام نہاد شرفاء کی جانب سے گھریلو ملازم کو تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے علاوہ انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کے دلزاش واقعات گزشتہ چند سالوں سے نہ صرف منظر عام پر آرہے ہیں بلکہ افسوس کا مقام ہے کہ گھریلو ملازمہ خواتین پر جنسی تشدد بھی کیا جاتا ہے جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق مالکان کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازم ابتداء میں مالکان کے اعتبار حاصل کرکے چھوٹی موٹی چوریوں سے لیکر ڈکیتی تک کے واقعات کروانے میں مہرے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان میں سے اکثر خواتین ملازمہ گھر کی ملکہ بننے کے خواب تک دیکھنے لگتی ہیں گویا گھر کی صفائی و دھلائی کے لیے رکھی جانے والی ملازمہ اسی گھر کی ملکہ بننے یا عیش کرنے کے ہر ہتھکنڈے استعمال کرے تو پھر معاشرہ خاموش کیوں ہو جاتا ہے الغرض کمی بیشی ظلم و زیادتی مجبوری ایک طبقے کی ہی نہیں ہوتی بلکہ دونوں جانب سے ہوتی ہے ۔جناب دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے صاحبوں کا کوئی غلام بن کر نہیں رہتا اور نہ ہی آج کے گھریلو ملازم غلاموں کی سی زندگی بسر کرنے کو تیار ہیں میں اس بات کو تسلیم کرتی ہوں کہ اکثر مالکان کے لب و لہجے میں اپنے ملازمین کے لیے سختی ضرور ہوتی ہے ان کو کام کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے آرام کرنے کے لیے نہیں ملازم چھوٹا ہو یا بڑا جس مقصد کے لیے رکھا گیا ہے مالکان اُس سے کام ضرور لیں گے اس لیے کے آخر انہوں نے ایک قیمت یا رقم اُس کے خدمت کے عوض اُن کے والدین کو ادا کر چکے ہیں مگر ہوش تو ان بچوں کے والدین کو کرنا چاہیے جو اولاد کی پرورش کا بوجھ برداشت نہیں کرپاتے مگر دنیا میں لانے میں دیر بھی نہیں کرتے اور پھر پرورش کے فرائض سے غافل ہو کر غربت کا نام استعمال کرکے دور دراز علاقوں میں چھوٹی عمروں میں غیروں کے درمیان بھیج کر اپنے لختے جگروں کی تنخواہ لینے مہینے کے آخر میں پہنچ جاتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں اپنے بچوں کے مصائب کو جاننے میں مالکان کے رویے پر نظر رکھنا یا اُن کے رویوں کو مسلسل نظر انداز کرتے رہنا یہی وجہ ہے ایسے ہی بچوں پر اُن کے مالکان حاوی ہو جاتے ہیں ان کے بچے غلام بن جاتے ہیں تشدد سے لیکر جنسی تشدد تک بات پہنچ جاتی ہے گھریلو ملازمین بچوں کے لالچی والدین کی آنکھ تب کھلتی ہے جب کل کا بوجھ والدین کی غفلت کی وجہ مالکان کے تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں گویا اب بات مردے ہاتھی کی قیمت زیادہ سے زیادہ لگا کر مالکان سے پیسے وصول کرنا رہ جاتی ہے ورنہ کون شعور رکھنے والے والدین اپنے ننھے فرشتوں کو اپنے سے دور غیروں کے درمیان چھوڑ سکتے ہیں۔غفلت گھریلو ملازمین کے والدین کی جانب سے ہوتی ہے مگر اُن مالکان سے بھی درخواست ہے کہ کم آمدنی دینے کی خاطر معصوم بچوں کو اگر کم از کم اپنی اولاد کا درجہ نہیں دے سکتے تو جناب اُن کی خطاؤں پر اُن کی چوریاں کرنے پر اُن کو تشدد کا نشانہ بنانے کی بجائے ملازمین تبدیل کیوں نہیں کرلیتے۔آخر تشدد کا نشانہ بنا کر موت کی وادی تک لے جانے کی کیا ضرورت ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملازموں پر تشدد کے حوالے سے نئی موثر قانون سازی واضح کی جائے ایسے واقعات میں ملوث درندوں کو سخت سے سخت سزائیں دے کر نشانے عبرت بنا دیا جائے تاکہ آئندہ ایسے دل سوزس واقعات کی روک تھام ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :