دینی مدارس میں اصلاحات اورمدارس کے اصل مسائل

ہفتہ 25 جولائی 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

برصغیر پاک و ہند میں ترویج اسلام اور اسلامی اقدار کے تحفظ میں دینی مدارس کا اہم کردار ہے۔یہاں کی عوام کی اکثریت دین کے معاملے میں حساس ہے اور دینی مدارس کی کفالت اور علماء کی خدمت کو اپنے دینی فرائض کا حصہ سمجھتی ہے۔بلا تفریق مسلک ان دینی مدارس نے اپنے اپنے انداز میں دین متین کی خدمت کی ہے۔قیام پاکستان سے قبل دو مختلف شہروں میں مختلف الخیال علماء نے اپنے اپنے مدارس بنائے۔

ان مدارس سے فارغ التحصیل علماء پر مشتمل مکاتب فکر تشکیل پائے۔ لیکن ان دو بڑے مکاتب فکر جن میں دیوبندی اور بریلوی شامل ہیں،ان سب کا منبع و ماخذ امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کی تعلیمات اور ان کی کتب ہیں۔مذکورہ دونوں مکاتب فکر کے مدارس میں قریب ایک ہی طرح کی کتب پڑھائی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

تاہم بعض معاملات میں علمی اختلافات کے باعث آن میں علمی مباحث جاری رہتی ہیں۔

۔قیام پاکستان کی تحریک کے دوران دیوبندی مکتبہ فکر کے احباب قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ متفق نہ تھے جبکہ اہل سنت والجماعت کے علماء بالاتفاق قائد اعظم محمد علی جناح کی پشت پر کھڑے تھے۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بھی بریلوی مسلک کے عوام کی تعداد نسبتاً زیادہ بتائی جاتی ہے۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ساتھ علماء اور عوام میں قربتیں بڑھ چکی ہیں۔

دونوں مکاتب ِ فکر کے مسائل تقریبا ایک جیسے ہیں۔تمام مکاتب فکر کے مدارس ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو چکے ہیں۔اور ان مدارس کی تنظیمات کا اتحاد حکومت کے ساتھ مذاکرات کرتا ہے۔لہذا مدارس اصلاحات بلا تفریق مسلک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نائن الیون کے بعد پیدا شدہ صورتحال کے تناظر میں مشرف دور حکومت میں مدارس پر ایک کڑا وقت آیا۔مدارس کے اکاؤنٹس کی چھان بین کی گئی۔

ان کی ڈگریوں پر سوالات اٹھائے گئے۔مدارس کے نظام تعلیم کے حوالے سے طویل اجلاس ہوئے۔حکومت کی جانب سے کچھ ماڈل مدارس بھی قائم کیے گئے۔لیکن یہ سب اقدامات عارضی ثابت ہوئے۔کیونکہ ان تمام اقدامات کی جڑیں عوام میں نہیں تھی۔خانہ پری کے لیے یہ سارے اقدامات بروئے کار لائے گیے تھے۔عمران خان کے دور حکومت میں مدارس پر خصوصی توجہ دینے کے اعلانات ہوئے۔

مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کو حکومت خیبر پختونخوا کی جانب سے کثیر رقم بطور امداد دی گئی۔حالانکہ اس مدرسے پر یہ الزام تھا کہ تمام طالبان اسی مدرسے کے پڑھے ہوئے تھے۔لیکن مجموعی طور پر کوئی ایسی پالیسی نہ بن سکیں جو تمام مدارس کے لئے قابل عمل ہوتی۔۔گزشتہ سال ارمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر اس معاملے کو ہاتھ میں لیا۔

مدارس کے متعلق کء اجلاسوں کی بذات خود صدارت کی۔علماء کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی طور پر براہ راست ملاقاتیں کیں۔۔ان کے حقیقی مسائل کے ادراک کے لیے اسٹڈی کروائی گئی۔مدارس کے شکوک و شبہات براہ راست سنے گئے۔مسلح افواج کے سربراہ کے ساتھ علمائے کرام کی طویل ملاقاتوں کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔فوج کا بیانیہ موثر انداز میں علمائے کرام تک پہنچایا گیا۔

جبکہ علماء کی آواز بھی بااثر حلقوں تک درست انداز میں پہنچی۔چند ماہ کی اس تحریک کے بعد پھر طویل خاموشی چھا گئی۔لیکن اس دوران ان دینی مدارس کی معاشی پائپ لائن پر کء قدغنیں لگا دی گئی۔کھالوں کی اکٹھا کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔کھالوں سے متعلقہ کاروبار کی حوصلہ شکنی کی گئی اس کی وجہ سے گزشتہ سال ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی۔اور کء مدارس کے اخراجات اور آمدن میں توازن اس حد تک بگڑ گیا کہ وہاں کے اساتذہ بغیر تنخواہ کے کام کرنے پر مجبور ہوگیے۔

حالیہ بجٹ میں وفاقی حکومت کی طرف سے مدارس اصلاحات کے نام پر 5 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی۔جس کے بعد ایک مرتبہ پھر مدارس اصلاحات پر باتیں ہونے لگیں۔ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت کو اپنے روزمرہ کے اخراجات چلانے کے لیے بیرون ملک سے قرض لینے پڑ رہے ہیں۔کرونا نے ملک کی معاشی حالت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔عوامی مسائل اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ بظاہر ان کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔

مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ملک میں پٹرول سستا ہونے کے باوجود نایاب ہے۔اور حالیہ اضافہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکہ ثابت ہوا ہے۔ان حالات میں یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ مدارس کی اصلاحات کے لیے حکومت پانچ ارب روپے کیسے مختص کرے گی۔فی الحال اس رقم کا مصرف بھی نہیں بتایا گیا۔
اس موضوع پر مزید گفتگو سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے ہے کہ ہم پاکستان میں موجود مدارس کا ایک اجمالی جائزہ لے لیں تاکہ حالات کا حقیقی معنوں میں تجزیہ کیا جا سکے۔


پاکستان میں مشرف دور کی روشن خیالی، پیپلز پارٹی کے دور کا لبرلزم اور نواز شریف کی ترقی پسندی کے دعوؤں کے باوجود پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔لوگوں کا مذہب کی طرف رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان میں اس وقت دینی مدارس کی تعداد کے اعتبار سے دیوبندی مکتبہ فکر کے مدارس کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ان مدارس کی تنظیم کو وفاق المدارس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

مولانا محمد حنیف جالندھری عام طور پر اس وفاق کی نمائندگی کرتے ہیں۔2017 اور 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق 18600 مدارس اس وفاق کے ساتھ منسلک ہیں۔ان کے اعداد و شمار کے مطابق کم و بیش 20 لاکھ کے قریب طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ایک سال کے دوران ان مدارس کی تعداد میں 10 سے 12 فیصد اضافہ ہوا۔ایک غیر سرکاری ادارے کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اب صرف غریب علاقوں کے طلبہ ہی دینی مدارس کا رخ نہیں کر رہے بلکہ متوسط گھرانوں کے بہت سے طلبہ کا رجحان بھی مذہبی تعلیم کی طرف ہو رہا ہے۔

پاکستان کے بڑے شہروں۔ لاہور۔ اسلام آباد۔اور ملتان میں وفاق المدارس کے زیر انتظام مدارس میں طلبہ کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔افغان طالبان اور پاکستانی طالبان بھی مجموعی طور پر دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔اور کء بڑی سیاسی جماعتیں مثلا جمیعت علماء اسلام بھی اسی مسلک کی تقلید کرتی ہے اور موقف طور پر وفاق المدارس کی جانب سے اپنائے گئے موقف کی بھرپور تائید کرتی ہیں۔

۔
اہل سنت والجماعت بریلوی مسلک سے منسلک مدارس کی تنظیم کو تنظیم المدارس کیاجاتا ہے۔اس وقت وقت تنظیم المدارس کے ساتھ منسلک اداروں کی تعداد تقریبا 10 ہزار ہے۔اس میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کی تعداد کم و بیش 13 لاکھ سے زائد ہے۔ان مدارس کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔2014 میں ان مدارس کی تعداد 8300 تھی۔اور طلبہ کی تعداد گیارہ لاکھ تھی۔

۔بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے ادارہ منہاج القرآن سے منسلک دینی تعلیمی ادارے اپنے الگ نظم کے تحت کام کر رہے ہیں جن کی قیادت پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کرتے ہیں۔اسی طرح دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کے نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ 800 سے زائد دینی تعلیمی ادارے وابستہ ہیں جہاں پر دو لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں. بھیرہ شریف کا نیٹ ورک بلاشبہ مختلف وفاقوں سے الگ ایک اپنی شناخت رکھتاہے۔

یہاں کا نصاب تعلیم ضیاء الامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری نے ترتیب دیا تھا۔ ضرورت اور حالات کے مطابق تبدیلیاں کی گئیں۔ادارہ کے موجودہ سربراہ پیر محمد امین الحسنات شاہ نے 2001 ادارہ کے نصاب میں انقلابی تبدیلیاں کی ہیں۔بعد میں جامعہ الازہر مصر سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر پیر ابوالحسن محمد شاہ نے مزید تبدیلیاں کیں اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کتب شامل کیں۔

ان مسلسل تبدیلیوں کے بعد حکومت پاکستان اور ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس نصاب کو ماڈل اور قابل تقلید قرار دیا۔ اس کی وجہ سے یہ ادارہ تمام وفاقوں کے مقابلے میں ایک مستحکم نظم رکھتا ہے۔جماعت اسلامی کے تحت چلنے والے مدارس کے وفاق کا نام رابطہ المدارس ہے۔اس نظم کے تحت 1018 مدارس کام کر رہے ہیں۔ان مدارس میں 450 ہزار طالبات کے لیے مخصوص ہیں۔

اہل حدیث مکتبہ فکر کے تحت 1400مدارس چلاے جا رہے ہیں۔ان ان مدارس کے وفاقی تنظیم کو وفاق المدارس سلفیہ کہا جاتا ہے۔کیوں کہ مجموعی طور پر پاکستان کی آبادی میں اس مکتبہ فکر کے حامل لوگوں کی تعداد کم ہے ہے اس کے باوجود وفاق المدارس سلفیہ کے زیر اہتمام 1400مدارس ہیں۔جن میں 39000 کے قریب طلباء زیر تعلیم ہیں۔19 ہزار کے قریب طالبات بھی اس تعداد میں شامل ہیں۔

وفاق المدارس سلفیہ کے اداروں میں داخلوں کے رجحان میں دو فیصد اضافہ دیکھا گیا۔۔اہل تشیع مکتبہ فکر کے پاکستان میں کل 460 مدارس ہیں۔ان مدارس کی تنظیم کو وفاق المدارس شیعہ کہا جاتا ہے۔ان مدارس میں 16 ہزار سے لے کر 18ہزار کے قریب طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔یہاں پر بھی داخل ہونے والے طلبہ کی تعداد میں 3 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔مذکورہ وفاق اور اداروں کے علاوہ جماعت اسلامی،جماعت الدعوہ،دارالعلوم کراچی،اقرا روضة الاطفال،مدینہ الاطفال،حدیقہ الاطفال،اور دعوت اسلامی کے تحت بھی مختلف دینی مدارس مختلف ناموں سے کام کر رہے ہیں ہیں۔

۔. غیر ملکی فنڈنگ کے تحت کام کرنے والی مختلف این جی اوز اور مختلف ادوار میں مختلف حکومتی کوششوں کے باوجود ملک میں دینی تعلیمی اداروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا طبقہ دینی مدارس کی طرف رجوع کرنا پسند کرتا ہے۔
دینی مدارس کا شرح خواندگی بڑھانے میں کردار
پاکستان میں شرح خواندگی کے علاقہ میں دینی مدارس کا بنیادی کردار ہے۔

یونیسکو انسٹیٹیوٹ آف اسٹیٹکس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان پاکستان کے نو عمر بچوں میں سے سے 2کروڑ 4لاکھ 88ہزار بچے اسکولوں کا رخ نہیں کرتے۔جبکہ پرائمری سیکشن کے ایج گروپ کے 53 لاکھ 24ہزار سکولوں سے باہر ہیں۔اسی طرح مالی وسائل کے نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنے کی شرح کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر کے 16 نمبر پر ہے اس حوالے سے اگر دینی مدارس کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو گی دینی مدارس کے طرف رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اور مدارس میں داخل ہونے والے 80 فیصد کی تعداد میں طلبا اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔دینی مدارس کے اتحاد کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال ایک لاکھ کے قریب حفاظ اور پچاس ہزار کے قریب علماء ہر سال کی مدارس کی طرف سے تیار کیے جاتے ہیں۔اور ان مدارس میں حکومت کی طرف سے کنٹریبیوشن کی شرح تقریبا صفر ہے۔
5ارب کا قصہ کیا ہے؟کن مدات میں حکومت مدارس کی مدد کر سکتی ہے۔


بجٹ تقریر میں حکومت کی جانب سے مدرسہ اصلاحات کے نام پر 5 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کر کے ایک نء بحث کا آغاز کر دیا گیا۔ہر دور حکومت میں دینی مدارس کی اصلاح ایک محبوب مشغلہ رہا ہے۔مدارس میں اصلاحات کے شوقین حضرات بدقسمتی سے کسی دینی مدرسے کے قریب سے بھی نہیں گزرے اور نہ ہی ان کو مدارس کے نظم و نسق سے آگاہی ہے۔ان دنوں دنیا میں سپیشلائزیشن کا دور ہے۔

دنیا میں ہر علم کے ماہرین پیدا ہو رہے ہیں اور انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔پاکستان کے مدارس احکام شریعت کی تعلیم اور تخصص کے لیے مخصوص تعلیمی ادارے ہیں۔ یہاں پر علماء فقہاء مفتیان کرام اور محدثین پیدا ہوتے ہیں۔لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ان مدارس میں ساتھ ساتھ سائنسدان، انجینئرز اور ڈاکٹر بھی پیدا ہوں تو اس کے عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔

یہ تو ایسے ہی ہے کہ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے طلباء کو کہا جائے کہ وہ ڈاکٹر بننے کے ساتھ ساتھ صرف و نحو میں مھارت پیدا کرے یا انجینئرنگ یونیورسٹی میں ھدایہ اور جامی نصاب میں شامل کی جایں۔نصابی امور میں دینی اداروں نے انقلابی تبدیلیاں کی ہیں اگر ان کتب کو دیکھا جاے تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ دینی تعلیمی اداروں نے اپنے نصاب میں حیرت انگیز تبدیلیاں کی ہیں۔

اس سلسلہ میں بھیرہ شریف کی مثال کافی ہوگی۔۔اگر حکومت وقت واقعی ان دینی مدارس میں اصلاحات چاہتی ہے تو ان کو چاہیے کہ وہ دینی مدارس میں کام کرنے والے اساتذہ کرام اور اپنی پوری عمر صرف کرنیوالے شیخ الحدیث حضرات کے حالات کار میں بہتری کے اسباب مہیا کرے۔
دینی اداروں اور سرکاری اساتزہ کی مراعات کا موازنہ۔
جب کوئی شخص بطور استاد محکمہ تعلیم میں ملازمت کا آغاز کرتا ہے گریڈ 14 میں ملازمت کا اغازکرنے والا ایک ٹیچر 35000روپے،گریڈ 15 میں ملازمت کا آغاز کرنے والا ٹیچر 40000جبکہ گریڈ 16میں ملازمت کا آغاز کرنے والا استاز تقریبا 45000 اوسطا تنخواہ لیتا ہے سرکاری سکول کا ہیڈماسٹر اوسطا 55000روپے تنخواہ لیتا ہے۔

سرکاری سکول کے ٹیچر کو ریٹائرمنٹ کے بعد لاکھوں روپئے بطور گریجویٹی ملتی ہے۔جبکہ کہ اس کی تنخواہ کا تقریباً نصف سے بھی زیادہ بطور پنشن ملتا ہے۔حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک ہیڈ ماسٹر صاحب کو ریٹائر ہونے پر تقریبا ایک کروڑ روپے گریجویٹی ادا کی گء جبکہ کہ تقریبا ایک لاکھ روپے ان کی پنشن بنی۔یہ محض ایک مثال ہے۔اگر سرکاری تعلیمی اداروں میں فرائض سر انجام دینے معزز اساتذہ اور دیگر ملازمین کی مراعات کا جائزہ لیا جاے تو حیرت انگیز انکشافات سامنے ایں گے۔

اس کے مقابلہ میں دینی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ کرام کی تنخواہوں اور مراعات پر نگاہ ڈالی جاے تو معلوم ہوگا کہ 40سال تک علم حدیث کی خدمت کرنے والا 25000پر کام کر رہا ہے نصف صدی سے شیخ القرآن کے منصب پر بیٹھنے والا محض 30000 بطور خدمت وصول کر رہاہے۔اگر حکومت واقعی مدارس اصلاحات میں مخلص ہے تو درج زیل اقدامات کرے۔
1۔اساتزہ کرام کی تنخواہیں سرکاری اداروں کے مساوی مقرر کی جائیں۔


2۔دینی اداروں کے اساتزہ کرام کو ای او بی ای میں سرکاری خرچ پر رجسٹرڈ کیا جاے۔انکے علاج معالجہ پر توجہ دی جاے
3۔اگر حکومت اصلاحات چاہتی ہے تو دینی اداروں میں انٹرنیٹ کی تیز ترین سہولیات مہیا کرے اور مخصوص درجوں کے طلبا و طالبات کو ٹیب۔لیپ ٹاپ فراہم کیے جایں۔
4.اگر اصلاحات کرنی ہیں تو دینی اداروں کو یوٹیلیٹی بلز میں سبسڈی دی جاے اور لاک ڈاؤن کے دوران بلز معاف کر کے ریفنڈ کیا جاے
5.دینی اداروں سے فارغ التحصیل علماء کی ملازمت کیلے کوٹہ سسٹم مقرر کیا جاے۔


7۔دینی اداروں کی سندات کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہوے ماضی میں کیے گیے معاہدوں کی پاپندی کی جاے۔
8.حکومتی گرانٹ نمائندہ وفاقوں اور وفاقوں کے علاؤہ اپنا الگ نظم رکھنے والے اداروں مثلا دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف جیسے اداروں کو دی جائیں۔
9۔دینی اداروں کی مثبت سرگرمیوں کی حوصلہ افزای کی جاے۔
اگر مزکورہ اقدامات کی جائیں تو نہ صرف دینی طبقات کی استعداد کار میں اضافہ ہوگا بلکہ انکو قومی دھارے میں لانے میں مدد ملے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :