پاک بحریہ کی تاریخی بحری فوجی مشقیں۔امن 2021،اثرات،مضمرات

جمعرات 21 جنوری 2021

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

اگر دنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان جغرافیائی طور پر ایک اہم ترین جگہ پر واقع ہے۔پاکستان کی اہمیت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک جزیرہ نما عرب اور برصغیر کے درمیان واقع ہے اور دنیا کے تین اہم خطوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے۔ان میں وسطی ایشیائی ریاستیں،عوامی جمہوریہ چین اور جنوب مشرقی ایشیا کی طرف خلیج عمان اور آبنائے ہرمز کے قرب میں موجود ہے اور یہ ان تینوں خطوں کو آپس میں جوڑتا ہے۔

پاکستانی سمندر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسمیں تین ہزار سے زائد بحری جہاز پاکستانی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے ہیں اور 45 ہزار سے زائد بحری جہاز پاکستان کے قریب سے گزرتے ہیں۔تجارتی طور پر پاکستان کے سمندر کی حیثیت اس طرح سے بیان کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی کل تجارت کا 70 سے 80 فیصد سے زائد حصہ سمندر کے راستے سے دوسرے ممالک کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

سی پیک کی وجہ سے پاکستان جنوب مشرقی ایشیا کی طرف جانے والے ممالک کا ایک گیٹ وے بن چکا ہے۔ اور تجارت کا ایک نیا راستہ کھل چکا ہے۔جب کہ تیل اور تیل کی مصنوعات کی تجارت سو فیصد سمندری راستے سے ہوتی ہے۔اس لئے میں یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں کہ پاکستان کا سمندر دراصل پاکستان کی صنعتی اقتصادی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔اقتصادی ترقی کے مواقع کے ساتھ ساتھ سمندری راہزنی اور آبی دہشت گردی میں اضافے کا خطرہ بھی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

اس لیے سمندری راستوں کو محفوظ بنانے کے لیے دنیا کے تمام ممالک اپنے اپنے علاقوں میں مخصوص انتظامات کر رہے ہیں۔بحری قزاقی کے علاوہ منشیات اور انسانی سمگلنگ کے لئے سمندری راستوں کا استعمال کیا جانا بھی عام ہے۔ان خطرات سے نمٹنے کے لیے سمندری حدود کی حفاظت کی اہمیت کئی گناہ زیادہ بڑھ چکی ہے۔عالمی اداروں کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2009 سے لے کر 2011 تک اضافہ ہوا ہے۔

بحری قزاقی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سمندروں کی طرف سے ملکوں کی حدود کی خلاف ورزی بھی ایک معمول ہے۔پاکستان کا ہمسایہ ملک بھارت ایک جارح ملک کے طور پر پوری دنیا میں مشہور ہے۔پاکستان کی سمندری حدود میں ان کے جہازوں کی سرحدی خلاف ورزی معمول کے مطابق جاری رہتی ہے اور پاکستانی جوان ان کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

پاکستان ایک امن پسند ملک ہونے کے ناطے صرف اپنے دفاع کا خیال کرتا ہے اور پیش قدمی کی پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہے۔ملک کی دفاعی ضروریات کے پیش نظر ضروری ہے کہ دیگر ممالک کی افواج کے ساتھ ہر وقت رابطے میں رہا جاے۔۔خلیج میں مختلف مقامات پر دہشت گردی کو روکنے اور سمندری حدود میں امن و امان کے قیام میں پاک بحریہ کی خدمات پوری دنیا تاریخ کا چکی ہے۔

پاکستان نیوی نے 2004 میں سی ڈی ایف 150 اور 2009 سی ڈی ایف 151 میں شامل ہوا۔
امن 2021 کا پس منظر کیا ہے؟    امن اردو زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ارام۔پاکستان کی فوجی مشقوں کو امن کا نام دے کر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی فوجی مشقیں دنیا میں امن کرنے اور امن برقرار رکھنے کے لیے ہیں۔یہ ویژن پاکستان کے امیر البحر ایڈمرل امجد خان نیازی کی فکر اور سوچ کا نتیجہ ہیں۔

پاکستان کی بحری افواج کی ان مشقوں کا مقصد جارحیت کرنا نہیں بلکہ جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے۔اور دنیا میں امن و امان برقرار رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔امن کے نام سے فوجی مشقوں کا سلسلہ 2007 میں شروع ہوا پاکستان کی کوششیں یہی رہی ہیں یہ تھا کہ امن سب کے لئے۔مشقوں میں شریک۔ممالک کی فوجی صلاحیتوں اور استعداد سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا اور۔

ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے جس میں ایک دوسرے کی خامیوں اور خوبیوں کا براہ راست فائدہ اور نقصان تمام ممالک کو ہوتا ہے۔پاکستان نے آگے بڑھ کر قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے ان کی میزبانی کا فیصلہ کیا ہے۔ایڈ مرل امجد خان نیازی نے ان مشقوں کو پاکستان میں منعقد کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

اور دنیا کے تمام بڑے ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔امن 2021 پاکستان کی تمام افواج خصوصا بحری افواج پر اس کے اعتماد کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ان فوجی مشقوں کے ذریعے پاکستان کی بحری افواج نیٹو ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں گی۔جبکہ نیٹو ممالک کے فوجی بحری بیڑے پاکستان کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں گے۔امن کے نام سے متعدد مشقوں کا انعقاد کیا جا چکا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔


امن 2007بحری مشقیں۔    مارچ 2007 میں پہلی امن فوجی مشقیں منعقد ہوئی جس میں کئی ممالک کے جہاز اور مبصرین اور آفیشلز نے بھی حصہ لیا۔اس مشق میں بنگلہ دیش چین فرانس اٹلی ملائیشیا برطانیہ اور امریکہ سمیت 14 ممالک کے بحری جہاز شامل تھے جبکہ ترکی اور بنگلہ دیش کے بحری جہاز بھی ان ملکوں میں شامل تھے۔مجموعی طور پر 21 ممالک نے بحری مشقوں میں حصہ لیا۔


امن بحری مشقیں 2009۔    دوسری امن بحری مشقیں 2009 مارچ میں منعقد ہوئی جس میں مجموعی طور پر 24 ممالک کے بحری اور ہوائی جہاز شریک ہوئے۔ان میں آسٹریلیا بنگلہ دیش فرانس ملائیشیا سمیت کے ممالک شریک ہوئے چین اور امریکہ کی طرف سے بھی فوجی مشقوں میں حصہ لیا جبکہ اور ترکی اور امریکا کے مجموعی طور پر 13جہاز ان مشقوں میں شریک ہوے۔
امن بحری مشقیں 2011۔

    امن 2011 میں مجموعی طور پر 28 ممالک نے براہ راست یا بالواسطہ مشقوں میں حصہ لیا آسٹریلیا چین فرانس انڈونیشیا سعودی عرب اور امریکہ کے مجموعی طور پر گیارہ جہازوں نے حصہ لیا۔مشقوں کے دوران جاپان سے تین طیارے اور چین اور ترکی اور امریکہ کے تین جہاز اور آبدوزیں بھی شریک ہوئیں جبکہ 26 ممالک 43 مبصرین بھی ان مشقوں میں شریک ہوئے۔ امن 2013۔

        چوتھی امن بحری مشقیں مارچ 2013 میں منعقد ہوئی۔ان مشقوں میں ان تین ممالک کے بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں نے حصہ لیا۔دس مختلف ممالک کے کل 12بحری جہاز اور 2 ہوائی جہاز میں شریک ہوئے۔مختلف ممالک کے 63 مبصرین نے ان مشقوں کو دیکھا۔
امن 2015۔        2015 میں پانچویں مشق فروری میں منعقد کی گئی گی۔ان میں 13 بحری جہاز 2 ہوائی جہاز آبدوزوں اور مبصرین نے شرکت کی جبکہ 34 ممالک کے 60 سے زیادہ مبصرین بھی مشقوں میں شریک ہوئے۔


امن 2017.۔         فروری 2017 میں امن 2017 کا انعقاد کیا گیا جس میں 34 ممالک کے بری بحری اور فضائی افواج شریک ہوئی۔سری لنکا اور ترکی کے12 بحری جہاز شریک ہوے۔۔2017 میں ہونے والی مشقوں میں آسٹریلیا،چین،انڈونیشیا، روس، سری لنکا،مالدیپ،اور ترکی برطانیہ سے آنے والے ممالک کے فوجی افسران شریک ہوئے،
امن 2019۔        2019 میں ہونے والی فوجی مشقوں میں دنیا کے 83 سے زائد ممالک ان مشقوں میں شرکت کی دعوت دی گئی۔

ان مشقوں میں 45 بحری جہاز میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی،پی این ایس آئی سمیت10 بحری جہازوں کے بیڑے نے شرکت کی۔ان مشقوں کا باقاعدہ آغاز 8 فروری 2019 کو کراچی میں ہوا۔ملٹی نیشنل میری ٹائم سیکیورٹی فورسز نے ایک متاثر کن پرچم کشائی کی تقریب کے ساتھ ان مشقوں کا آغاز کیا۔اس ابتدائی پروگرام میں شریک ممالک کے غیر ملکی سفارت کار اور پاک بحریہ کے اہلکاروں کی بڑی تعداد، جہازوں کے عملے اور مبصرین نے شرکت کی۔

ان فوجی مشقوں کی خاص بات یہ تھی کہ وائس ایڈمرل محمد امجد خان نیازی اس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔جبکہ رومانیہ کی بحری افواج کے سربراہ،زمبابوے نیشنل آرمی کے کمانڈر،اور سری لنکا کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ان مشقوں کے آغاز میں ایک شاندار مارچ پاسٹ کیا گیا۔ اس تقریب میں شریک ممالک کے تمام افسران شریک ہوئے۔ہر ملک کا پرچم اٹھائے ان کا اپنا اپنا فوجی دستہ اتحاد اور یگانگت کی ایک عمدہ مثال پیش کر رہا تھا مارچ پاسٹ کے بعد تمام ممالک کے جھنڈے لہرا دیئے گئے اور پاکستان کے قومی ترانے بھی بجائے گئے۔

تقریب کے دوران چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا۔پرچم کشائی کی خصوصی تقریب کے بعد وائس ایڈمرل امجد خان نیازی نے میں غیر ملکیوں کے مختلف سوالات کے جوابات دیے۔یاد رہے کہ یہی وائس ایڈمرل امجد خان نیازی ان دنوں پاک بحریہ کے امیر البحر ہیں۔انہوں نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تمام براعظموں سے دنیا کے 45 ممالک کی افواج دہشت گردی،بحری قزاقی،انسانی سمگلنگ،اور آبی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔

ایڈمرل امجد خان نیازی نے مزید کہا کہ ہم یہاں ایک دوسرے سے سبق سیکھنے ایک ساتھ مشق کرنے اور ایک دوسرے کے طریقہ کار کو سیکھنے اور تمام خطرات کے خلاف مشترکہ طریقہ کار اپنانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں کوئی ملک اپنے طور پر تنہا دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔لہذا اس ناسور سے نمٹنے کے لیے دنیا کے تمام امن پسند ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا۔

امجد خان نیازی کی اس تقریر کے بعد جاپان کے دفاعی اتاشی بحریہ نے بھی اپنی گفتگو کی اور پاکستان بحریہ کی پروفیشنل صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔سری لنکا کی نیوی کے چیف آف سٹاف ریئر ایڈمرل جے جے رانا سنگھ نے کہا تمام ممالک کی افواج ایک ساتھ مل کر کام کیوں نہیں کر سکتی۔اٹلی کے بحری جہاز کے کمانڈنگ آفیسر کمانڈر مارکو گوریلزو نے بھی کہا مجھے یہ اعزاز اور فخر محسوس ہو رہا ہے کہ وہ پاکستان میں ہوں گے اور ان بحری مشقوں میں حصہ لیں گے۔

ان فوجی مشقوں کے ساتھ ساتھ میری ٹائم سیکیورٹی کانفرنس بھی منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی، صدر پاکستان جناب عارف علوی تھے۔جبکہ وزیر دفاع پرویزخٹک گیارہ فروری کو ہونے والے اختتامی اجلاس کے مہمان خصوصی بنے۔اس موقع پر پاک بحریہ کے چیف آف اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود بھی موجود تھے۔موجودہ چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔


امن 2021.۔        امن 2021 فروری 2021 میں کراچی کے نزدیک پاکستان کے سمندر میں منعقد ہوں گی۔فروری میں ہی غیر ملکی وفود کی آمد شروع ہوگی۔امن 2021 نامی مشقیں ایڈمرل امجد خان نیازی کا برین چائلڈ ہے۔اور یہ کئی حوالوں سے پاکستان کے
لیے اہمیت کی حامل ہیں۔اس میں دنیا کے 45 ممالک کے ساتھ ساتھ نیٹو میں شامل ممالک بھی شریک ہوں گیان مشقوں کے زریعے۔

پاکستان کے لئے نہ صرف اس کی تقریبا ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحل کی حفاظت بلکہ کھلے سمندروں میں تجارتی جہازوں کی بلا روک ٹوک آمدورفت جیسے اہم ٹاسک کو محفوظ بنانے میں مدد ملے گی۔اور چونکہ بحرہند کی آبی شاہراہوں کا تحفظ ان سب کے لئے اہم ہے جن کے تجارتی اور معاشی مفادات بحیر ہند سے وابستہ ہیں۔اسی لیے اس کھلے سمندر خصوصاً جہاں جہازوں کو جن تنگ آبی راستوں سے گزرنا پڑتا ہے، ان میں امن اور سلامتی کا قیام کسی ایک ملک کی ذمہ داری نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی فریضہ ہے۔

اس لئے گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے بحر ہند میں سے گزرنے والی آبی شاہراہوں کی حفاظت،بحری قزاقی کی بیخ کنی اور دہشت گردوں کی طرف سے ان آبی راستوں کے ذریعے اپنی مذموم سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے خلاف کارروائیوں کے لیے منظم اور مربوط کوششیں جاری ہیں۔امن 2021 اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔گزشتہ مشقوں کی کامیابی کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر دو سال بعد ایسی مشقیں منعقد کی جائیں گی۔

اب تک اس نوعیت کی چھے مشقیں منعقد کی جا چکی ہیں جنکی تفصیل گزشتہ سطور میں اجمالا بیان کی گی ہے۔ اورساتویں مشق اس سال یعنی 2021 میں منعقد کی جائے گی۔ان مشقوں کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سال ہونے والی مشق میں حصہ لینے کے لیے 40سے زائدممالک نے اپنی شرکت کی تصدیق کی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امن کے نام سے شروع کی جانے والی ان مشترکہ بحری مشقوں نے علاقائی سلامتی کے لئے بین الاقوامی سطح پر تعاون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مشقوں میں ایسے ممالک کے جہاز حصہ لیتے ہیں جو اگرچہ بحر ہندکے خطے سے دور واقع ہیں مگر بحر ہند کے اردگرد واقع ممالک کے ساتھ ان کی اہم تعلقات قائم ہیں۔ اس کے علاوہ بحرہند چونکہ عالمی تیل سپلائی کا نہایت اہم حصہ ہے۔ اس لئے ان مشقوں میں شریک ہوکر یہ ممالک حقیقت میں اپنی قومی معیشت اور سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنا رہے ہیں۔

ان میں ایسے ممالک بھی شامل ہیں مثلاًامریکہ جس نے بحرہند میں بھاری تعداد میں بحری جنگی جہاز جن میں طیارہ بردار جہاز اور آبدوزیں بھی شامل ہیں بقرار رکھی ہیں۔ان جہازوں کا تعلق امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے سے ہے اور سینٹرل کمانڈ کے تحت یہ جہاز مستقل طور پر بحیرہ عرب، خلیج اومان، بحرین اور ڈیگو گارشیا کے مجمع الجزائر میں اپنے اڈوں میں مقیم ہیں۔

ان مشقوں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان میں حصہ لینے والے ممالک کی تعداد میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور مشقوں میں باقاعدہ شریک ہونے والے ممالک کے علاوہ مبصرین(Observers) کی تعداد میں بھی اضافہ ہو۔امیر البحر ایڈمرل امجد خان نیازی ان مشقوں کو کامیاب بنانے کیلے زاتی طور پر بھر کوشش میں مصروف ہیں۔اور توقع کی جا سکتی ہے کہ ان مشقوں کی بدولت نہ صرف پاکستان کی فوجی استعداد میں اضافہ ہوگا بلکہ بین الاقوامی تعلقات میں مزید بہتری اے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :